Monday, 27 April 2015

Imam Taj-ud-deen Suboki Refutation to Ibne Taymmiya Translation Urdu Chp 4

ترجمہ؛ باب الرابع ، 


قاضی عیاض مالکی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ قبرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مسلمانوں میں مجمع علیہ سنت ہے۔ اور اس کی فضیلت پسندیدہ چیز ہے۔ قاضی ابو الطیب نے فرمایا حج اور عمرہ کے بعد قبر النبی کی زیارت کرنا مستحب ہے۔ محالی نے (تجرید) میں فرمایا حاجی کے لیئے مستحب ہے کہ حج سے فارغ ہونےکے بعد وہ قبرالنبی کی زیارت کرے۔ ابو عبداللہ الحسین الحلیمی نے اپنی کتاب (المنہاج) میں فرمایا۔ آنحضور کی زندگی میں تو ان کی تعظیم کے طریقے وہ تھے جو صحابہ کرام نے اختیار کیئے اب ان کی تعظیم کا طریقہ یہی ہے کہ قبر کی زیارت کی جائے۔ ماوردی نے (الحادی) میں فرمایا، آنحضور کی قبر کی زیارت کا حکم ہے اور وہ مستحب ہے۔ ماوردی نے (الاحکامُ السلطانیہ) میں حاجیوں پر والی مقرر کرنے کے سلسلے میں فرمایا متولی کے لیئے شرط ہے کہ وہ مطاع، ذی رائے، شجاع ہو اور دیگر شرائط کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا۔ جب لوگ حج کرچکیں تو ان کو کچھ مہلت دے اور جب واپس ہوں تو ان کو مدینہ طیبہ والے راستہ سے واپس لے کر لوٹے تاکہ ان کو حج کے ساتھ قبرالنبی کی بھی زیارت حاصل ہوجائے۔ اور یہ اگر حج کے ارکان میں سے نہیں ہے لیکن شرعی مستحبات میں سے ہے اور حاجیوں کی اچھی عادتوں میں سے ہے۔ 


صاحب (المہذب) نے فرمایا قبر النبی کی زیارت مستحب ہے القاضی حسین نے فرمایا جب حج سے فارغ ہو تو سنت ہے کہ ملتزم کے پاس کھڑا ہوکر دعا کرے پھر زمزم پیئے پھر مدینہ آئے اور حضور کی قبر کی زیارت کرے۔ رؤیانی نے کہا جب حج سے فارغ ہوجائے تو مستحب ہے کہ قبرالنبی کی زیارت کرے۔


