Tuesday, 5 May 2015

Imam Naasir-ud-deen al- Damishqi Refuting Ibn Taymmiya View on Ziarah

The Taymmiya lovers loves to quote Imam ibn Nasir al-Din al-Dimashqi (d.846AH) and his book al-Radd al-Wafir in defence of their Imam, ibn Taymiyya. However, the following is a clear cut example of how many of those who defended him weren’t truly aware of all the deviant positions held by him on various issues. Imam ibn Nasir al-Din al-Dimashqi falls into this category as is evident from the following, where he declares anyone who rejects the Hadiths in relation to the reward and virtue of visiting the grave of the Prophet (sallallahu ‘alaihi wa sallam) a deviant. It is well known that ibn Taymiyya is the foremost proponent of the view that travelling out to visit the blessed grave of the Prophet (sallallahu ‘alaihi wa sallam) is a reprehensible innovation – a view which he based on the rejection of the aforementioned narrations. Imam ibn Nasir al-Din al-Dimashqi mentions:
“Visiting the grave of Rasulullah (sallallahu ‘alayhi wa sallam) is a Sunnah of the Muslims, it is unanimously accepted as an act of reward and it is an act of virtue that is encouraged. The Hadiths on this topic have been accepted and practised upon, even though a few of these Hadiths have weakness. Only a deviant will reject them totally.”
(Jami’ al-Athar, vol.8 pg.141)
Scans:

In addition, it is worth noting that Imam ibn Nasir al-Din al-Dimashqi has written extensively on this and has approved several Hadiths on this issue in the book of his which has been quoted from above (Jami’ al-Athar) – see vol.8 pgs. 129-141. We had compiled these pages into pdf if you would like to download here it is.
ADMIN BOOK:
[for downloading click the given link]

https://makashfa.wordpress.com/2015/05/05/imam-naasir-ud-deen-damishqi-refuting-ibne-taymmiyas-view/

Monday, 27 April 2015

Imam Taj-ud-deen Suboki Refutation to Ibne Taymmiya Translation Urdu Chp 4

ترجمہ؛ باب الرابع ، 


قاضی عیاض مالکی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ قبرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مسلمانوں میں مجمع علیہ سنت ہے۔ اور اس کی فضیلت پسندیدہ چیز ہے۔ قاضی ابو الطیب نے فرمایا حج اور عمرہ کے بعد قبر النبی کی زیارت کرنا مستحب ہے۔ محالی نے (تجرید) میں فرمایا حاجی کے لیئے مستحب ہے کہ حج سے فارغ ہونےکے بعد وہ قبرالنبی کی زیارت کرے۔ ابو عبداللہ الحسین الحلیمی نے اپنی کتاب (المنہاج) میں فرمایا۔ آنحضور کی زندگی میں تو ان کی تعظیم کے طریقے وہ تھے جو صحابہ کرام نے اختیار کیئے اب ان کی تعظیم کا طریقہ یہی ہے کہ قبر کی زیارت کی جائے۔ ماوردی نے (الحادی) میں فرمایا، آنحضور کی قبر کی زیارت کا حکم ہے اور وہ مستحب ہے۔ ماوردی نے (الاحکامُ السلطانیہ) میں حاجیوں پر والی مقرر کرنے کے سلسلے میں فرمایا متولی کے لیئے شرط ہے کہ وہ مطاع، ذی رائے، شجاع ہو اور دیگر شرائط کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا۔ جب لوگ حج کرچکیں تو ان کو کچھ مہلت دے اور جب واپس ہوں تو ان کو مدینہ طیبہ والے راستہ سے واپس لے کر لوٹے تاکہ ان کو حج کے ساتھ قبرالنبی کی بھی زیارت حاصل ہوجائے۔ اور یہ اگر حج کے ارکان میں سے نہیں ہے لیکن شرعی مستحبات میں سے ہے اور حاجیوں کی اچھی عادتوں میں سے ہے۔ 


صاحب (المہذب) نے فرمایا قبر النبی کی زیارت مستحب ہے القاضی حسین نے فرمایا جب حج سے فارغ ہو تو سنت ہے کہ ملتزم کے پاس کھڑا ہوکر دعا کرے پھر زمزم پیئے پھر مدینہ آئے اور حضور کی قبر کی زیارت کرے۔ رؤیانی نے کہا جب حج سے فارغ ہوجائے تو مستحب ہے کہ قبرالنبی کی زیارت کرے۔


احناف کے نزدیک تو قبر النبی کی زیارت مستحبات مین سے سب سے زیادہ افضل بلکہ درجہ وجوب سے قریب تر ہے۔ ابومنصور محمد ابن مکرم کرمانی نے اپنے (مناسک) میں اور عبداللہ بن محمود نے (شرح المختار) میں اس کی تصریح کی ہے اور فتاوی ابواللیث سمرقندی میں حسن بن زیاد کی روایت سے منقول ہے کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ حاجی کےلئے مناسب ہے کہ پہلے مکہ جائے جب وہاں کے ارکان ادا کرچکے تو مدینہ جائے اور اگر پہلے مدینہ ہوآئے یہ بھی جائز ہے۔ مدینہ پہنچ کر آنحضور کی قبرِ مبارک پر جائے ، قبلہ اور قبر کے درمیان اسطرح کھڑا ہو کہ اُس کا رخ قبر کی جانب ہو۔ حضور پر صلوٰۃ والسلام پڑھے اور حضرت ابوبکر وعمر پر بھی سلام پڑھے اور ان کے لیئے رحمت کی دعا کرے۔ ابوالعباس السروجی نے (الغایۃ) میں لکھا ہے جب حج یا عمرہ کرنیوالے مکہ سے واپس ہوں تو مدینہ طیبہ پہنچ کر قبرالنبی کی زیارت کریں یہ اُس کی ایک قابلِ تعریف کوشش ہوگی۔ حنابلہ نے بھی اس طرح کی تصریحات کی ہیں۔ ابوالخطاب محفوط حنبلی نے (کتاب الہدایۃ) میں فرمایا حاجی جب حج سے فارغ ہوجائے تو اس کے لیئے آنحضور اور صاحبین کی قبر کی زیارت مستحب ہے۔ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ السامری الحنبلی نے کتاب (المستوعب) میں فرمایا۔ جب مدینۃ الرسول پر پہنچے ۔ اس کے لیئے مستحب ہے کہ مدینہ میں داخلہ کے وقت غسل کرے پھر مسجد نبوی میں پہنچے اور داخل ہوتے وقت دایاں پاؤں پہلے داخل کرے پھر قبرالنبی کی دیوار کے پاس پہنچ کر اس طرح کھرا ہوکہ قبرالنبی سامنے ہو اور قبلہ پشت کی جانب ہو اور منبر النبی بائیں جانب ہو اور پھر دعا وصلوٰۃ وسلام کی کیفیت بیان کرنے کے بعد فرمایا۔ یہ بھی کہے اے اللہ تو نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے۔ (اور اگر ان لوگوں نے جس وقت اپنا برا کیا تھا تیرے در پر آتے پھر اللہ سے بخشواتے اور رسول ان کو بخشواتا اللہ کو پاتے معاف کرنے والا مہربان ۔سورۃ النساء 64)۔ اور کہے اب میں تیرے نبی کے پاس مغفرت چاہنے کے لیئے حاضر ہوا ہوں اور تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ تو اپنی مغفرت میرے لیئے ثابت کردے جس طرح تو نے اُن کے لیئے مغفرت ثابت کی ہے جو ان کی زندگی میں مغفرت کے لیئے آئے ۔ اے اللہ میں تیری طرف تیرے نبی کے واسطہ سے متوجہ ہوتا ہوں۔ اس کے بعد جب واپسی کا ارادہ کرے دوبارہ قبرالنبی پر حاجر ہوکر رخصت ہو۔ دیکھئے یہ مصنف حنبلی ہیں اور منکرِ زیارتِ قبرالنبی بھی حنبلی(یہاں امام سبکی کی مراد ابن تیمیہ سے ہے)۔ انہوں نے کس قدر صراحت کے ساتھ زیارت قبرالنبی کا ذکر کیا ہے۔ اور نبی کے واسطہ سے توجہ الی اللہ کو بیان کیا ہے۔ اسی طرح ابومنصور کرمانی حنفی نے کہا ہے کہ اگر تجھ سے کسی نے آنحضور تک سلام پہنچانے کی درخواست کی ہے تو تجھے قبرالنبی پہنچ کر کہنا چاہیے۔ اے رسول آپ پر فلاں بن فلاں کی جانب سے سلام ہو اور وہ آپ سے اللہ کے دربار میں رحمت اور مغفرت کی شفارش چاہتا ہے آپ اس کی سفارش کردیجئے۔ اس مسئلے کے لیئے ہم انشاء اللہ ایک مفصل باب قائم کرینگے۔ نجم الدین ابن حمدان حنبلی نے (الرعایۃ الکبریٰ) میں فرمایا ۔ جو شخص حج سے فارغ ہو اس کے لیئے نبی اور صاحبین کی قبور کی زیارت مسنون ہے اور اگر وہ چاہے تو حج سے پہلے زیارت کرلے۔ 


ابن جوزی نے اپنی کتاب (مثیر العزم الساکن) میں فرمایا اور یہ حنابلہ کی معتبر ترین کتاب ہے۔ قبر النبی کی زیارت مستحب ہے اور ابن عمر کی حدیث بطریق دارقطنی وغیرہ اور ابوہریرہ کی حدیث بطریق احمد (جو کوئی مسلمان میری قبر کے پاس آکر سلام کرےگا اس کے لیئے مجھ پر شفاعت ضروری ہوگئی)۔ ذکر کی ہے۔ اسی طرح موالک کی بھی تصریحات ہیں اور ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ قاضی عیاض نے اس مسئلہ کو اجماعی قرار دیا ہے۔ اور عبدالحق نے (تہذیب المطالب) میں شیخ ابوعمران مالکی کی جانب سے نقل کیا ہے کہ زیارت قبر النبی واجب ہے ۔ اور عبدالحق نے اسی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ شیخ ابومحمد بن ابی زید سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ اگر کسی نے کسی کے ذریعہ حج کرایا اور اس کو حج وزیارت کے لیئے خرچہ دیا۔ اب وہ شخص حج کرکے لوٹ آیا اور کسی عذر کی وجہ سے مدینہ طیبہ نہ جاسکا تو کیا ہو۔ انہوں نے جواب میں فرمایا۔ زیارت پر جوخرچ ہوتا اس شخص کو وہ واپس کرنا ہوگا۔ اور بعض مشائخ نے فرمایا کہ اس پر ضروری ہوگا کہ وہ اس نائب کو لوٹائے تاکہ وہ زیارت کرکے واپس آئے۔ یہ وہی عبدالحق ہیں جنہوں نے شیوخِ قیروان اور شیوخِ صیقلیہ سے فقہ حاصل کیا ہے۔


