Wednesday, 1 October 2014

Article 20:Tarki RafilYadyin & 20 Raka' Tarawih Prayers is Sunnah from Salaf and Khalf

ترک رفع الیدین اور بیس رکعت تراویح سلف اور خلف سے ثابت
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ الصلوٰۃ والسلام علیک یا اشرف الانبیاء والمرسلین

پیارے مدنی بھائیو!
نمازِ تراویح پر یہاں بہت سے آرٹیکل پہلے ہی پیش کیئے جاچکے ہیں جو کہ ثبوت ہے کہ بیس رکعت تراویح جو کہ دورِ عمر رضی اللہ عنہ میں شروع ہوئی تھی اور جس پر تمام تر اُمتِ مرحومہ کا اجماع ہوچکا ہے۔ افسوس کے ساتھ آج کے دور میں کچھ نام نہاد سلف کے پیروکار مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیئے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ سے مسجد بنائے ہوئے ہیں۔ اور عوام میں 8 رکعت کا شوشہ چھوڑتے ہیں تو کبھی اُن کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیئے فقہ حنفی ، مالکی، شافعی اور حنبلی پر اعتراضات کرتے ہیں۔ یہاں ہم اس تفصیل میں جائے بنا ، ڈائریکٹ قرآن، اور صحیح احادیث کے عکس اور ریفرینسس کو پیش کررہے ہیں۔ تفصیلی مباحث کے لیئے اسی بلاگ کے رمضان کیٹیگری کو ملاحظہ کیجیئے۔

نمازِ تراویح کی فضیلت پر تھوڑی روشنی:

صحیح بخاری شریف، مسلم، ابوداؤد ، نسائی ، جامع ترمذی، ابن ماجہ شریف وغیرہ میں نمازِ تراویح کی فضیلت سے متعلق حدیث پاک ہے:

عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ۔

ترجمہ؛ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص رمضان کی راتوں میں بحالتِ ایمان و اخلاص قیام کرے اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔

ہم یہاں پر تفصیلی بحث کی بجائے کوشش کریں گے کہ زیادہ سے زیادہ حوالہ جات دیئے جا سکیں۔ آجکل کے دور میں ایک فرقہ لوگوں میں بجائے شعور کی بیداری اور علم کی آگاہی کے یہ بتاتا پھرتا ہے کہ نمازی کی نمازِ تراویح ہوئی ہی نہیں اگر اُس نے بیس رکعت کی۔ یہ کس قدر ظلم کی بات ہے کہ چودہ سو سال کی امت مرحومہ کے عمل جو کہ صحابہ کا عمل ہے اُس کی مخالفت کی جائے اور جبکہ علماء میں بحث بیس رکعت کی وجہ سے امت کو شرک یا بدعت قرار دینے پر نہیں بلکہ اس پر ہوئی ہے کہ بیس یا آٹھ وغیرہ کے قول میں کس پر عمل زیادہ ہے تاکہ اس کی ہی پیروی کی جائے۔ اب ہم تو مقلد ہیں ہمارے لیئے صحابہ کا قول اور عمل حدیث کے بعد حجت ہے۔ اور جب اس پر اجماع ہوچکا تو جو اجماعِ امت کا منکر ہوگا وہ اپنا فیصلہ خود کرے۔وہابی سنی حنفی مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی خاطر ورغلاتے ہیں کہ احناف کے پاس اس کے قرآن و حدیث سے کوئی مدلل دلائل نہیں ہیں ا ن کے پاس صرف فقہ حنفی ہے،لہٰذا اس بھونڈے اعتراض سے ہی شروعات کرتے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ عہد نبوت میں وحی الٰہی سے دوسرے احکام کی طرح نماز کے احکامات کی تکمیل بھی تدریجاََ ہوئی۔ اسی کی طرف ابوداؤد ج1/ص 47 باب کیف الاذان میں اشارہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: احیلت الصلوٰۃ ثلاثۃ احوال۔ نماز میں تین مرتبہ تبدیلی ہوئی۔ اگر علم الحدیث کے ذخیرے پر نظر ڈالیں تو مسئلہ رفع یدین میں رسول اللہﷺ کے کئی عمل مبارک سامنے آتے ہیں۔

ہر ہر حرکت پر رفع یدین؛
یعنی نماز شروع کرتے رکوع کو جاتےرکوع سے اٹھتے وقت سجدے کو جاتے سجدہ سے اٹھتے دوسرے سجدہ میں جاتے سجدہ سے سرمبارک اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا۔

