Sunday, 26 April 2015

Ibn al Jawzi Refuting Mujassima - al-Wahhabiya Beliefs

فرقہ جدیدیہ (الوہابیہ ، المجسمیہ) کے جھوٹ، ان کے فرقے کے بننے اور اصلی حنبلیوں کا وہابیوں کے شرکیہ عقائد کا رد ۔یاد رہے کہ ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ فقہ حنبلی کے ایک عظیم امام تھے۔ اور اللہ کے لیئے جسم کے بیہودہ شرکیہ عقیدے کے خلاف بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ابن تیمیہ نے جو خرافات ابو یعلیٰ وغیرہ ودیگر کی طرح کی ہیں اس معاملے میں اُس کا رد بارہا امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ۔ جو کہ ایک محدث اور فقیہہ کی شان ہوتی ہے۔ اور ظاہر کیا کہ اصلی حنابل کا ان عقیدوں سے دور دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہے۔اس سلسلے کی دوسری کڑی اگلے آرٹیکل میں دی جائے گی۔ 

حصہ اول؛ ردِ مجسمیت


ترجمہ: امام ابن جوزی (رحمتہ اللہ علیہ ) لکھتے ہیں:

"میں نے اپنے بعض حنبلی اصحاب کو دیکھا کہ انہوں نے عقائد کے باب میں ایسی باتیں کہی ہیں جو درست نہیں ہیں ۔ یہ اصحاب ابن حامد (چارسوتین ہجری) ، ان کے شاگرد ابویعلیٰ (چارسو اٹھاون ہجری) اور ابن زاغونی (پانچسو ستائیس ہجری) ہیں۔ ان کی کتابوں نے حنبلی مذہب کو عیب دار کیا ہے۔ ان لوگوں نے عوامی انداز اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو محسوسات (یعنی مخلوقات) پر قیاس کیا۔ انہوں نے یہ حدیث دیکھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف اعضاء کی نسبت دیکھی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیئے ان کی ذات پر زائد صورت کا، چہرے گا، دو آنکھوں کا، منہ کا، کوے کا،داڑھوں کا، چہرے کی چمک کا، دوہاتھوں کا، ہتھیلی کا، چھنگلی کا، انگوٹھے کا، سینے کا ، ران کا ، پنڈلیوں کا اور دوپاؤں کا اثبات کیا اور کہا کہ ہم اللہ کے لئے سر کا اثبات نہیں کرتے کیونکہ ہم نے کسی نص میں سر کا ذکر نہیں پایا۔ 

ان لوگوں نےیہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ چُھوتے ہیں اور چھوئے جاسکتے ہیں اور وہ بندے کو اپنی ذات کے قریب کرلیتےہیں اور بعض تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سانس بھی لیتےہیں۔ 

ان لوگوں نےا للہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں الفاظ کے ظاہری معنی کو لیا (مثلاً ید اور قدم اور وجہ کے ظاہری وحقیقی معنی کو لیا جو ذات کے اعضاء ہیں) اور ان کو انہوں نےصفات کہا جو خود ایک بدعت ہے اور اس پر ان کے پاس کوئی نقلی وعقلی دلیل نہیں ہے۔ اور انہوں نے ان نصوص پر توجہ نہیں کی جو تقاضا کرتی ہیں کہ ظاہری معنی کے بجائے ایسے معنی لیئے جائیں جو اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہوں اور انہوں نے اس طرف بھی توجہ نہیں کی کہ حادث ہونے کی علامتوں کی وجہ سے ظاہری معنی لغو ہیں۔

پھر ان صفات کو  مان لینے کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم ان کے ظاہری اور معروف معنی لیں گے اور لغوی توجیہ بھی نہ کریں گے۔ اور ظاہری معنی وہ ہیں جو انسانوں میں معروف ہیں اور لفظ کو جہاں تک ہوسکے اس کے ظاہری اور حقیقی معنی میں لیا جائے۔ اور اگر کوئی مانع ہو تو پھر مجاز کی طرف جائیں۔ پھر وہ تشبیہ سے بچنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے سے تشبیہ کی نسبت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف ہم (یعنی سلفی ہی، وہابی) اہلسنت ہیں حالانکہ ان کے کلام میں صریح تشبیہ پائی جاتی ہے۔ 