احناف کے نزدیک تو قبر النبی کی زیارت مستحبات مین سے سب سے زیادہ افضل بلکہ درجہ وجوب سے قریب تر ہے۔ ابومنصور محمد ابن مکرم کرمانی نے اپنے (مناسک) میں اور عبداللہ بن محمود نے (شرح المختار) میں اس کی تصریح کی ہے اور فتاوی ابواللیث سمرقندی میں حسن بن زیاد کی روایت سے منقول ہے کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ حاجی کےلئے مناسب ہے کہ پہلے مکہ جائے جب وہاں کے ارکان ادا کرچکے تو مدینہ جائے اور اگر پہلے مدینہ ہوآئے یہ بھی جائز ہے۔ مدینہ پہنچ کر آنحضور کی قبرِ مبارک پر جائے ، قبلہ اور قبر کے درمیان اسطرح کھڑا ہو کہ اُس کا رخ قبر کی جانب ہو۔ حضور پر صلوٰۃ والسلام پڑھے اور حضرت ابوبکر وعمر پر بھی سلام پڑھے اور ان کے لیئے رحمت کی دعا کرے۔ ابوالعباس السروجی نے (الغایۃ) میں لکھا ہے جب حج یا عمرہ کرنیوالے مکہ سے واپس ہوں تو مدینہ طیبہ پہنچ کر قبرالنبی کی زیارت کریں یہ اُس کی ایک قابلِ تعریف کوشش ہوگی۔ حنابلہ نے بھی اس طرح کی تصریحات کی ہیں۔ ابوالخطاب محفوط حنبلی نے (کتاب الہدایۃ) میں فرمایا حاجی جب حج سے فارغ ہوجائے تو اس کے لیئے آنحضور اور صاحبین کی قبر کی زیارت مستحب ہے۔ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ السامری الحنبلی نے کتاب (المستوعب) میں فرمایا۔ جب مدینۃ الرسول پر پہنچے ۔ اس کے لیئے مستحب ہے کہ مدینہ میں داخلہ کے وقت غسل کرے پھر مسجد نبوی میں پہنچے اور داخل ہوتے وقت دایاں پاؤں پہلے داخل کرے پھر قبرالنبی کی دیوار کے پاس پہنچ کر اس طرح کھرا ہوکہ قبرالنبی سامنے ہو اور قبلہ پشت کی جانب ہو اور منبر النبی بائیں جانب ہو اور پھر دعا وصلوٰۃ وسلام کی کیفیت بیان کرنے کے بعد فرمایا۔ یہ بھی کہے اے اللہ تو نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے۔ (اور اگر ان لوگوں نے جس وقت اپنا برا کیا تھا تیرے در پر آتے پھر اللہ سے بخشواتے اور رسول ان کو بخشواتا اللہ کو پاتے معاف کرنے والا مہربان ۔سورۃ النساء 64)۔ اور کہے اب میں تیرے نبی کے پاس مغفرت چاہنے کے لیئے حاضر ہوا ہوں اور تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ تو اپنی مغفرت میرے لیئے ثابت کردے جس طرح تو نے اُن کے لیئے مغفرت ثابت کی ہے جو ان کی زندگی میں مغفرت کے لیئے آئے ۔ اے اللہ میں تیری طرف تیرے نبی کے واسطہ سے متوجہ ہوتا ہوں۔ اس کے بعد جب واپسی کا ارادہ کرے دوبارہ قبرالنبی پر حاجر ہوکر رخصت ہو۔ دیکھئے یہ مصنف حنبلی ہیں اور منکرِ زیارتِ قبرالنبی بھی حنبلی(یہاں امام سبکی کی مراد ابن تیمیہ سے ہے)۔ انہوں نے کس قدر صراحت کے ساتھ زیارت قبرالنبی کا ذکر کیا ہے۔ اور نبی کے واسطہ سے توجہ الی اللہ کو بیان کیا ہے۔ اسی طرح ابومنصور کرمانی حنفی نے کہا ہے کہ اگر تجھ سے کسی نے آنحضور تک سلام پہنچانے کی درخواست کی ہے تو تجھے قبرالنبی پہنچ کر کہنا چاہیے۔ اے رسول آپ پر فلاں بن فلاں کی جانب سے سلام ہو اور وہ آپ سے اللہ کے دربار میں رحمت اور مغفرت کی شفارش چاہتا ہے آپ اس کی سفارش کردیجئے۔ اس مسئلے کے لیئے ہم انشاء اللہ ایک مفصل باب قائم کرینگے۔ نجم الدین ابن حمدان حنبلی نے (الرعایۃ الکبریٰ) میں فرمایا ۔ جو شخص حج سے فارغ ہو اس کے لیئے نبی اور صاحبین کی قبور کی زیارت مسنون ہے اور اگر وہ چاہے تو حج سے پہلے زیارت کرلے۔ 


ابن جوزی نے اپنی کتاب (مثیر العزم الساکن) میں فرمایا اور یہ حنابلہ کی معتبر ترین کتاب ہے۔ قبر النبی کی زیارت مستحب ہے اور ابن عمر کی حدیث بطریق دارقطنی وغیرہ اور ابوہریرہ کی حدیث بطریق احمد (جو کوئی مسلمان میری قبر کے پاس آکر سلام کرےگا اس کے لیئے مجھ پر شفاعت ضروری ہوگئی)۔ ذکر کی ہے۔ اسی طرح موالک کی بھی تصریحات ہیں اور ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ قاضی عیاض نے اس مسئلہ کو اجماعی قرار دیا ہے۔ اور عبدالحق نے (تہذیب المطالب) میں شیخ ابوعمران مالکی کی جانب سے نقل کیا ہے کہ زیارت قبر النبی واجب ہے ۔ اور عبدالحق نے اسی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ شیخ ابومحمد بن ابی زید سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ اگر کسی نے کسی کے ذریعہ حج کرایا اور اس کو حج وزیارت کے لیئے خرچہ دیا۔ اب وہ شخص حج کرکے لوٹ آیا اور کسی عذر کی وجہ سے مدینہ طیبہ نہ جاسکا تو کیا ہو۔ انہوں نے جواب میں فرمایا۔ زیارت پر جوخرچ ہوتا اس شخص کو وہ واپس کرنا ہوگا۔ اور بعض مشائخ نے فرمایا کہ اس پر ضروری ہوگا کہ وہ اس نائب کو لوٹائے تاکہ وہ زیارت کرکے واپس آئے۔ یہ وہی عبدالحق ہیں جنہوں نے شیوخِ قیروان اور شیوخِ صیقلیہ سے فقہ حاصل کیا ہے۔