حوالہ  جات؛
ابو داؤد شریف جلد 1 صفحہ 801 ، مسند احمد جلد 3 / ص 183 ، ابن ماجہ ص 62،دارقطنی  جلد اول / ص 982، مغنی ابن قدامہ جلد ا/ص 212، تلخیص الحبیر جلد 1/ص 245۔

دو سجدوں کے درمیان رفع یدین:
حوالہ جات؛ نسائی شریف جلد ا/ص 321، فتح الباری شرح بخاری جلد 2/ص 581، ابوداؤد شریف جلد ا،ص 501، ابن ماجہ ص 62

ہر رکعت کی ابتداء میں رفع یدین:
دارقطنی جلد اول صفحہ 782، صحیح ابن خزیمہ جلداول/ص 123۔ابوداؤد جلد 1/ص 901،طحاوی شریف جلد1/ص 901، ابن ماجہ ص 62

رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین؛
ابن ماجہ ص 16، دارقطنی جلد 1/982، نسائی 1/ص 201،ابوداؤد جلد ا/ص 401، بخاری شریف جلد 1، ص 201۔

صرف اور صرف ابتداء نماز میں رفع یدین:
ترمذی شریف جلد 1/ص 85،ابوداؤد شریف جلد 1/901،نسائی 1/711، طحاوی  1/011،دارقطنی  1/392،جامع المسانید لخوارزمی جلد 1 ص 253، نصب الرایہ جلد 1/ص 604،مؤطا امام محمد ص 88، صحیح ابن حبان جلد 3/ص 871، مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول /ص 762،مصنف عبدالرزاق جلد 2، ص 17،مسند امام الاعظم ص 05۔

تفصیلی آگے بیان کی جائے گی!۔

اہم بات: کہ پہلے تین مقامات(ہرحرکت کی رفع یدین، سجدوں کے درمیان رفع یدین،ہررکعت کی ابتداء میں رفع یدین) کی رفع یدین پر نہ غیرمقلدوں کاعمل ہے اور نہ ہی ہم اہلسنت وجماعت احناف کا،حالانکہ ان مقامات کی رفع یدین سے منع غیر مقلدین کے اصول کے مطابق کسی صحیح صریح غیر معارض فرمان نبوی ﷺ سے ثابت نہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان پر عمل کیوں نہیں؟ تو اس کے جواب میں احناف تو کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ رفع یدین کثرت سے بتدریج قلت کی طرف آرہا ہے اس لیئے پہلے ہر حرکت پر رفع یدین تھا جب اس سے کم رفع یدین کا عمل نبی اکرمﷺ سے ثابت ہوگیا تو سابقہ عمل متروک ہوگیا ، پھر سجدوں کی رفع یدین سے کم والا عمل نبی اکرم ﷺ سے مل گیا تو سابقہ عمل متروک ہوگیا پھر دوسری اور چوتھی رکعت کی ابتداء سے کم رفع یدین کا عمل ِ نبوت ﷺ سامنے آگیا تو یہ عمل بھی متروک ہوگیا اب غیر مقلدین اور احناف کے درمیان اختلاف صرف اس بات پر رہا کہ آیا رکوع کو جاتے رکوع سے سراٹھاتے وقت اور تیسری رکعت کی ابتداء میں رفع یدین اللہ کے نبی کا دائمی اور آخری عمل ہےیا نہ تو سابقہ اصول کے پیش نظر انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جب ہمیں صرف اور صرف ابتداء کی رفع یدین کی روایات صحاح ستہ سے مل گئیں تو ضد اور تعصب کو دل سے نکال کر فقط ابتداء نماز میں ہی رفع یدین کرنی چاہیئے اور بس۔

ورنہ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ غیرمقلدین دن رات حدیث حدیث کہنے کے باوجود ان احادیث پر بھی عمل نہیں کرتے جن میں ہر حرکت پر رفع یدین کا ذکر ہے ، ان احادیث پر بھی عمل نہیں کرتے جن میں دوسجدوں کے درمیان رفع یدین ثابت ہے ، ان احادیث پر بھی عمل نہیں کرتے جن میں دوسری اور چوتھی رکعت کی ابتداء میں رفع یدین کا ثبوت ہے۔