پھر عوام کی ایک تعداد ان لوگوں کی پیروی کرنے لگی۔ میں نے ان خواص و عوام دونوں کو سمجھایا کہ اے حنبلیو! تم اہل علم اور اہل اتباع ہو اور تمہارے بڑے امام احمد بن حنبل (رحمتہ اللہ علیہ) کا یہ حال تھا کہ جلاد ان کے سرپرہوتا تھا پھر بھی وہ یہی کہتے تھے کہ میں وہ بات کیسے کہوں جو اسلاف نے نہیں کہی۔ لہٰذا تم ان کے مذہب ومسلک میں بدعتیں داخل نہ کرو۔ پھر تم حدیثوں کے بارے میں کہتے ہو کہ ان کے بھی ظاہری معنی لیئے جائیں گے ۔ تو قدم (پاؤں) کا ظاہری معنی تو عضو ہے۔ یہ تو عیسائیوں کی طرح ہوا کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح اللہ کہا گیا تو ان ناہنجاروں نے یہ عقیدہ بنا لیا کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت روح ہے جو حضرت مریم علیہما السلام میں داخل ہوئی۔

اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مقدس ذات سمیت عرش پر مستوی ہوئے تو انہوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو محسوسات کی مثل لیا۔ حالانکہ واجب ہے کہ جس عقل سے ہم نے اللہ کو اور اس کے قدیم وازلی (ہمیشہ ہمیشگی سے) ہونے کو پہنچانا اس کو ہم (صفات سمجھنے میں) مہمل نہ چھوڑیں۔

تو تم اس نیک اور اسلاف کے طریقے پر چلنے والے (یعنی امام احمد بن حنبل) کےمذہب ومسلک میں وہ کچھ داخل مت کرو جو اس کا حصہ نہیں ہے۔ تم لوگوں نے اس مذہب کو بڑا غلیظ لباس پہنادیا ہے۔ جس کی وجہ سے حنبلیوں کو مجسمی (یعنی اللہ تعالیٰ کےلیئے جسم ثابت کرنے والا) سمجھا جانے لگا ۔ 

پھر تم نےاپنے اختراعی مذہب کو یزید بن معاویہ کے لیئے عصبیت (وحمایت) کے ساتھ مزیئن کیا (اور اس کو فضیلت وار قرار دینے لگے) حالانکہ تم جانتے ہو کہ امام احمد بن حنبل نے اس پر لعنت کرنے کو جائز کہا ہے۔ اور ابو محمد تمیمی تمہارے امام ابویعلیٰ کے بارے میں کہتےتھے کہ انہوں نے امام احمد کے مذہب کو ایسا دھبہ لگایا ہے جو قیامت تک دھل نہیں سکتا۔

میں نے ان لوگوں پر رد کرنے کو ضروری سمجھا تاکہ ان کی باتوں کو امام احمد بن حنبل کی طرف منسوب نہ کیا جائے اور اس بات سے میں خوفزدہ نہیں ہوا کہ مذکورہ عقائد کچھ لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوچکے ہیں کیونکہ عمل کا مدار دلیل پر ہے۔ خاص طور سے اللہ تعالیٰ کی معرفت میں کہ اس میں تقلید جائز نہیں ہے۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا انہوں نے جواب بتایا۔ وہاں موجود کسی نے کہا عبداللہ بن مبارک تو اسکے قائل نہیں ہیں۔ اس پر امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ آسمان سے تو نہیں اترے تھے کہ ان سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا تھا کہ میں نے امام مالک رحمتہ اللہ علیہ پر رد لکھنے کےلیئے اللہ تعالیٰ سے استخارہ کیا تھا (مطلب یہ ہے کہ ایک مجتہد کو اگر دوسرے مجتہد سے کسی مسئلے میں اتفاق نہ ہو تو وہ اختلاف کرسکتا ہے)۔ 

(جاری ہے) (اختتام ص 6 تا 11 مقدمہ دفع تشبیہہ از امام ابن جوزی )

For reading into Proper Unicode urdu format visit  makashfa.wordpress.com

Scans:



No comments:

Post a Comment