متصوف اور مشتبہ کے بیان میں باب کا ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک شخص حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ) کے پاس آیا اور کہا کہ یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم )! قیامت کب آئیگی؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ) نماز کے لیئے اٹھ کھڑے ہوئے جب نماز پڑھ چکے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ) نے فرمایا وہ شخص کہاں ہے جس نے قیامت کی نسبت سوال کیا تھا؟ تو وہ شخص بولا میں ہوں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم )! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ) نے فرمایا قیامت کے لیئے تُو نے کیا سامان کیا ہے؟ تو اس نے عرض کیا، اُس کے لیئے میں نے نماز روزہ زیادہ نہیں جمع کیئے ،اور کہا میں نے اس کے لیئے کوئی بڑے عمل اکٹھے نہیں کیئے مگر یہ کہ میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ) کو دوست رکھتا ہوں۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ) نے فرمایا ۔ (آدمی اُس کے ساتھ ہے جس کو وہ چاہتا ہے، تُو اس کے ساتھ ہے جس کو تُو چاہتا ہے)۔
حضرت انس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا کہ تب میں نے مسلمانوں کو اسلام کے بعد کسی شے سے ایسا خوش نہیں دیکھا جیسا کہ وہ اس سے خوش ہوئے۔ پس جو شخص صوفیہ کے مشتبہ ہے کہ اُس نے صوفیہ کا تشبہ اُن کے سوا دوسرے گروہ سے نہیں اختیار کیا الا اُن کی محبت سے حالانکہ وہ قاصر ہے ان باتوں سے قائم ہونے سے جو اُن میں ہیں صوفیاء کے ساتھ ہوگا اس لیئے کہ متشبہ کو صوفیہ کے ساتھ ارادت اور محبت ہے ۔ اور ہر آئینہ اس حدیث سے جو ہم نے اس مسئلہ میں روایت کی ہے واضح تر دوسری حدیث وارد ہوئی ہے۔
عبادہ بن صامت (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے ابی زر غفاری (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت کی ہے ،کہا کہ میں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ) ہرآئنہ میں اللہ اور اُس کے رسول کو دوست رکھتا ہوں۔ توفرمایا کہ ہر آئینہ تُو اُس کے ساتھ ہے جس کو تُو دوست رکھتا ہے۔ کہا کہ ابوذر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے ان کو دوبارہ کہا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ) نے اس کودوبارہ فرمایا۔ پس مشتبہ کی اُن سے محبت نہیں ہوتی۔ مگر اس وجہ سے کہ اُس کی روح اس شئے سے آگاہ اور ہوشیار ہوگئی ہے جس سے ارواح صوفیہ آگاہ اور خبردار ہیں ۔ اس واسطے کہ محبت امر اللہ کی اور اُس شئے کی جو اُس کی طرف قربت دے۔ الا اُس شخص کی جو اُس کا مقرب ہو روح کو بدوں اس کے کہ متشبہ نقش کی ظلمت سے باز رہتا ہے اور صوفی اس سے رہا ہوچکا ہے۔ اور متصوف حال صوفی کی طرف تاک لگارہا ہے اور وہ متشبہ کے صفات نفسانی کے بقیہ میں شریک ہے اور طریق صوفیہ سے اول ایمان ہے پھر علم پھر ذوق ہے اور متشبہ صاحب ایمان ہے اور طریق صوفیہ اصل بزرگ ہے۔ جنید رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ ایمان طریقہ کا ولایت ہے اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ صوفیہ اکثر خلائق کے نزدیک احوال نادرہ کمیاب اور آثار عجیب و غریب کے سبب ممتاز ہوتے گئے ہیں۔یہ حضرات قضا و قدر اور علوم غریبہ کے صاحب مکاشفہ ہیں۔اور اُن کے اشارے اللہ کے بڑے امراور اُسی کے قرب کی طرف ہیں اور ایمان اُس پر ایمان بالقدرت ہے اور اہل ملت سے ایک قوم نے کرامات ِ اولیاء سے انکار کیا ہے، اورحالانکہ ایمان اس پر ایمان بالقدرت ہے اور اس قسم کے بہت علوم اُن کے پاس ہیں تو اُس طریق پر ایمان وہی شخص لاتا ہے جس کو حق تعالیٰ نے اپنی مزیدعنایت سے مختص فرمایا ہے۔
انتخاب از مخطوطہ بہ زبان فارسی وعربی، عوارف المعارف،
الشیخ الامام ابو حفص عمر بن محمد عبداللہ،المشہور بہ؛ شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ۔(متوفی ، محرم سنۃ 23ھ بغداد)