چونکہ نماز میں رکوع کو جاتے رکوع سے سراٹھاتے اور تیسری رکعت کی ابتداء میں رفع یدین کے متعلق غیرمقلدین کا دعویٰ ہے کہ یہی طریقہ سنت نبی ﷺ ہے اس کے بغیر نماز سنت کے مطابق نہیں ہوتی یہی اللہ کے نبی ﷺ کا آخری اور دائمی عمل ہے۔ لہٰذا بوجہ مدعی ہونے کے ان (غیرمقلدین) پر شریعت یہ ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ اپنے دعویٰ کو اپنے اصول کے مطابق(صحیح صریح غیر معارض صحاح ستہ کی حدیث سے) ثابت کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاک نبی ﷺ نے ضابطہ بیان فرمایا (البینۃ علی المدعی) گواہ مدعی کے ذمہ ہیں۔ (بحوالہ ترمذی؛جلد 1 ص 491)۔

اصولی طور پر احناف کے ذمہ دلائل پیش کرنا نہیں مگر پھر بھی اتمام حجت کے لیئے چند حوالہ جات پیش ہیں:

نوٹ: اختصار کے پیش نظر بعض قریب المفہوم روایات کو ایک عنوان کے تحت درج کیا گیا ہے۔

مستدلات حنفیہ:
1۔ پہلی دلیل قرآن مجید سے ملاحظہ ہو۔

قدا فلح المؤمنون الذین ھم فی صلوٰتھم خاشعون۔
بلاشبہ وہ مؤمن کامیاب ہوئے جوا پنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں۔ (المؤمنون؛پارہ 81)
اس آیت کی تفسیر میں ترجمان القرآن رسول اللہ ﷺ کے چچازاد حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
مخبتون متواضعون لا یلتفتون یمیناََ ولا شمالاََ ولایرفعون ایدیھم فی الصلوٰۃ۔
ترجمہ: عاجزی و تواضع کرنے والے نہ دائیں بائیں التفات کرتے ہیں اور نہ نماز میں رفع یدین کرتے ہیں۔ تفسیر ابن عباس ۔ ص 953

طرزِ استدلال:

آیت کریمہ کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں وہ مؤمن کامیاب ہیں جو نماز میں رفع یدین نہیں کرتے یعنی نماز کے اندر والی رفع یدین (رکوع کو جاتے رکوع سے سراٹھاتے تیسری رکعت کی ابتداء میں) سے روکا جارہاہے۔

دلیل 2؛ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کی مرفوع حدیث صحاح ستہ کی مشہور کتاب جامع ترمذی جلد اول ص 85 پر ہے۔

قال الااصلی بکم صلوٰۃ رسول اللہﷺ فصلی ولم یرفع یدیہ الا فی اول مرۃ

ترجمہ؛ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیں رسول اللہﷺ کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں پھر آپ نے نماز پڑھی اور صرف پہلی مرتبہ (تکبیر تحریمہ کے وقت) رفع یدین فرمائی۔

امام ترمذی اس کے متعلق فرماتے ہیں؛ حدیث حسن جلد 1/ص 85، یہ حدیث حسن ہے یعنی ضعیف نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں ؛ ھٰذا الحدیث حسنہ الترمذی وصححہ ابن حزم ؛ اس حدیث کو امام ترمذیؒ نے حسن اور علامہ ابن حزمؒ نے صحیح فرمایا(التلخیص الحبیر جلد 1،ص 645)

اس روایت کے تمام روای صحیح مسلم کے روای ہیں۔ (الجواہر النقی جلد 2 / ص 87)
یہ حدیث ان جگہوں پر بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ نسائی شریف جلد اول / س 021۔ مصنف ابن ابی شیبہ جلد 1/ص 762۔ مغنی لابن قدامہ جلد 2/ص502۔مسند ابویعلیٰ جلد 4/ص 721۔

3۔ عن عبداللہ قال الا اخبرکم بصلوٰۃ رسول اللہﷺ قال فقام فرفع یدیہ اول مرۃ ثم لم یعد ۔ نسائی شریف جلد 1 ص 711/حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا (اپنے حلقہ تلامذہ کو) کیا میں تمہیں رسول اکرمﷺ کی نماز کی خبر نہ دوں؟، پھر آپ کھڑے ہوئے صرف پہلی مرتبہ رفع یدین فرمائی اور پھر رفع یدین نہ فرمائی۔