ماوردی نے (الحاوی) میں ذکر کیا ہے کہ ہمارے اصحاب نے زکر کیا ہے کہ کسی کو اجرت پر زیارت کے لیئے بھیجنا صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ کام غیر معین اور غیر مقدر ہے اور اگر مزدوری محض قبرالنبی کے پاس کھڑے ہونے کی قراردی جائے تو یہ بھی درست نہیں ہے۔ اس لیئے کہ مجرد کھڑے رہنے میں قائم مقامی درست نہ ہوگی۔اور اگر اجرت اس بات کی قرار دی جائے کہ وہ قبرالنبی پر  پہنچ کر دعا کرے گاتو یہ درست ہے اس لیئے کہ دعا میں قائم مقام درست ہے اور اس دعا ء کی مقدار کی جہالت اس اجارہ کو باطل نہ کرے گی ۔ ہاں ایک تیسری صورت بھی ہے جس کو ماوردی نے بیان نہیں کیا اور وہ سلام پہنچانا ہے تو اس اجارہ اور مزدوری کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔ جیسا کہ عمر بن عبدالعزیز کیا کرتے تھےاور بظاہر مالکیوں کی یہی مراد ہے۔ ورنہ مزدور کے جاکر کھڑے ہوجانے سے بھیجنے والے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور ہم عنقریب ابن المواز کے حوالہ سے امام مالک کی تصریح کا ذکر کریں گے کہ اس اجیر کو چاہیئے کہ وہ حضور کی قبر کے پاس کھڑا ہو اور دعا کرے جس طرح بیت اللہ کے پاس وداع کے وقت دعا کرتے ہیں۔ ابن ابی زید نے (کتاب النوادر) میں ابن حبیب کے کلام سے اور امام مالک کے مجموعہ سے اور ابن القرظی کے کلام سے زیارۃ القبور کی بحث ذکر کنے کے بعد کہا اور شہدائے احد کی قبور کے پاس جائے اور اسی طرح سلام پڑھے جس طرح حضور کی قبر اور ان کے دونوں ساتھیوں کی قبر پر سلام پڑھا تھا۔ ابوالولید ابن رشد المالکی نے (شرح العتبیہ) میں سوال کے جواب میں اس شخص کے سلام کے بارے میں کہا جو آنحضور کی قبر کے پاس سے گذرے ۔ ہاں اس پر ضروری ہے کہ وہ سلام پڑھے جب وہان سے گذرے لیکن جب نہ گذر رہا ہو تو پھر ضروری نہیں ہے لیکن اس کی کثرت مناسب نہیں ہے اس لیئے کہ حضور نے فرمایا تھا۔ اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنا دینا جس کی عبادت کی جائے۔ اور فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا ان لوگوں پر سخت غضب ہے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد بنالیا ہے۔ جب وہاں سے نہ گذر رہا ہوتوسلام نہ پڑھنے کی گنجائش ہے۔ ان سے یہ دریافت کی گیا کہ اگر مسافر ہرروز قبرالنبی پر حاضری دے؟ انہوں نے فرمایا۔ یہ مناسب نہیں ہےہاں واپسی کے روز جاکر سلام پڑھ لے۔ محمد ابن رشد نے کہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی بار گذرے گا اس کو سلام پڑھنا ہوگا۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ضرور گزرے ہاں جب مدینہ سے لوٹے تو ضرور وہاں جائے۔ یہ مکروہ ہے کہ کثرت سے وہاں سے گذرے اور کثرت سے سلام پڑھے۔ اس  لیئے کہ حضور نے خود فرما دیا ہے۔ میر قبر کو معبود بُت نہ بناؤ اور خدا کا ان پر سخت غضب ہے جو اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا دیتے ہیں۔ یعنی مسجد کی طرح روزمرہ ان پر حاضری ضروری سمجھتے ہیں۔ دیکھئے پردیسی پر رخصت کے وقت حاضری کا حکم دیتے ہیں تو سلام کی بھی لامحالہ اجازت ہوگی۔ کثرت سے آنے جانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ اور زیارت کا اصلاً مستحب ہونا متفق علیہ ہے۔

Shifa al Siqam Fi Ziyarati Khairul Anaam
Imam Taj-ud-deen al-Subuki Refuting Ibn Taymmiya p47/51

Scans:

Sunday, 26 April 2015

Ibn al Jawzi Refuting Mujassima - al-Wahhabiya Beliefs

فرقہ جدیدیہ (الوہابیہ ، المجسمیہ) کے جھوٹ، ان کے فرقے کے بننے اور اصلی حنبلیوں کا وہابیوں کے شرکیہ عقائد کا رد ۔یاد رہے کہ ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ فقہ حنبلی کے ایک عظیم امام تھے۔ اور اللہ کے لیئے جسم کے بیہودہ شرکیہ عقیدے کے خلاف بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ابن تیمیہ نے جو خرافات ابو یعلیٰ وغیرہ ودیگر کی طرح کی ہیں اس معاملے میں اُس کا رد بارہا امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ۔ جو کہ ایک محدث اور فقیہہ کی شان ہوتی ہے۔ اور ظاہر کیا کہ اصلی حنابل کا ان عقیدوں سے دور دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہے۔اس سلسلے کی دوسری کڑی اگلے آرٹیکل میں دی جائے گی۔ 

حصہ اول؛ ردِ مجسمیت


ترجمہ: امام ابن جوزی (رحمتہ اللہ علیہ ) لکھتے ہیں:

"میں نے اپنے بعض حنبلی اصحاب کو دیکھا کہ انہوں نے عقائد کے باب میں ایسی باتیں کہی ہیں جو درست نہیں ہیں ۔ یہ اصحاب ابن حامد (چارسوتین ہجری) ، ان کے شاگرد ابویعلیٰ (چارسو اٹھاون ہجری) اور ابن زاغونی (پانچسو ستائیس ہجری) ہیں۔ ان کی کتابوں نے حنبلی مذہب کو عیب دار کیا ہے۔ ان لوگوں نے عوامی انداز اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو محسوسات (یعنی مخلوقات) پر قیاس کیا۔ انہوں نے یہ حدیث دیکھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف اعضاء کی نسبت دیکھی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیئے ان کی ذات پر زائد صورت کا، چہرے گا، دو آنکھوں کا، منہ کا، کوے کا،داڑھوں کا، چہرے کی چمک کا، دوہاتھوں کا، ہتھیلی کا، چھنگلی کا، انگوٹھے کا، سینے کا ، ران کا ، پنڈلیوں کا اور دوپاؤں کا اثبات کیا اور کہا کہ ہم اللہ کے لئے سر کا اثبات نہیں کرتے کیونکہ ہم نے کسی نص میں سر کا ذکر نہیں پایا۔ 

ان لوگوں نےیہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ چُھوتے ہیں اور چھوئے جاسکتے ہیں اور وہ بندے کو اپنی ذات کے قریب کرلیتےہیں اور بعض تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سانس بھی لیتےہیں۔ 

ان لوگوں نےا للہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں الفاظ کے ظاہری معنی کو لیا (مثلاً ید اور قدم اور وجہ کے ظاہری وحقیقی معنی کو لیا جو ذات کے اعضاء ہیں) اور ان کو انہوں نےصفات کہا جو خود ایک بدعت ہے اور اس پر ان کے پاس کوئی نقلی وعقلی دلیل نہیں ہے۔ اور انہوں نے ان نصوص پر توجہ نہیں کی جو تقاضا کرتی ہیں کہ ظاہری معنی کے بجائے ایسے معنی لیئے جائیں جو اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہوں اور انہوں نے اس طرف بھی توجہ نہیں کی کہ حادث ہونے کی علامتوں کی وجہ سے ظاہری معنی لغو ہیں۔

پھر ان صفات کو  مان لینے کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم ان کے ظاہری اور معروف معنی لیں گے اور لغوی توجیہ بھی نہ کریں گے۔ اور ظاہری معنی وہ ہیں جو انسانوں میں معروف ہیں اور لفظ کو جہاں تک ہوسکے اس کے ظاہری اور حقیقی معنی میں لیا جائے۔ اور اگر کوئی مانع ہو تو پھر مجاز کی طرف جائیں۔ پھر وہ تشبیہ سے بچنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے سے تشبیہ کی نسبت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف ہم (یعنی سلفی ہی، وہابی) اہلسنت ہیں حالانکہ ان کے کلام میں صریح تشبیہ پائی جاتی ہے۔ 

پھر عوام کی ایک تعداد ان لوگوں کی پیروی کرنے لگی۔ میں نے ان خواص و عوام دونوں کو سمجھایا کہ اے حنبلیو! تم اہل علم اور اہل اتباع ہو اور تمہارے بڑے امام احمد بن حنبل (رحمتہ اللہ علیہ) کا یہ حال تھا کہ جلاد ان کے سرپرہوتا تھا پھر بھی وہ یہی کہتے تھے کہ میں وہ بات کیسے کہوں جو اسلاف نے نہیں کہی۔ لہٰذا تم ان کے مذہب ومسلک میں بدعتیں داخل نہ کرو۔ پھر تم حدیثوں کے بارے میں کہتے ہو کہ ان کے بھی ظاہری معنی لیئے جائیں گے ۔ تو قدم (پاؤں) کا ظاہری معنی تو عضو ہے۔ یہ تو عیسائیوں کی طرح ہوا کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح اللہ کہا گیا تو ان ناہنجاروں نے یہ عقیدہ بنا لیا کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت روح ہے جو حضرت مریم علیہما السلام میں داخل ہوئی۔

اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مقدس ذات سمیت عرش پر مستوی ہوئے تو انہوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو محسوسات کی مثل لیا۔ حالانکہ واجب ہے کہ جس عقل سے ہم نے اللہ کو اور اس کے قدیم وازلی (ہمیشہ ہمیشگی سے) ہونے کو پہنچانا اس کو ہم (صفات سمجھنے میں) مہمل نہ چھوڑیں۔

تو تم اس نیک اور اسلاف کے طریقے پر چلنے والے (یعنی امام احمد بن حنبل) کےمذہب ومسلک میں وہ کچھ داخل مت کرو جو اس کا حصہ نہیں ہے۔ تم لوگوں نے اس مذہب کو بڑا غلیظ لباس پہنادیا ہے۔ جس کی وجہ سے حنبلیوں کو مجسمی (یعنی اللہ تعالیٰ کےلیئے جسم ثابت کرنے والا) سمجھا جانے لگا ۔ 

پھر تم نےاپنے اختراعی مذہب کو یزید بن معاویہ کے لیئے عصبیت (وحمایت) کے ساتھ مزیئن کیا (اور اس کو فضیلت وار قرار دینے لگے) حالانکہ تم جانتے ہو کہ امام احمد بن حنبل نے اس پر لعنت کرنے کو جائز کہا ہے۔ اور ابو محمد تمیمی تمہارے امام ابویعلیٰ کے بارے میں کہتےتھے کہ انہوں نے امام احمد کے مذہب کو ایسا دھبہ لگایا ہے جو قیامت تک دھل نہیں سکتا۔

میں نے ان لوگوں پر رد کرنے کو ضروری سمجھا تاکہ ان کی باتوں کو امام احمد بن حنبل کی طرف منسوب نہ کیا جائے اور اس بات سے میں خوفزدہ نہیں ہوا کہ مذکورہ عقائد کچھ لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوچکے ہیں کیونکہ عمل کا مدار دلیل پر ہے۔ خاص طور سے اللہ تعالیٰ کی معرفت میں کہ اس میں تقلید جائز نہیں ہے۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا انہوں نے جواب بتایا۔ وہاں موجود کسی نے کہا عبداللہ بن مبارک تو اسکے قائل نہیں ہیں۔ اس پر امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ آسمان سے تو نہیں اترے تھے کہ ان سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا تھا کہ میں نے امام مالک رحمتہ اللہ علیہ پر رد لکھنے کےلیئے اللہ تعالیٰ سے استخارہ کیا تھا (مطلب یہ ہے کہ ایک مجتہد کو اگر دوسرے مجتہد سے کسی مسئلے میں اتفاق نہ ہو تو وہ اختلاف کرسکتا ہے)۔ 

(جاری ہے) (اختتام ص 6 تا 11 مقدمہ دفع تشبیہہ از امام ابن جوزی )

For reading into Proper Unicode urdu format visit  makashfa.wordpress.com

Scans:



Monday, 13 April 2015

Imam AbdulRehman bin Abdusalam Nuzhatal Majaalis

Details: 

Nuzha'tul' Majalis By Imam Abdu-Rehman Bin Abdus-Salam Al-Shafi'e Al Safuri (Rt)

Pages (1) (53) (189/190) Urdu Translation and Scans



بسم الله الرحمن الرحيم


الحمد لله الذي قص لنا من آياته عجباً. وأفادنا بتوفيقه إرشاداً وأدباً. وأرسل فينا رسولاً كريماً نجيباً أطلعه على الحقائق ففاق أخاه وأباه، وعرض عليه الحبال ذهباً فنأى وأبى وخصنا بشريعته القويمة وجبا، فآمنا وصدقنا وله الفضل علينا وجبا، لأنه ادخر لنا ذلك في خزائن الغيب وخبا، أحمده حمداً أرغم به أنف من جحد وأبى وأبلغ من فضله الواسع أربا واشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له شهادة تكون للنجاة سبباً وأشهد أن سيدنا محمد عبده ورسوله المجتبى أشرف البرية حسباً وأطهرهم نسباً صلى الله عليه وسلم، على آله وأصحابه الذين سادوا الخليقة عجماً وعرباً...





عربی عبارت: (۱)۔ ترجمہ: 

"تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیئے ہیں، جس کی ذاتِ اقدس نے ہمارے لئے عجیب وغریب نشانیاں بیان فرمائیں اور ہمیں رشدوہدایت سے نوازتےہوئے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا، فرمائی اور قرآن مجید کو مصائب وآلام سے بچنے کےلئے ہمارا محافظ بنایا، جس میں ہدایت ورہنمائی ، رحمت وراحت ،عذاب وعتاب سے آگاہ کیا، اور ہمارے لئے رسول کریم ، رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور انہیں علومِ غیبیہ سے سرفراز فرماکرہرچیز کی حقیقت سے آگاہ کیا، اور آپ کو تمام جہانوں میں ممتاز فرمایا، اللہ تعالیٰ نے آپ کے سامنے پہاڑ رکھے تاکہ وہ آپ کے لیے سونا بن جائیں مگر آپ نے ان سے اعراض فرمایا اور معذرت کی، اور ہمیں شریعت محمدیہ علیہ التحیہ والثناء کے لیے مخصوص فرمایا نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے نواز کرایمان وصداقت کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا، اور ہم پر یہ اللہ تعالیٰ کا بے پایا ں فضل اور عظیم احسان ہے ، کہ اس نے رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس واطہر کو خاص کرہمارے لیئے اپنے خزائن غیبیہ میں محفوظ رکھا"۔(صفحہ اول/مقدمہ)


وقال الإمام مالك رضي الله عنه وأنا حبب إلي من دنياكم ثلاث مجاورة روضته صلى الله عليه وسلم وملازمة تربته وتعظيم أهل بيته 


ترجمہ صفحہ (۵۳)۔ (اول) حضرت امام مالک فرماتے ہیں:
"مجھے تمہاری دنیا سے تین چیزیں محبوب ہیں ، روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری ، اور آپ ؐ کے مزارِ اقدس پر ہمیشگی،اور آپ کے اہل بیت کرام کی تعظیم وتوقیر بجا لانا"۔ 


فقال صلى الله عليه وسلم صبوا على يده فإنه منهم وعنه صلى الله عليه وسلم ومن أحبني كان معي في الجنة وعنه صلى الله عليه وسلم من أحب أزواجي وأصحابي وأهل بيتي ولم يطعن في أحد منهم وخرج من الدنيا على محبتهم كان معي في درجتي يوم القيامة وسيأتي إن شاء الله تعالى زيادة في فضائلهم إجمالاً وتفصيلاً


ترجمہ؛ (دوئم) نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم فرماتےہیں:

"جس شخص نے میرے صحابہ اور میرے اہل خانہ (امھات المؤمنین) اور اہلِ بیت (کرام) سے محبت اختیار کی اور کسی کو بھی سب وشتم کا نشانہ، نہ بنایا اور دنیا سے جب اس نے وصال کیا تو اس کا دل ان کی محبت سے معمور تھا، وہ روز ِ قیامت میرے ہی ساتھ میرے ٹھکانے  پر ہوگا، اس کا تفصیلی ذکر ان کے فضائل ومناقب کے باب میں آئے گا"۔ 


زيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم مستحبة في كل وقت خلافاً لتقييد المنهاج حيث قال وزيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم بعد فراغ الحج قال النبي صلى الله عليه وسلم من زار قبري وجبت له شفاعتي رواه ابن خزيمة وعنه صلى الله عليه وسلم من جاءني زائرا لم يكن له حاجة إلا زيارتي كان حقاً علي أن أكون شافعا له يوم القيامة في عيون المجالس عنه صلى الله عليه وسلم من زر قبري بعد موتي فكأنما زارني في حياتي ومن لم يزر قبري جفاني وقال إسحاق ابن سنان زرت قبره الشريف سبع عشرة مرة كلما زرته مرة قلت السلام عليك يا رسول الله فيقول وعليك السلام يا ابن سنان وعنه صلى الله عليه وسلم من زارني بعد موتي فكأنما زارني في حياتي ومن مات بأحد الحرمين بعث من الآمنين يوم القيامة رواه البيهقي... حكاية: كان الشيخ الصالح سيدي أحمد الرفاعي يبعث السلام مع الحجاج في كل عام إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فلما قدر الله له بالحج وقف عند قبر الشريف وقال: شعر:

في حالة البعد روحي كنت أرسلها ... تقبل الأرض عني وهي نائبتي
وهذه نوبة الأشباح قد حضرت ... فامدد يمينك كي تحظى بها شفتي



فظهرت له يد النبي صلى الله عليه وسلم فقبلها ولا إنكار في ذلك فإن إنكار ذلك يؤدي إلى سوء الخاتمة والعياذ بالله وإن كرامات الأولياء حق والنبي صلى الله عليه وسلم حي في قبره سميع بصير منعم في قبره وقال بعضهم بلغنا أن من وقف عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم وقرأ هذه الآية إن الله وملائكته يصلون على النبي الآية ثم قال صلى الله عليك يا محمد سبعين مرة ناداه ملك صلى الله عليك يا فلان ولم تسقط له حاجة ويستحب لمن زاره أن يصلي بين القبر الشريف والمنبر فإنها روضة من رياض الجنة قيل معناه البقعة تستحق روضة من الجنة وقيل أن تلك البقعة بعينها تكون في الجنة يوم القيامة قال صلى الله عليه وسلم الصلاة في المسجد الحرام بمائة ألف صلاة والصلاة في مسجدي بألف صلاة والصلاة في بيت المقدس بخمسمائة صلاة رواه الطبراني وقد صرح بعض العلماء بأن المشي إلى قبره صلى الله عليه وسلم أفضل من المشي إلى الكعبة لأن البقعة التي ضمت أعضاءه الطاهرة أفضل من العرش والكرسي وكيف لا وقد رفع الله تعالى ذكره وقرن إسمه مع إسمه وكتبه في كل موضع من الجنة وقال ابن عباس رضي الله عنهما على باب الجنة مكتوب إني أنا الله لا إله إلا أنا محمد رسول الله لا أعذب من قالها وقال النبي صلى الله عليه وسلم ما ضر أحدكم أن يكون في بيته محمد ومحمدان وثلاثة وعن جعفر بن محمد عن أبيه إذا كان يوم القيامة نادى مناد ألا ليقم من إسمه محمد فليدخل الجنة لكرامة اسمه صلى الله عليه وسلم..