ماوردی نے (الحاوی) میں ذکر کیا ہے کہ ہمارے اصحاب نے زکر کیا ہے کہ کسی کو اجرت پر زیارت کے لیئے بھیجنا صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ کام غیر معین اور غیر مقدر ہے اور اگر مزدوری محض قبرالنبی کے پاس کھڑے ہونے کی قراردی جائے تو یہ بھی درست نہیں ہے۔ اس لیئے کہ مجرد کھڑے رہنے میں قائم مقامی درست نہ ہوگی۔اور اگر اجرت اس بات کی قرار دی جائے کہ وہ قبرالنبی پر  پہنچ کر دعا کرے گاتو یہ درست ہے اس لیئے کہ دعا میں قائم مقام درست ہے اور اس دعا ء کی مقدار کی جہالت اس اجارہ کو باطل نہ کرے گی ۔ ہاں ایک تیسری صورت بھی ہے جس کو ماوردی نے بیان نہیں کیا اور وہ سلام پہنچانا ہے تو اس اجارہ اور مزدوری کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔ جیسا کہ عمر بن عبدالعزیز کیا کرتے تھےاور بظاہر مالکیوں کی یہی مراد ہے۔ ورنہ مزدور کے جاکر کھڑے ہوجانے سے بھیجنے والے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور ہم عنقریب ابن المواز کے حوالہ سے امام مالک کی تصریح کا ذکر کریں گے کہ اس اجیر کو چاہیئے کہ وہ حضور کی قبر کے پاس کھڑا ہو اور دعا کرے جس طرح بیت اللہ کے پاس وداع کے وقت دعا کرتے ہیں۔ ابن ابی زید نے (کتاب النوادر) میں ابن حبیب کے کلام سے اور امام مالک کے مجموعہ سے اور ابن القرظی کے کلام سے زیارۃ القبور کی بحث ذکر کنے کے بعد کہا اور شہدائے احد کی قبور کے پاس جائے اور اسی طرح سلام پڑھے جس طرح حضور کی قبر اور ان کے دونوں ساتھیوں کی قبر پر سلام پڑھا تھا۔ ابوالولید ابن رشد المالکی نے (شرح العتبیہ) میں سوال کے جواب میں اس شخص کے سلام کے بارے میں کہا جو آنحضور کی قبر کے پاس سے گذرے ۔ ہاں اس پر ضروری ہے کہ وہ سلام پڑھے جب وہان سے گذرے لیکن جب نہ گذر رہا ہو تو پھر ضروری نہیں ہے لیکن اس کی کثرت مناسب نہیں ہے اس لیئے کہ حضور نے فرمایا تھا۔ اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنا دینا جس کی عبادت کی جائے۔ اور فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا ان لوگوں پر سخت غضب ہے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد بنالیا ہے۔ جب وہاں سے نہ گذر رہا ہوتوسلام نہ پڑھنے کی گنجائش ہے۔ ان سے یہ دریافت کی گیا کہ اگر مسافر ہرروز قبرالنبی پر حاضری دے؟ انہوں نے فرمایا۔ یہ مناسب نہیں ہےہاں واپسی کے روز جاکر سلام پڑھ لے۔ محمد ابن رشد نے کہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی بار گذرے گا اس کو سلام پڑھنا ہوگا۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ضرور گزرے ہاں جب مدینہ سے لوٹے تو ضرور وہاں جائے۔ یہ مکروہ ہے کہ کثرت سے وہاں سے گذرے اور کثرت سے سلام پڑھے۔ اس  لیئے کہ حضور نے خود فرما دیا ہے۔ میر قبر کو معبود بُت نہ بناؤ اور خدا کا ان پر سخت غضب ہے جو اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا دیتے ہیں۔ یعنی مسجد کی طرح روزمرہ ان پر حاضری ضروری سمجھتے ہیں۔ دیکھئے پردیسی پر رخصت کے وقت حاضری کا حکم دیتے ہیں تو سلام کی بھی لامحالہ اجازت ہوگی۔ کثرت سے آنے جانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ اور زیارت کا اصلاً مستحب ہونا متفق علیہ ہے۔

Shifa al Siqam Fi Ziyarati Khairul Anaam
Imam Taj-ud-deen al-Subuki Refuting Ibn Taymmiya p47/51

Scans:

No comments:

Post a Comment