احقر عمران اکبر ملک۔ (مجذوب القادری)۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک شخص حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ) کے پاس آیا اور کہا کہ یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم )! قیامت کب آئیگی؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ) نماز کے لیئے اٹھ کھڑے ہوئے جب نماز پڑھ چکے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ) نے فرمایا وہ شخص کہاں ہے جس نے قیامت کی نسبت سوال کیا تھا؟ تو وہ شخص بولا میں ہوں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم )! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ) نے فرمایا قیامت کے لیئے تُو نے کیا سامان کیا ہے؟ تو اس نے عرض کیا، اُس کے لیئے میں نے نماز روزہ زیادہ نہیں جمع کیئے ،اور کہا میں نے اس کے لیئے کوئی بڑے عمل اکٹھے نہیں کیئے مگر یہ کہ میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ) کو دوست رکھتا ہوں۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ) نے فرمایا ۔ (آدمی اُس کے ساتھ ہے جس کو وہ چاہتا ہے، تُو اس کے ساتھ ہے جس کو تُو چاہتا ہے)۔
حضرت انس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا کہ تب میں نے مسلمانوں کو اسلام کے بعد کسی شے سے ایسا خوش نہیں دیکھا جیسا کہ وہ اس سے خوش ہوئے۔ پس جو شخص صوفیہ کے مشتبہ ہے کہ اُس نے صوفیہ کا تشبہ اُن کے سوا دوسرے گروہ سے نہیں اختیار کیا الا اُن کی محبت سے حالانکہ وہ قاصر ہے ان باتوں سے قائم ہونے سے جو اُن میں ہیں صوفیاء کے ساتھ ہوگا اس لیئے کہ متشبہ کو صوفیہ کے ساتھ ارادت اور محبت ہے ۔ اور ہر آئینہ اس حدیث سے جو ہم نے اس مسئلہ میں روایت کی ہے واضح تر دوسری حدیث وارد ہوئی ہے۔
عبادہ بن صامت (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے ابی زر غفاری (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت کی ہے ،کہا کہ میں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ) ہرآئنہ میں اللہ اور اُس کے رسول کو دوست رکھتا ہوں۔ توفرمایا کہ ہر آئینہ تُو اُس کے ساتھ ہے جس کو تُو دوست رکھتا ہے۔ کہا کہ ابوذر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے ان کو دوبارہ کہا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ) نے اس کودوبارہ فرمایا۔ پس مشتبہ کی اُن سے محبت نہیں ہوتی۔ مگر اس وجہ سے کہ اُس کی روح اس شئے سے آگاہ اور ہوشیار ہوگئی ہے جس سے ارواح صوفیہ آگاہ اور خبردار ہیں ۔ اس واسطے کہ محبت امر اللہ کی اور اُس شئے کی جو اُس کی طرف قربت دے۔ الا اُس شخص کی جو اُس کا مقرب ہو روح کو بدوں اس کے کہ متشبہ نقش کی ظلمت سے باز رہتا ہے اور صوفی اس سے رہا ہوچکا ہے۔ اور متصوف حال صوفی کی طرف تاک لگارہا ہے اور وہ متشبہ کے صفات نفسانی کے بقیہ میں شریک ہے اور طریق صوفیہ سے اول ایمان ہے پھر علم پھر ذوق ہے اور متشبہ صاحب ایمان ہے اور طریق صوفیہ اصل بزرگ ہے۔ جنید رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ ایمان طریقہ کا ولایت ہے اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ صوفیہ اکثر خلائق کے نزدیک احوال نادرہ کمیاب اور آثار عجیب و غریب کے سبب ممتاز ہوتے گئے ہیں۔یہ حضرات قضا و قدر اور علوم غریبہ کے صاحب مکاشفہ ہیں۔اور اُن کے اشارے اللہ کے بڑے امراور اُسی کے قرب کی طرف ہیں اور ایمان اُس پر ایمان بالقدرت ہے اور اہل ملت سے ایک قوم نے کرامات ِ اولیاء سے انکار کیا ہے، اورحالانکہ ایمان اس پر ایمان بالقدرت ہے اور اس قسم کے بہت علوم اُن کے پاس ہیں تو اُس طریق پر ایمان وہی شخص لاتا ہے جس کو حق تعالیٰ نے اپنی مزیدعنایت سے مختص فرمایا ہے۔
انتخاب از مخطوطہ بہ زبان فارسی وعربی، عوارف المعارف،
الشیخ الامام ابو حفص عمر بن محمد عبداللہ،المشہور بہ؛ شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ۔(متوفی ، محرم سنۃ 23ھ بغداد)
احقر عمران اکبر ملک۔ (مجذوب القادری)۔
!
No comments:
Post a Comment