ترجمہ (صفحات ومخطوطہ،  (۱۸۹/۱۹۰)۔ 

"زیارت گنبدخضریٰ(کے متعلق لکھتے ہیں) کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کی حاضری ہروقت مستحب ہے ، حج سے پہلے اور حج کے بعد بھی!۔ سید عالم نے فرمایا جس نے میری قبر کی زیارت کی لازماً میں اُسکی شفاعت کرواؤں گا(ابن خزیمہ)۔ نیز فرمایا جو شخص خالص میری زیارت کی نیت سے میری قبر پر حاضر ہوا اور اسکے علاوہ اسکا کوئی اورمقصد نہ ہوتوقیامت کے دن اسکی شفاعت کرانا میری ذمہ داری ہے۔! عیون المجالس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے وصال کے بعد " جس نے میری قبر کی زیارت کی گویا کہ اُس نے میری زندگی میں میری زیارت کی، نیز فرمایا، جس شخص نے حج کیا اور میرے مزار شریف پر حاضر نہ ہوا اُس نے مجھ سے "جفا" کی اورحضرت اسحاق بن سنان بیان کرتےہیں کہ میں نے نبی کریم کے روضہ پاک کی سترہ مرتبہ زیارت کی اور میں نے جب بھی عرض کیا "السلام علیک یا رسول اللہ" توآپ نے جواب میں عنایت فرمایا "علیک السلام یا ابن سنان"۔ مزید آپ علیہ السلام فرماتے ہیں جس نے میرے وصال کے بعد میرے مزار شریف کی زیارت کی گویا اُس نے میری زندگی میں زیارت کی اور یہ کہ حرمین شریفین مکہ مکرمہ یا مدینہ طیبہ میں انتقال کرے گا، قیامت کے دن وہ امن والوں کے ساتھ ہوگا (بیہقی)۔ 

(حکایت) ۔ حضرت شیخ سیدی احمد رفاعی (رض) ہرسال حاجیوں کے ذریعہ بارگاہ نبوی میں سلام پیش کیا کرتے تھے، پھر 
اللہ تعالیٰ نے جب انہیں حج وزیارت کا موقع نصیب فرمایا تو آپ مواجہ شریف کے سامنے کھڑے ہوکر عرض گزار ہوئے۔


(ترجمہ اشعار)


 ۔۔۔دوری کی حالت میں، میں اپنی روح کو بھیجا کرتا تھا، جو میری نائب ہوکرمیری طرف سے قدمبوسی کا شرف پاتی رہی، اور اب تواس جسم کو حاضری کی نعمتِ عظمیٰ حاصل ہوئی ہے ، ذرا اپنے دائیں ہاتھ کو بڑھائیے تاکہ میرے لب اس کے فیضان سے بہرہ مند ہوں!


۔۔۔۔ (آگے لکھتے ہیں) ۔۔۔

یہ کہنا تھا کہ نبی کریم کا دستِ اقدس ظاہر ہوا اور انہوں نے اپنے لبوں کو بوسہ سے مشرف کیا۔ ایسے اُمور سے انکار نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ انکار کا انجام برے خاتمہ پر ہوا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ انکی برائی اور گرفت سے محفوظ رکھے اس میں ذرہ برابر شک نہیں ، کراماتِ اولیاء حق ہیں، بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مزارِ اقدس میں زندہ ہیں، سنتے ہیں، دیکھتے ہیں اور آپ کے قبرانور سے نعمتیں ملتی رہی ہیں، کیونکہ آپ قاسم نعم ہیں۔۔۔۔بعض کہتےہیں جسے مزار پرانوار پر حاضری کی سعادت میسر ہوتووہ یہ آیت پڑھے"ان اللہ ملائکتہ،،،،الیٰ الآخر،،،پھر ستر بار کہے، صلی اللہ علیک یا محمدا (یعنی، الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ)تو ایک فرشتہ ندا کرتا ہے ۔ صلی اللہ علیک فلاں، پھر اس کی کوئی بھی حاجت باقی نہیں رہتی۔

مستحب یہ ہے کہ جو شخص زیارت سے مشرف ہو وہ قبر اقدس اورمنبر شریف کے درمیان درود شریف کثرت سے پڑھے کیونکہ یہ ریاض الجنۃ ہے،

 (حدیث)میرے گھر اورمیرے منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ، جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔ نبی کریم نے فرمایا کہ مسجد حرام میں نماز پرھنا ایک لاکھ نماز کے برابر ہے اورمیری مسجد میں ایک نماز (بیت اللہ شریف کی) ایک ہزار نماز کے برابر ہے۔ اور بیت المقدس میں نماز پانچ صد نمازوں کے برابر ہے۔ (طبرانی)۔ بعض علماء بالتصریح فرماتے ہیں ، بیت اللہ شریف سے محبوبِ خدا کی طرف جانا افضل ہے، کیونکہ زمین کا وہ قطعہ مبارکہ جہاں آپ کا جسم ِ اطہر موجود ہے وہ عرش وکرسی سے بھی افضل و اعلیٰ ہے ، اور پھر کیسے نہ ہو جب کہ آپ کے ذکر کو اللہ تعالیٰ نے خود رفعت دی اورفرمایا (ورفعنا لک ذکرک) ۔ آپ کا اسم گرامی اپنے نام نامی سے متصل رکھا، جنت کے ہرمقام پر نقش فرمایا، حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں جنت کے ہردوازے پر مرقوم ہے، بیشک میں اِلٰہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں، محمد میرے رسول ہیں، جو اس پر ایمان لائے گا میں اسے عذاب نہیں دوں گا۔ نبی کریم نےفرمایا: تمہارے لیئے یہ بات نفع مند ہے 

کہ تمہارے گھر ایک محمد، دو یا تین ہوں (یعنی بچوں کے نام میرے نام پر رکھو)"۔


 حوالہ (نزهته المجالس . ۱۹۰. )۔ اختتام شد۔(مخطوطہ)۔ از امام عبدالرحمٰن بن عبدالسلام الشافعی الصفوری (رحمتہ اللہ علیہ )۔

آخری بات:

(ا)۔ پہلے ذرا غور کیجیئے کہ  نبی علیہ السلام کے لیئے علمِ غیب (منجانب اللہ) ماننے کا عقیدہ ہی اصلی اسلام کا عقیدہ ہے، جو لوگ اللہ کی عطا سے نبی علیہ السلام کے لیئے علم غیب کے منکر ہیں وہ سلف اسلاف کی ان کتابوں اور ان میں لکھے الفاظ کے پس منظر میں اپنے انکار پرذرا غور کرے ۔ 

(۲) ۔ اب غور کریں کہ نہ وہابی درست ہیں کیونکہ وہ اہلبیت کی تحقیر کرتے ہیں ۔اور نہ ہی روافض کیونکہ وہ صحابہ کی تحقیر کرتے ہیں اور ان سب کی گستاخی فرمان نبوی کے مطابق جہنم میں لے جانے کا باعث ہوتی ہے۔ 

(۳)۔ اسی صفحہ پر آپ پڑھ سکتے ہیں کہ تمام تر آئمہ کا یہی ایمان اور عقیدہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی عطا سے مختار ہیں اسی لیئے (القاسم) کہلائے جاتے ہیں (یعنی تقسیم فرمانے والے)۔نیز یہ کہ زیارتِ روضہ رسول ، مزارات وغیرہ یہ سب کچھ خیر القرون کے عمل سے ثابت ہیں۔ آج (خارجی ٹولہ) ان کو (کفر شرک بدعت) کہہ کر اپنا الو سیدھا کرتا ہے۔

(۴) ۔ اور آخر میں نداء رسالت یعنی (یا رسول اللہ ) کہنے کا ثبوت، اور آپ کو حاضر وناظر و زندہ جاننا عین ایمان ہے۔ 

جبکہ ۔ (خوارج) کے تمام (پیرومرشدان) یہ کہتے ہیں کہ (نبی کو کسی چیز کا اختیار نہیں، جو مرگیا مرکے مٹی میں مل گیا، غیراللہ سےمدد مانگنا حرام ہے،نبی کی اتنی ہی تعظیم کرو جتنی بڑے بھائی کی کرتے ہیں ) معاذ اللہ۔ تو کیا ہم حق بجانب نہیں ان خوارج کو گمراہ کہنے میں؟۔





Scans:

Click Here


Saturday, 7 March 2015

Ahwal wa Azkar e Junaid Baghdadi (rta) urdu

احوال و اذکار۔ از ۔حضرت جنید بغدادی 


سیاسی ، سماجی پس منظر۔ 


ظہور اسلام سے لے کر عباسی خلیفہ مامون الرشید تک کی تقریباً 2 سو سالہ تاریخ اسلام میں متعدد حوالوںسے کئی نشیب وفراز آچکے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مبارک عہد سے سے دورِ خلافت ِ راشد ہ میں تو مسلمانوں کی فتوحات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ تبلیغ ِ دینِ اسلام پر بھی خصوصی توجہ دی جانے لگی تھی۔ خلافتِ راشدہ کےد ور میں عربوں نے بجا طور پر سیاسی ، معاشرتی، تعلیمی اور اقتصادی طور سے بھی کئی مراحل طے کرکے ایک نئے باب کا اضافہ کردیاتھا۔ 


پہلی صدی ہجری کے ساتویں عشرے ہی سے بنو امیہ کا عہدِ حکومت شروع ہوگیا تھا۔ اموی حکمرانوں نے اسلامی دنیا کے مرکز سے امیر معاویہ ہی کے عہد سے فتوحات کا آغاز کردیا تھا۔ اسلیئے شمالی افریقہ اور بحیرہ اوقیانوس کے ساحلوں کے ساتھ ساتھ مسلمان مبلغین اور مجاہدین نے پہنچنا شروع کردیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی دور میں مشرقی افغانستان اور برعظیم پاک وہند کی وادیوں میں بھی مسلمان پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد کے برسوں میں شمالی افریقہ کے متعدد علاقوں میں اسلام کا پیغام پہنچایا جاچکا تھا۔ 