مرکز علم کوفہ: قارئین پہلے شہر کوفہ کی اہمیت سمجھ لیں تاکہ بات سمجھنا آسان ہوجائے۔
71ھ میں سیدنا عمر(رض) کے حکم سے یہ شہر آباد کیا گیا اور اس کے اردگرد فصحاء و بلغاء عرب مقیم ہوئے جناب امیر المومنین سیدنا عمر الخطاب رضی اللہ عنہ نے امور مملکت چلانے کے لیئے حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص (رض) کا تقرر فرمایا اور قرآن و حدیث کی تعلیم کے لیئے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کو مقرر کیا گیا۔

1 ۔ امیر المؤمنین نے اہل کوفہ کی طرف لکھا ۔لقد اٰثر تکم بعبداللہ علی نفسی۔
ابن مسعود (رض) کی مجھے بھی ضرورت تھی مگر تمہاری ضرورت علمی کے پیش نظر ان کو بھیج رہا ہوں۔

2۔ مؤرخ عجلی فرماتے ہیں ۔ انہ توطن الکوفۃ وحدھما من الصحابۃنحو الف و خمس ماۃ صحابی بینھم سبعین بدریا۔

کوفہ میں پندرہ سو صحابہ اقامت پذیر ہوئے جن میں سے ستر بدری صحابہ تھے۔

3۔ ابن سیرین فرماتے ہیں ۔ اتیت الکوفۃ فرایت فیھا اربعۃ الاف یطلبون الحدیث واربع ماۃ قد فقھوا۔
جب میں کوفہ میں پہنچا تو شہر میں چار ہزار محدث اور چارسو فقہا کو موجود پایا۔

4۔ امام بخاریؒ فرماتے ہیں ۔ ولا احصی مادخلت الکوفۃ فی طلب الحدیث

مجھے طلب حدیث کے سلسلہ میں اتنا زیادہ کوفہ جانا ہوا کہ میں شمار نہیں کرسکتا۔

5۔ شیر خدا سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) جب کوفہ تشریف لائے تو کثر ت فقہاء کو دیکھ کر انتہائی خوش ہوئے اور فرمایا ۔ رحم اللہ ابن ام عبد قد ملاء ھذہ القریۃ علما۔ یعنی اللہ تعالیٰ ابن مسعود (رض) پر رحم فرمائے انہوں نے اس بستی کو علم سے بھر دیا۔

6۔ حضرت علی (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ اصحاب ابن مسعود (رض) ۔ سرج ھذہ القریۃ۔ یعنی ۔ ابن مسعود (رض) کے شاگرد اس قریہ کے چراغ ہیں۔ (مقدمہ نصب الرایہ)۔

نیز ابن مسعود (رض) وہ صحابی ہیں جن سے خلفائے راشدین بھی روایت بیان کرتے ہیں ۔ (اکمال فی اسماء الرجال)۔

اب آپ خود سوچیئے کہ ایسے علم کے شہر میں ، اتنے جلیل القدر پندرہ سو اصحاب کی بستی میں، جہاں امام بخاری ؒ طلب حدیث کے لیئے اتنی بار گئے ہیں کہ ان کو شمار نہیں ہوتا، وہاں پر سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) نماز پڑھ کر دکھا رہے ہیں اور نماز میں رفع یدین نہیں فرماتے ،مگر ایک صحابی اور ایک تابعی بھی عدم رفع یدین کے سبب اعتراض نہیں کررہا بلکہ حضرت عبداللہ ابن مسعود(رض) اور سیدنا علی (رض) کے تمام تلامذہ (شاگرد) رفع یدین نہیں فرماتے۔ ملاحظہ کریں ۔ مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول / ص 762

اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ خیر القرون میں ابن مسعود (رض) نے جو اللہ کے نبی ﷺ کا طریقہ نماز ذکر کیا اس پر کسی ایک نے بھی اعتراض نہ کیا۔

4۔ عن عبداللہ بن مسعود (رض) ان رسول اللہ ﷺ کان لا یرفع یدیہ الا عند افتتاح الصلوٰۃ ثم لایعود۔
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نماز شروع کرتے وقت رفع یدین فرماتے تھے پھر کہیں ہاتھ نہ اٹھاتے۔ ۔مسند امام اعظم جلد 1/ ص 05، جامع المسانید للخوارزمی جلد اول / ص 253۔ (نوٹ: اس روایت کا ہرراوی اپنے وقت کا بڑا فقیہ ہے)۔