پھر دوسری صدی ہجری کے طلوع کے ساتھ ہی مسلمانوں کی سلطنت پھیلتے ہوئے سمرقند، بخارا اور کاشغر تک پہنچ گئی تھی۔ اس کےبعد ایک جواں سال جرنیل محمد بن قاسم نے ہندوستان میں وادیء سندھ کو تسخیر کرلیا تھا۔ حجاج بن یوسف نے اپنی خصوصی توجہ اور سیاسی ، اقتصادی اور علمی ادبی بصیرت سے اسوقت کی پوری اسلامی دنیا کو چکاچوند بنادیاتھا۔ ادھر طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر نے سپین میں فتح ونصرت کے جھنڈے گاڑدیئے تھے۔ قتیبہ بن مسلم بھی پے در پے فتوحات حاصل کرچکا تھا۔ 
پھر جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کادورِ حکومت شروع ہوا تو اس دور میں فتوحات وتبلیغ کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا میں اصلاحات کے نفوذ پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ بیرونی اسلامی فتوحات میں اب تو مسلمان فرانس کی وادیوں میں بھی داخل ہوگئے تھے۔ فرانس کے کئی ایک جنوبی حصوں پر اسلامی تسلط اور قبضہ قائم ہوگیا تھا۔ اموی حکمرانوں کی فتوحات اور توسیع سلطنت کے ساتھ ساتھ انتظامی اور سیاسی اعتبار سے بھی کئی پیچیدگیاں اور مسائل پیدا ہونے لگے تھے۔ چند ایک اندرونی اور بیرونی شورشوں نے بھی سر اٹھا لیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ تحریکِ عباسیہ بھی شروع ہوگئی تھی۔ 

اموی دور حکومت میں اسلامی دنیا میں اقتصادی اور مادی وثقافتی ترقی کے ساتھ ساتھ افکار و نظریات کی بھی ترقی ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فدائین کے کئی ایک گروہ منظر عام پر آئے۔ ان میں توابین اور شیعانِ علی سب سے اہم تھے۔ پھر اسی طرح ایک موثر اور مستحکم گروہ خوارج کا بھی پیدا ہوگیا تھا۔ ان لوگوں کا نعرہ اور منثور یہی تھا کہ "اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کا فیصلہ قابلِ قبول نہیں ہے۔" آغاز میں خوارج سیاسی امور اور سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیتے رہے لیکن بعد کے برسوں میں انہوں نے خالصتاً مذہبی رنگ اختیار کرلیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خوارج کا بڑا گروہ مزید بیس بائیس فرقوں اور نظریوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ 


مذہبی اور فکری پس منظر؛

اموی دور کا ایک اور گروہ مرجیہ کا تھا ۔ یہ لوگ اعتدال پسند تھے، بنیادی طور پر اس فرقے اور گروہ کے لوگ گناہ کرنے والے کو اس کے اعمالِ بد کے باعث کافر قرار نہیں دیتے تھے ۔ وہ گنہگار اور کافر میں فرق کرتے تھے۔ 

اس دور میں خوارج ہی کی طرح ایک بڑا مذہبی اور فکری گروہ معتزلہ کا بھی تھا۔ یہ لوگ حضرت اما م حسن بصری رضی اللہ عنہ کے شاگرد واصل بن عطا کے ماننے والے تھے۔ اس فرقہ کے لوگ اپنے آپ کو عدل وتوحید والے لوگ کہا کرتے تھے ۔ اس گروہ کے لوگ یونانی فلسفہ سے خاصے متاثر تھے اور اسی حوالے سے وہ اسلامی تعلیمات کو بھی عقل وخرد کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔ اسلامی نظریات کو وہ اپنی عقل کے مطابق ڈھالنے کے قائل تھے، منطق اور عقل کی کسوٹی کو وہ اہم اور فائق سمجھتے تھے ۔ اسی حوالے سے انہیں عقیلت پرست بھی کہا جاتا رہا ہے۔ وہ قرآن حکیم کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق تصور کرتے تھے۔ انسان کو وہ اپنے اعمال میں کلی طور پر خود مختار گردانتے تھے۔ اس فرقے کا آغاز بنو امیہ کے آخری دور میں ہوگیا تھا۔ پھر بعد میں عباسی دورِ حکومت اس فرقہ کی ترقی اور عروج کا عہد ثابت ہوا۔ 


معتزلہ کی طرح ایک اور گروہ "جبریہ" کابھی اسی دور میں پیدا ہوگیا تھا۔ یہ فرقہ بنیادی طور پر اس نظریئے کا قائل تھا کہ "انسان اپنے افعال وکردار میں مجبورمحض ہے، اس کو اپنے اعمال پر کوئی اختیار وقدرت حاصل نہیں ہے بلکہ سارے اعمال وافعال اللہ تعالیٰ کی جانب سے صادر ہوتے ہیں۔ اس لیئے انسان اپنے نیک یا  بد اعمال کا ذمے دار نہیں ہے۔ یہ فرقہ قرآن حکیم کو بھی مخلوق تصور کرتا تھا۔ اس فرقہ کا بانی ایک ایرانی باشندہ جعد بن درہم تھا۔ 


ایرانی اثرات؛

اُموی حکومت کے بعد دورِ عباسی کا آغاز ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ عباسی حکمرانوں نےمتعدد امور اور فتوحات میں ایرانیوں سے بھرپور مدد اور تعاون حاصل کیئے رکھا تھا۔ ان سے پیشتر حجاج بن یوسف نے عربی کو سرکاری زبان توبنادیا تھا لیکن اب اس عہد میں عربی کےساتھ ساتھ دوسری زبانوں نے بھی بجا طور پر فروغ حاصل کیا۔ اس طرح عرب حکومت میں عربی اثرات کی بجائے ایرانی اثرات بھی ہرمیدان میں اپنا رنگ دکھانے لگے تھے۔ رہن سہن، لباس، روزمرہ عادات واطوار میں ایرانی رنگ ڈھنگ نمایاں ہونے لگا تھا۔ عباسی حکومت میں سیاسی اور انتظامی طور پر ایرانیوں کا عمل دخل اور مناصب بھی قابلِ قدر ہوگئے تھے،سارا انتظامِ سلطنت ایرانی پرتودینے لگا تھا۔ 


دوسری جانب ادب اور معاشرت اور معیشت میں بھی ایرانی رنگ غالب آنے لگا تھا، ایرانی علوم وفنون اور افکار ونظریات کی گونج بھی ایوانِ عباسیہ میں سنائی دینے لگی تھی۔ ایرانیوں کے اس قدر اثرورسوخ اور عمل دخل کے باعث ایرانیوں کے مذہبی افکار اور نیم مذہبی روایات بھی عرب دنیا میں پروان چڑھنے لگیں اور اسطرح طاقتور عجمی تہذیب وثقافت نے عربی تہذیب وتمدن کو اپنے قریب کرلیا تھا۔
علوم وفنون کی ترقی:

عباسی خلیفہ مامون الرشید کے دورِ حکومت میں جبکہ رومی سلطنت کے مختلف علاقوں پر مسلمان مجاہدین نے حملوں کے بعد فتوحات شروع کردی تھیں اس کےبعد رفتہ رفتہ رومی تہذیب وثقافت اور فلسفہء حیات بھی رنگ دکھانے لگا تھا۔ اسلامی دنیا میں کئی ایجادات ہونے لگی تھیں۔ علوم وفنون میں لاتعداد یونانی کتابوں کےعربی زبان میں تراجم ہونے لگے تھے۔ ان تراجم کی شاہی دربار سرپرستی کرتے تھے۔ اس طرح اسلامی فلسفہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ متمول اور وسیع ہوگیا۔ بیت الحکمت میں ترجمے کا باقاعدہ ایک لازمی اور بڑاشعبہ قائم کردیاگیاتھا۔ علم ہیت ونجوم ، سیاست ،تفسیر، فقہ ، شاعری اورادب نے بھی بڑی حد تک ترقی کرلی تھی۔ فنون میں تعمیرات ، موسیقی ، رقص، ثقافتی لباس اور آداب شاہی دربار نے بھی بڑی امتیازی ترقی کرلی تھی۔ حساب جیومیٹری اور اقلیدسی علوم میں تومسلمان اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ منظم اور ترقی یافتہ تھے۔ 


مذہبی اور دینی طور پر اس عہد میں چونکہ کئی فرقے پیدا ہوچکے تھے، اس لیئے ہرفرقے کے اہل علم اور عالم فاضل لوگوں نے اپنے اپنے فکری مکتب اور گروہ بنا لئے تھے ۔ کئی فرقوں نے اپنے اعتقادات کی تبلیغ وتشہیر کی خاطر اپنی اشاعتی سرگرمیاں بھی شروع کررکھی تھیں۔ لیکن اس وقت کے خلفاء ان مذہبی فرقہ وارانہ سرگرمیوں کے فروغ میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ بلکہ بعض فرقوں کو تووہ شدید ناپسند بھی کرتے تھے اور ان کی سرگرمیوں اور اشاعت پر پابندیاں عائد کرتے تھے۔ لیکن ان تمام علماء اور اہل علم کے ساتھ ساتھ حق پرست علماء بھی موجود تھے ، وہ نہ حکومت کے مناصب سے خائف تھے اور نہ کسی دنیاوی لالچ میں ملوث ہوئے تھے۔ 


بہرصورت اموی دورحکومت کے بعد عباسی عہد میں پوری اسلامی دنیا مکمل طور پر یونانی مفکرین اور ان کے فلسفوں سے آگاہ ہوچکی تھی، لوگ ارسطو اور افلاطون کے یونانی افکار سے بخوبی واقف ہوگئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی علوم اور فلسفہ بھی عربی زبان میں ترجمہ ہونے کےبعد عربوں کے لیئے دُور کی بات نہیں رہا تھا،کئی  اہم اور بڑی بڑی ہندوستان کی کتابیں بھی عربی میں ترجمہ ہوکرعرب دنیا سے باہر بھی متعارف ہونے لگی تھیں ۔ دوسری جانب عربوں کے اپنے عہد کی تمام مذہبی تحاریک اور افکارپر بھی باضابطہ طور پر کام ہوا تھا۔ اس طرح خلیفہ ہارون الرشید کے دورِ حکومت میں قاضی ابویوسف نے حنفی فقہ کی تدوین کی، امام بخاری نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قریباً تمام احادیث کو مدون اور مرتب کردیا تھا۔ ان کے بعد حضرت امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے بھی اپنے اپنے نقطہ نظر سے اسلامی قوانین کی ترتیب وتدوین کاکام کیا۔ 


صوفیانہ تعلیمات؛ جیسے کہ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ اپنے صوفیانہ افکار ونظریات میں ایک میانہ رو اور اعتدال پسند صوفی اور عارف ہیں۔ ان کی تعلیمات میں ذات باری کے ساتھ تعلق ورابطہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ حضرت جنید بغدادی تصوف کو کوئی ماورائی شئے تصور نہیں کرتے تھے اور نہ اسے عقلیت پسندی ہی کے تابع گردانتے تھے ۔ وہ ہرطرح کے تصوف کو اسلام کی مروجہ تعلیمات سے برقرار رکھتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ 

حضرت جنید بغدادی نےا پنی اسی بصیرت کی بدولت صوفیہ کے الگ الگ نظریات کے حوالے سے گروہی تقسیم کا کام بھی لیا۔ وہ توحید کےسختی سے پابند تھے اور توحید کی بنیاد اسلامی تعلیمات اور قرآنی سرچشموں پر رکھتے تھے۔ وہ احادیث ِ نبوی سے ثابت کرتے ہیں کہ "اللہ تعالیٰ ہی ایک ایسا وجود ہے جس سے لو لگائی جاسکتی ہے ۔ اسی کے بارے میں غور کیاجائے اور انسان اس کی بااختیار قوت کے سامنے صرف ایک پرزہ ہے ۔خداہی واحد حقیقت ہے اور یہ دنیائے مظاہر اس وجودِ حقیقی کا ایک سایہ اور عکس ہے۔" پھر حضرت جنید بغدادی بندے اور خالق کےدرمیان کوعبور کرنے کا ذریعہ صرف تصوف ہی کو قرار دیتے ہیں۔ 

حضرت جنید بغدادی اپنے نظریہ تصوف کو رہبانیت کے قریب لے جانے کی بجائے عمل کی جانب گامزن کرتے ہیں ۔ وہ تصوف اخیار کرکے معاشرتی اور سماجی زندگی کو تیاگنے کے قائل نہیں بلکہ انسانوں ہی کے اندر رہ کر ہرطرح کی ذمے داریاں پوری کرتے ہوئے تصوف اختیار کرتے ہیں۔ وہ تصوف میں بےعمل ہونے کی بجائے ایک فعال اور موثر عامل بننے پر توجہ دیتے ہیں۔ 

توحید کے بارے میں:
صوفیائے کرام کا توحید کے بارے میں اور اپنے خالق حقیقی کے بارے میں جو واضح تصور ہے اس کی جھلک صحائف سابقہ کی تعلیمات میں بھی ملتی ہیں۔ یہی جنید بغدادی کا بھی تصور ِتوحید ہے۔ اور توحید کے حوالے سے ان کے نظریات بڑے واضح ہیں۔ وہ وجودباری تعالیٰ سے وابستگی ہی کو سب کچھ تصور کرتے ہیں۔ 

امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کئےہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں؛

(1) حق جل وعلاء فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتی کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت یعنی بادشاہت باقی ہے ہرگز نہ ڈرنا چاہیئے۔ 

(2) اے آدم کے بیٹے ، توکسی قوت اورطاقت اور کسی کے باعثِ روزی ہونے کے سبب مرغوب نہ ہو۔جب تک کہ میرے خزانے میں تیرارزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ کہ میرا خزانہ غیرفانی اورمیری طاقت باقی رہنے والی ہے۔ 

(3) اے آدم کے بیٹے آدم ، جب تو ہرطرف سے عاجز ہوجائے اور کسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والانہ ہو، ایسی کسمپرسی کی حالت میں اگرتومجھ کو یادکرے اور مجھ سے مانگے تو میں یقیناً فریاد کو پہنچوں گااورجوتُوطلب کرے گاوہ دوں گاکیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کاقبول کرنےو الا ہوں۔

(4) اے اولادِ آدم! میں بہ تحقیق تجھ کو دوست رکھتا ہوں تجھے بھی چاہیئے کہ میرا ہوجا اور مجھے یادرکھ۔

(5) اے آدم کے بیٹےجب تک توپُلِ صراط سے پار نہ ہوجائے تومیری جانب سے بے فکرمت رہ۔

(6) اے آدم کے بیٹے۔ میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیا اور نطفہ کو رحمِ مادر میں ڈال کراس کو جما ہوا خون کرکے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا، پھر رنگ وصورت اور شکل تجویز کرکے ہڈیوں کاایک خول تیار کیا۔ پھر اس کو انسانی لباس پہناکراپنی روح اس میں پھونکی ، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجودکردیا۔ تیری اس ساخت اورایجاد میں مجھےکسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی۔ پس اب تو سمجھ لے کہ میری قدرت نے ایسے عجیب امور کوپایہ تکمیل پہنچایا کہ وہ تجھ کو دوروٹی نہ دے سکی گی، پھر تو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کرغیرسے طلب کرتاہے۔ 

(7) اے آدم کے بیٹے؛ دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیداکی ہیں اور تجھے خالص اپنی عبادت کے لیئے پیدا کیا ہے مگر افسوس تونے ان اشیاء پر جو تیرے لیئے پیداکی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کردیااور مجھ کو بھول گیا۔ 

(8) اے آدم کے بیٹے! تواپنی اغراض نفسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہے مگر اپنے نفس پر میرے لیئے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔ 

(9) اے آدم کے بیٹے! دنیا کی تمام چیزیں اورتمام انسان مجھے اپنے لیئے چاہتے ہیں اور میں تجھ کوصرف تیرے لیئے چاہتا ہوں اور تومجھ سے بھاگتا ہے۔ 

(10) اے آدم کے بیٹے: تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور مجھ پر تیری روزی رسانی مگر تومیرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اسکی خلاف ورزی کرتا ہے لیکن میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتارہتا ہوں اور اسکی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ 

(11) اے آدم کے بیٹے! توکل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجاآوری آج نہیں چاہتا۔ 

(12) اے آدم کے بیٹے! اگر تو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کردی ہے راضی ہوا توبہت راحت وآسائش سے رہے گااوراگر تو اس کے خلاف میری تقدیر سے جھگڑا اوراپنے مقسوم پر راضی نہ ہوا تویاد رکھ کہ میں تجھ پر دنیا کو مسلط کردوں گا وہ تجھے خراب وخستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا۔ مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گاجو میں نے تیرے لیئے مقرر کردیاہے۔"


حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زبانی بیان کردہ توریت کے ان کلمات میں آدمی کی اپنی حقیقت ، اللہ تعالیٰ کی چاہت اور محبت اور بندے کے فرائض کی جانب واضح اشارات موجود ہیں ۔انہیں حوالوں سے صوفیاء جیسے حضرت جنید بغدادی ، فرماتےہیں کہ "اللہ تعالیٰ ہی ایک ایسا وجود ہے جس سے لَو لگائی جاسکتی ہے اور معرفت ِ الٰہی بندے کو ایک بلند مقام پر پہنچا دیتی ہے ، اور یہ حقیقت ہے کہ معرفت کاماخذ ومنبع اللہ تعالیٰ ہی کی ذات باری ہوتی ہے۔" (معالی الہمم)

Sunday, 22 February 2015

Sultan Salah-ud-deen Ayubi Was a Sunni and a Sufi

Summary of the events of 583-to-84 H:

"....and nearby Gumbad- al Sakhra the Sultan removed all wrong things like pictures and crosses, and washed it (purify) it from impurities, and asked Faqih Essa al Hakaari to make an iron fence surrounding it, and appoint an Imam with salary, and make more supplies to him, and such likewise he did for Imam of al-aqsa, and then he made a Maddrassa (School) which is known as Al-Salaheeyah and also called as al-Naasariyah, because there was a Church, attributed to the mother of Holy Mary, 'Hannah' and that was on the grave of her. He (sultan) make a Khanqah (Place where Sufis used to do Dikhr of Allah) and gifted it which was for the seek of al-Tabbaruk (Blessings)



  The Mihrab of Dawud outside al-Aqsa Masjid was in an insurmountable fort within the city, in a lofty rank and it was the fort where the ruler lived. The Sultan appointed an Imam, two muezzins, and a supervisor for it. It became a resort for the righteous and a shrine for all people. Then he issued orders for the maintenance of Masajids and religious shrines. This Mihrab was the abode of Dawud and Sulayman (peace be upon them). The Sultan assembled the jurisprudents, (Fuqaha) the righteous men of knowledge, and the pious to seek their opinion concerning constructing a School of the Shafi'e Madh-hab and a hospice for pious Sufis.


  Points to Remember:


  1) Shrines and Holy Places in the History of Islam was never destroyed even if it was shrines of Non-Muslims.


  2) It was certainly not Shirk Polytheism, because if it was then Mujahid-e-Kabeer Sultan Salah-UD-Deen Ayubi (rta) would never do that.


  3) This proves the fact that, Sultan was himself a Sufi and Tareeqat was never considered polytheism in Islam before emergence of Wahhabism.


  4) Establishing Maddrassa, school of Shafi'e School of Thought shows that all Muslims were and are Muqallads (Followers of any one of the Imams among 4 school of thoughts in Islam).


 5) In another place in the same book its written that, he used to visit holy places as well as visited Shrine of Prophet Shuaib (alehisalatowasalam).   Thus visiting these places shows that previous Muslims also consider them worth to be visited for the sake of Allah's blessings and was never considered polytheism until Ibnu Taymmia was the one who started this fever which is still been carried out by Khawarij al-Wahhabiyyah. And these are not new beliefs which were invented later.



The same kind of information is been given by another famous most Historian and Muhadith al Imam Shayban (aka) Ibne Aseer (rta) in his famous work Al-Tareekh al Kaamil Vol 9 - page 214-15 Published by Darul kitabul Arabi - Beirut Lebanon. 