5۔ عن عبداللہ بن مسعود (رض) قال صلیت مع النبی (ﷺ)و مع ابی بکر (رضی اللہ عنہ) ومع عمر (رضی اللہ عنہ ) فلم یرفعوا ایدیھم الا عند التکبیرۃ الاولیٰ  فی افتتاح الصلوٰۃ۔
ابن مسعود (رض ) فرماتے ہیں ،میں اللہ کے نبی (ﷺ) وسیدنا ابوبکر (رضی اللہ عنہ) وعمر(رضی اللہ عنہ) کے ساتھ نمازیں پڑھیں ۔ یہ حضرات ابتداء نماز کے بعد کسی جگہ رفع یدین نہ فرماتے ۔

دارقطنی جلد اول/ص 592،مسند ابویعلی جلد 4/ص 721

6۔ عن براء بن عازب (رضی اللہ عنہ) قال رایت رسو ل اللہ (ﷺ) رفع یدیہ حین افتتح الصلوٰۃ ثم لم یرفعھما حتیٰ انصرف۔

حضرت براء بن عازب (رض ) فرماتے ہیں ۔ میں نے نبی اکرم (ﷺ) کو دیکھا آپ (ﷺ) نماز شروع کرتے وقت رفع یدین فرماتے پھر نماز ختم ہونے تک رفع یدین نہ فرماتے۔ (ابوداؤد؛ جلد 1/ص 901/011)

اعتراض: امام ابوداؤد نے فرمایا ہے ۔ ھذا الحدیث لم یصح ۔ یہ حدیث صحیح نہیں ۔ اس کی وجہ محمد بن ابی لیلیٰ پر اعتراض ہے۔

جواب: اگرچہ بعض نےا س پر کلام کیا ہے مگر:
حضرت زائدہ ؒ فرماتے ہیں: کان افقہ اھل الدنیا ۔ یعنی محمد بن ابی لیلی دنیا کا نامور فقیہ تھا۔

ماہر فن علامہ عجلی ؒ فرماتے ہیں؛ کان فقیھاََ صاحب السنۃ صدوقاََ جائز الحدیث وکان عالماََ بالقرآن وکان من احسب الناس۔ یعنی۔ محمد بن ابی لیلیٰ باعمل فقیہ تھے، انتہائی سچے تھے؛ جائز الحدیث تھے؛قرآن پاک کے عالم اور شریف النسب تھے۔
یعقوب ابن سفیان کہتے ہیں:
ثقہ عدل۔ محمد ابن ابی لیلی ثقہ بھی ہیں اور عدل بھی ہیں۔ (تہذیب التہذیب ج 9/ ص 162)

یہی بات مشہورغیر مقلد عالم نے عون المعبود جلد 2/ص 362 پر نقل کی ہے۔

قال احمد بن یونس ؛ سالت الزائدۃ عن ابن ابی لیلی فقال ذاک افقہ الناس

احمد بن یونس کہتے ہیں؛ میں نے حضرت زائدہ سے ابن ابی لیلی کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا وہ نامور فقیہ ہیں۔

قال بشر بن الولید سمعت ابا یوسف: آپ نے فرمایا عہدہ قضاء پر ابن ابی لیلی سے بڑھ کر کتاب اللہ کا قاری ؛ اللہ کے دین کا فقیہ ؛حق گو؛ اور پرہیزگار نہیں آیا۔ (میزان الاعتدال؛ جلد 6/ص 222)

جس وقت ابن ابی لیلی کی اتنی توثیق ہوگئی تو روایت درجہ حسن کو جاپہنچے گی بایں وجہ اس پر کوئی اعتراض نہ رہا۔

ہماری اس بات کی تائید ملاحظہ ہو؛
میزان الاعتدال؛ جلد 6/ص 322 پر علامہ ذہبی ؒ متوفی 847ھ فرماتے ہیں ۔ حسنہ الترمذی ، یعنی، امام ترمذی نے اسے درجہ حسن مانا ہے۔

خلاصۃ الجواب؛ امام ابوداؤد یہ فرمایا چاہتے ہیں کہ یہ حدیث درجہ صحیح نہیں بلکہ درجہ حسن کو پہنچی ہوئی ہے۔