(Events of 584 A. H (1188 A.C.) Al Bidaya Wan Nihaya - Tarikh Ibne Kathir Vol 16 Pages 593/94)


Urdu:
ابن کثیر لکھتےہیں:


اور صخرہ معظمہ کے اردگردسے سلطان نے بری چیزوں تصاویر اور صلیبوں کو ہٹا دیا، اور اسے مردار ہونے کےبعد پاک کیا اور اسے مستور ہونے کے بعد ظاہر کیا، اور فقیہ عیسیٰ الہکاری کوحکم دیا کہ وہ اس کے اردگرد آہنی کھڑکیاں بنائے اور اس کے لیئے تنخواہ دار امام مقرار کیا اور اس کے لیئے اچھی رسد جاری کی، اور اسی طرح اقصیٰ کے امام کا بھی ھال تھا اور اس نے شافعیہ کے لیئے ایک مدرسہ تعمیر کیا جسے الصلاحیہ کہاجاتا ہے اور الناصریہ بھی بتایا جاتا ہے اور اس کی جگہ ایک گرجا تھا ،جو حضرت مریم کی والدہ حنہ کی قبر پر تھا، اور اس نے صوفیاء کے لیئے ایک خانقاہ وقف کی جو التبرک کی تھی۔۔۔۔۔۔۔


یعنی معلوم ہوا کہ ابن تیمیہ کی پیدائش سے پہلے کے مسلمان سب کے سب مقلد بھی تھے اور صوفیاء بھی تھے، ان کو آجکل کے دور کی طرح کسی دیوبندی وہابی نے بریلوی نہیں کہا تھا۔ نہ ہی سلطان صلاح الدین نے تاریخی مقامات کو منہدم کیا۔ اسی التاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ نے سیدنا شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روضہ مبارک کی بھی زیارت کی۔اب اگر زیارتِ مزارات حرام ہوتا تو کیا مجاہدِ اسلام سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ جو کہ خود ایک صوفی بھی تھے وہ کیا یہ شرک کرتے؟ یہ سوال ہر ایک کے سوچنے کے لیئے ہے۔


قریباً یہی سب کچھ امام ابن اثیر کی مشہور الکامل فی التاریخ جسکو تاریخ ابن اثیر بھی کہا جاتا ہے اس کی جلد 9 صفحات 214 اور 215 طبع شدہ دار الکتاب العربی بیروت لبنان پر بھی موجود ہے


حوالہ؛ البدایۃ والنہاٰیۃ ۔ للامام ابن کثیر ۔ جلد ۱۶ ص ۵۹۳، ۵۹۴.جز السادس عشر. طباعت. هجر للطباعۀ والنشر والتوزيع


Pashto:
امام ابن کثير په خپل تاريخ البدايه والنهايته کي لوستونکے دے


او..ګنبد صخره تر آړه غاړه سلطان هر بد شئے او صليبونه لري کړل، او پس له مردارئي ئي دغه ځائے پاک کړو،او دې مستورکيدو نه پس له ئي ظاهر کړ، او فقيه عيسي الهکاري له ئي حکم ورکړو چه دِ دغه څلور اطرافه دَ اوسپني کړکئ جوړئ کړئ شي اور دې له پاره ئي تنخواه دار امام هم مقرر کړو اور بيا ئي ورته خه رسد انتظام هم وکړ، هم دغه حال دَ مسجد اقصي امام له پاره هم وو.او هغئ يعني سلطان صلاح الدين ايوبي صاحب يوه شافعي مدرسه هم تعمير کړه چه څه ته الصلاحيه په نوم نوميګي او ورته الناصريه هم وئيلي کيږي .ځکه چه په دئ ځائ کښ به يوه ګرجا وا، چه کمه دې سيدتنا مريم عليه السلام دَ مور (حنه) په قبر باندے سازه وه.او سلطان صوفيائے کرامو له پاره يوه خانقاه هم وقف کړه.

يعني معلوم دغه شوه چه دې ابن تيميه دَ پيدائش نه وړاندے اور دې ديوبندو و وهابيانو نوے اسلام نه وړاندے ټول مسلمانان مقلد هم وو او ورڅره ورڅره صوفيان هم وو. که صوفيان مشرکان وو يا تقليد حرام وو نو بيا به چرے هم مجاهد اسلام سلطان صلاح الدين ايوبي به دغه عمل نه کولو، نن وهابيان سنيانو ته تقليد په وجه کافر وائي اور صوفيانو ته مشرکان وائي حالانکه سلطان خپله هم صوفي وو. په هم دغه جلد ۱۶ کښ دا هم ليکلي شوي دي چه سلطان دې سيدنا شعيب عليه السلام مزار مبارک يعني روضه مبارکه لره زيارت له هم حاضر شوے وو. نو معلوم دا شوه چه زيارتونو لره تګ عين اجماع امت دے


دې سلطان صلاح الدين ايوبي رضي الله عنه تر هقله دغه قسم معلومات ده يو بل مشهور امام َ تاريخ او محدث امام ابن اثير هم په خپل مشهور تصنيف التاريخ الکامل جلد ۹ پانړه ۲۱۴،او ۲۱۵ ، چاپ دې دارالکتاب العربي بيروت لبنان کښ هم لوستونکي شوے دے چه دَ څه نه معلوميږي چه سلطان ِاعظم مجاهد اسلام صلاح الدين ايوبي نه صرف دا چه مقلد وو بلکه مشهور صوفي هم وو


حواله ؛ تاريخ ابن کثير، البدايۀ والنهايۀ، جلد ۱۶ پانړه ۵۹۳/۹۴، طباعت هجر للتوزيع والطباعۀ.جيزه

Research  Imran A. Malik
Pashto Translation and Rechecking  ZarbeHaq


Scans:


Scans:



End.

Thursday, 19 February 2015

Hadith of Zaid bin Khaarjah (Urdu)



  Unicode:

زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ:

زیدبن خارجہ تابعی تھے جن کا انتقال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے چوتھے سال ہوا، آپ کا جنازہ پڑا ہے کہ اچانک بولنے کی آواز آئی، لوگوں نے ادھر ادھر دیکھا تو معلوم ہوا کہ زید بن خارجہ بول رہے ہیں ، وہ کیا بول رہے تھے؟ فرمارہے تھے۔

احمد فی الکتاب الاول۔۔۔۔ ،،،،،،،،ترجمہ:

"ارے احمد کا کیا کہنا وہ تو کتاب اول میں احمد مصطفیٰ ہیں اور ابوبکر صدیق کا کیا کہنا وہ تو کتاب اول (یعنی انجیل دیکھئے سکینز) میں ابوبکر صدیق ہیں اور عمر کا کیا کہنا وہ تو کتاب اول میں عمرفاروق ہیں، اس کے بعد فرماتے ہیں، "چاربرس گزر چکے ہیں اور دوبرس باقی ہیں، تمہیں پتہ چل جائے گا

لوگ اس بات کو نہ سمجھ سکے کیونکہ ان کا تعلق آنے والے واقعہ سے تھا، چنانچہ چاربرس گزرچکے تھے اور دو برس بعد یہ ہوا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سرکار علیہ االصلوٰۃ والسلام کی سنت کی یاد تازہ کرنے کے لیئے بئر عریض میں پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے، حضرت مسیب رضی اللہ عنہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زامنہ اقدس سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک انگوٹھی برداررہے، انگوٹھی حضرت عثمان غنی کو دیتے یا لیتے وقت کنوئیں میں گرگئی، تو پھر کیا ہوا؟ فتنوں کے دروازےایسے کھل گئے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت انہیں فتنوں کا نتیجہ ہوئی، دراصل وہ انگوٹھی آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی، آپ کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کےب عد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس، فاروقِ اعظم کے بعد عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس، توپتہ چلا کہ سارا نظام اس انگوٹھی کا صدقہ تھا، کیونکہ انگوٹھی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی مبارک سےمس ہوئی تھی، جب کنویں میں گرگئی تو خلاء پیدا ہوگیا، جب خلاء پیدا ہوگیا تو فتنوں کے دروازے کھل گئے، خلافت کے آخری چھ سال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نہایت پریشانی میں گزرے ، حتیٰ کہ شہید کردیئے گئے۔

اب دیکھئے کہ زید بن خارجہ بولے اور علم کی بات بتائی، جو دنیا والوں کو معلوم نہ تھی، کسی کو بھی پتہ نہ تھا کہ دو سال بعد کیا ہونے والا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہیں، آپ کے غلام مرنے کے بعد غیب کی خبر دے رہے ہیں ، زید بن خارجہ کلام بھی فرما رہے ہیں اور غیب کی خبر بھی دے رہے ہیں، مرنے کے بعد کلام فرمانا حیاتِ حقیقت کی دلیل ہے، تو جن کے غلاموں کے مرنے کے بعد حیات کا یہ عالم ہے کہ مرنے کے بعد غیب کی خبر دے رہے ہیںاُن کے آقا کی حیات کا کیا عالم ہوگا۔ حوالہ جات:

یہ واقعہ ان کتب میں بیان ہوا ہے۔ ازالۃ الخفاء ، از محدث شاہ ولی اللہ دہلوی (مترجم) جلد چہارم، ص 99، 100 جلد دوئم ، فصل ہشتم ، ص 530درفضیلت شیخین البدایہ والنہایہ ، جل 6، ص 292 تاریخ الکبیر،امام بخاری۔امام حاکم کی مستدرک میں اور بیہقی کی دلائل النبوت میں ۔

Tuesday, 10 February 2015

Al Hakeem Tirmidhi Was Also a Sufi Shaikh as Well

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اسلامی بھائیو اور بہنو! السلام علیکم !۔

دورجدید کے جدید فرقے اکثر عوام کو یہ دھوکہ دیتے نظر آتے ہیں کہ (صوفیائے کرام) اسلام یا خیرا لقرون یا سلف الصالحین وغیرہ کے بعد آئے، جو کہ سراسر جھوٹ بددیانتی اور کذب میں آتا ہے کیونکہ، اسی بلاگ پر مختلف آرٹیکلز میں ہم یہ بمع ثبوت ثابت کرچکے ہیں کہ تمام تر محدثین سلف الصالحین، اور خاص طور پر صحاح ستہ کے تمام فاضل مشہور محدیثین جیسے سیدنا امام بخاری ، امام مسلم ، ابن ماجہ، ابی داؤد ، ترمذی وغیرہ سب کے سب مقلد بھی تھے آج آپ کی خدمت میں ایک اور معلومات پیش خدمت ہے جس سے آپ پر واضح ہوجائے گا کہ سلف الصالحین خود بھی صوفیاء تھے۔

الامام ابی عبداللہ محمد بن علی بن الحسن بن بشر المعروف بالحکیم ترمذی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ جو کہ پڑھنے لکھنے والے قارئین کے لیئے کوئی گمنام شخصیت نہیں ہیں۔ دارالکتب العلمیہ بیروت سے شائع شدہ ان کی مشہور تصنیف جس پر 5 سے زیادہ علماء عرب نے بطور محقق تحقیق کرکے (الاحتیاطات) شائع کی جو کہ حکیم ترمذی کی تصوف سے متعلق ایک مایہ ناز تصنیف ہے ۔ انشاء اللہ اگلی کسی پوسٹ میں اس کے مندرجات بھی پیش کروں گا۔ یہاں فی الحال حکیم ترمذی کا تعارف خود مخالفینِ تصوف کے ادارے سے پیش خدمت ہے۔



مقدمہ میں امام ترمذی کو محدث کے ساتھ ساتھ (صوفی) بھی لکھا ہے جو کہ آپ نیچے دیئے گئے عکس میں پڑھ سکتے ہیں۔ 


نیز مزید تعارف صفحہ 12 پر دیا گیا ہے جس کی آخری لائین کو کلر فینس دیا گیا ہے۔ جس میں صاف پڑھا جاسکتا ہے کہ اس دور میں ان کا تصوف میں سلسلہ کا نام (حکیمیہ ) تھا۔حوالہ کے طور پر امام علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش سرکار رحمتہ اللہ علیہ کی مشہور کشف المحجوب کا حوالہ دیا گیا ہے۔عکس صفحہ 12 دیکھیئے 



یعنی ثابت ہوا کہ اتنے بڑے محدثین بھی نہ صرف یہ کہ مقلد تھے جیسا کہ اسی بلاگ پر ہم نے ثبوتوں کے ساتھ حوالہ جات کے عکس دیئے ہیں جو کہ آپ یہاں سے ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

امام بخاری، ابی داؤد سب مقلد تھے کلک کریں۔

مزید ثبوت کہ حکیم ترمذی (رح) صوفی بھی تھے، نہ صرف یہ بلکہ ان کے صوفی شیوخ کا بھی تعارف دیا گیا ہے جو کہ آپ نیچے دیئے گئے عکسوں میں دیکھ سکتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے نہ صرف علم الحدیث ان سے حاصل کی بلکہ باقائدہ پیری مریدی بھی کی۔



یہاں تک تو تھا تعارف آپ کے شیوخ کا جو کہ آپ عربی سکینز میں دیکھ سکتے ہیں کہ اُن میں سے بیشتر صوفیاء کرام تھے اور یہ نہیں کہ کوئی انجانے بلکہ مشہور ومعروف محدثین تھے جن کی ثقاہت کی دلیل خود ان کے ہی محققین نے نیچے دیئے ہوئے حوالہ جات میں دی ہے۔ جرح وتعدیل کے ساتھ ساتھ۔اب یہاں سے آگے اسی کتاب میں اب حکیم ترمذی کے تلامذہ یعنی شاگردوں  کا بھی ذکر خیر ہورہا ہے جس میں سے اکثر نہ صرف آپ سکینز میں دیکھ سکیں گے حوالہ جات کے ساتھ کہ وہ صوفی تھے بلکہ اپنے اپنے وقت کے عظیم مشائخ سے درس و تدریس اور مجالس یعنی اُن کے حلقوں میں اٹھنا بیٹھنا بھی رکھتے تھے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ان کے تمام ترشاگرد بھی مشہور ترین محدثین ہیں اور جنکی ثقاہت بھی اسی جگہ پر دی گئی ہے



جیسے کہ آپ نے صفحہ نمبر 21 پر پڑھا کہ شیخ کے تمام مریدین بھی زہد میں مشہور ومعروف قرار ٹھہرے۔ اور یہ سب افراد اور ان کا ذکر تاریخ و رجال کی کتب میں موجود ہے۔جس میں سے چند کے حوالے اسی کتاب کے محققین نے صفحات کے ساتھ ساتھ دیئے ہیں۔

حکیم ترمذی کے شیوخ میں اباتراب النخشبی، احمد بن خضرویہ ،اوراحمد بن الجلاء جیسے صدوق محدثین کا بھی ذکر ہے جو آپ نے گزشتہ صفحات میں پڑھا اور جن کو کلر لائینز سے مارک کیا گیاہے۔ یہ شیوخ ناصرف محدثین تھے بلکہ صوفی شیوخ بھی تھے اور پھر جیسے کہ ان کے شاگردوں کا ذکر ہے۔جن کا علمی درسی حلقہ ، شیخ جنید بغدادی، شیخ سری سقطی، شیخ الکرخی وغیرہم سے جاکر ملتا ہے جو کہ مایہ ناز اولیائے کرام ہونے کے ساتھ ساتھ علم الاسلام کے عظیم ترین محدثین، مفکرین سلف بھی ہیں۔

صفحہ 25 پر محنتہ الحکیم ترمذی کے عنوان کے ماتحت ابوعبدالرحمٰن السلمی سے روایت بھی لکھی گئی ہے کہ اہل ترمذ نے اُس دور میں بھی ان کی دو کتابوں علل الشریعتہ اور ختم الاولیاء کی وجہ سے ان پر کفر ارتداد کا الزام لگا کرشہر بدر کردیا گیا جسکی وجہ سے وہ بلخ جاکر رہنے لگے۔یعنی ثابت ہوا کہ صوفی کوئی نئے لوگ نہیں بلکہ یہی اصلی اسلام کے علمبردار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاک گھرانے اور پاک صحابہ سے علم وفضل حاصل کرنے والے شیوخ کے ہی متبدی ہیں۔ یہ الزام بالکل من گھڑت اور جھوٹ ہے جو کہ بعض حدیث حدیث کے نام پر چلانے والے لگاتے ہیں۔ تصوف اسلام کی روح ہے اور روح کو منفی کرکے جسم میں حرکت کی توقع صرف بیوقوفی ہے۔ سلف الصالحین تو بعد کی بات ہے،صوفیائے کرام تو اسلام بلکہ دین ابراہیمی کے وقت سے ہی موجود ہیں۔ جیسے کہ مثال کے طور پر سیدنا خضر علیہ السلام،اور موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ۔ پھر جب دین مکمل کردیا گیا یعنی اسلام دنیا میں آگیا تو یہی تصوف اسلام کی روح بنا اور انسان کے لیے دینی راہ پر چلتے ہوئے اپنی روح کو منور کرنے کی سنت ہمیں جا بہ جا ملتی ہے مثال کے طور پر سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ ۔ لہٰذا یہ کہنا بالکل ہی فاسد مکروہ بیہودہ شرمناک جھوٹ اور لاعلمی سے زیادہ کچھ نہیں کہ صوفی بعد کی پیداوار ہیں۔ مخالفین کو کم سے کم اپنے مکتبوں کی چھاپی کتب کا تو مطالعہ کرلینا چاہیئے۔ عکس پیش خدمت ہے۔



واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ۔ملک عمران اکبر (مجذوب القادری)۔

English Summary:


Famous Muhadith Syaduna Imam Abi Abdullah Muhammad bin Ali bin al Hassan bin Bishr (aka) Hakeem Tirmidhi (Rd) was not only Muhadith and Imam but also was a Sufi. This is been written in the scans as you can see and check above. This is book of Imam Hakeem Tirmizi al-Sufi and the name of the book is (al-Ehtiya’taat) published by famous Darul kutub al Elmiya Beirut Lebanon. In the Muqaddima of the book its been written clearly on page 11 that , he was a Sufi, also further information is been given that his Silsila (order) was (al-Hakeemiya) on page 12 of the same page. Remember this book is been check and written by 5 dominant scholars of Darul Kutub al Elmiya. On pages 13 -to- 18 the Shayukh of Hakeem Tirmizi (rta) is been mentioned and among them several names which are written are most famous Scholars of Hadith as well as most famous Sufis of their times. E.g 
Yaqoob al DaowrqiSufiyan bin WaqeeAba Turab al Nakhshabi,Ahmed bin Khazroya and Ahmed bin Al-Jila. These all most all are the famous Shayukh of Hadith as well as Tassawuf (Tareeqat/Sufism). Many among them are from Khurasan and Balkh also from Tirmiz City.
Then from pages 18 to 21 his (Tirmizi’s) Students are mentioned. Those are also not unknown personalities but rather they are utmost famous scholars of Jurisprudence and hadith sciences as well as its also written that, they were opt to take classes from most famous gnostics like Shyaikh Junaid al-Baghdadi (rt), Shyaikh Siri al-SiqtiSheikh al-Kharkh , Haatim al As’am etc etc. Those all are the most glorious names of Islamic history regarding Islamic teachings as well as spirituality and tassawuf. On the same page 21 its also been proven that, this was not only one person’s choice type of thing in regard to Hakeem Tirmiz, but this is a continous chain like, he studied from Sufi Syuokhs, who were also muhaditheen of ‘Saddooq‘ level. (the utmost authentic). and then his followers i.e., Hakeem Tirmidhi’s students also use to follow the same of their Teacher Hakeem Tirmizi and they use to carry out this. This same thing is to be known as (Peeri-Mureedi). [Which is interestingly called polytheism from the so called followers of salaf i.e., Deobandism-Wahhabism and their sects like (chakralvis, thanvis, gangohis, ismaeel dhlawis, ahle hadith etc etc) by the way.]
On page 25 under the title of Mahnatal Hakeem al Tirmidhi (Work Struggle of Hakeem Tirmiz) it is narrated through famous scholar of hadith Abu AbdiRehman al Selmi, that people of Tirmiz accused his of polytheism, because of his two books which he wrote, (1) Kitab Khatm al Vilayata, and (2) Kitab Elal al Sharee’a. and then further details are been given that, because those people were not comprehend to understand his work thats why they accused him of this, and so do he left the city and get his way towards Balkh for residence in his last age.
Allah and His Apostle Knows best!
Imran Akbar Malik (Majzoob al Qadri)