7۔ عن براء بن عازب ان رسول اللہ (ﷺ) کان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلوٰۃ ثم لا یرفعھما حتی ینصرف۔
صحابی رسول (ﷺ) براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں ،رسول اکرم(ﷺ) صرف پہلی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھاتے پھر نماز سے فارغ ہونے تک کسی جگہ ہاتھ نہ اٹھاتے ۔

حوالہ جات؛ المدونۃ الکبریٰ  جلد 1/ص 291، مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول /ص 762۔مسند ابی یعلی جلد 2/ص 09۔

8۔ عن ابی ھریرۃ (رض) قال کان رسول اللہ (ﷺ) اذا دخل فی الصلوٰۃ رفع یدیہ مدا۔
سیدنا ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی جب نماز میں داخل ہوتے اچھی طرح رفع یدین فرماتے ۔

ابوداؤدشریف جلد 1/ص 011، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع۔ ترمذی جلد اول / ص 55۔نسائی شریف جلد 1/ص 201۔ مسند ابوہریرہ (رض) جلد اول /ص 872۔اس روایت کو امام ترمذی نے (اصح) فرمایا ہے۔ جلد 1/ص 55۔

اور غیر مقلد شوکانی کہتے ہیں:

الحدیث لامطعن فی اسنادہ۔ اس کے اسنا دمیں کوئی اعتراض نہیں ۔ (نیل الاوطارجلد اول/ص 553)
اس حدیث کے طرز استدلال سے بھی پہلی بار کی رفع یدین ہی ثابت ہورہی ہے۔

9۔ ان ابا ھریرۃ (رض) کان یصلی لھم فیکبر کلما خفض ورفع فلما انصرف قال واللہ انی لاشبھکم صلوٰۃ برسول اللہ (ﷺ) ۔

ابن عبدالرحمٰن راوی حدیث فرماتے ہیں؛ جناب ابوہریرہ (رض) انکو نمازیں پڑھاتے تو ہرحرکت پر صرف تکبیر (اللہ اکبر) کہتے ۔ پھر جب حضرت ابو ہریرہ (رض) نماز مکمل فرما چکے تو قسم اٹھا کر فرمایا ۔ یہ طریقہ نماز رسول اللہ (ﷺ) کی نماز سے بہت زیادہ مشابہ ہے۔

صحیح مسلم شریف؛ جلد اول ۔ صفحہ 921۔ صحیح بخاری شریف جلد اول / ص 011۔ صحیح ابن خزیمہ  جلد اول / ص 713۔ابوداؤد شریف جلد 1/ص 121۔مؤطا امام مالک ص 16۔مؤطاء امام محمد 88۔ مسند ابو یعلی جلد 4 /ص  514۔

9۔ اہل مدینہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:
جب مروان نے حضرت ابو ہریرہ (رض) کو مدینہ طیبہ میں حاکم مقرر فرمایا تو سیدنا ابو ہریرہ (رض) نے نماز پڑھائی مگر رکوع کو جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے ، تیسری رکعت کی ابتداء میں رفع یدین نہیں فرمائی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو !

اقبل علی اھل المسجد فقال والذی نفسی بیدہ انی لاشبھکم صلوٰۃ برسول اللہ (ﷺ)۔
نمازیوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا اللہ کی قسم! میرا طریقہ نماز رسول اللہ (ﷺ) سے بہت زیادہ مشابہہ ہے۔(نسائی شریف؛ جلد اول/ص 611/711)۔

مدنی بھائیو! سیدنا ابو ہریرہ (رض) نے نماز میں رفع یدین نہیں فرمائی اور اسے رسول اللہ (ﷺ) کی نماز قرار دیا مگر مدینہ شریف کے نمازیوں میں سے کسی ایک نے بھی اسے رسول اللہ (ﷺ) کی مخالف نماز نہ سمجھا، نہ کہا۔

اگر نماز میں رفع یدین کرنا مسنون ہوتا تو کم از کم ایک صحابی ، ایک تابعی تو لازماََ تردید فرماتا۔ کیا ا ن میں سنت پر عمل کا جذبہ اتنا بھی نہ تھا جتنا آج غیر مقلدین میں ہے؟

01۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) تین کام کرتے تھے جسے لوگ چھوڑ چکے ہیں۔ (1) اذا اقام الی الصلوٰۃ رفع یدیہ مداََ۔ جب نماز کے لیئے اٹھتے تو اچھی طرح رفع یدین فرماتے ۔ (2) پھر قراۃ سے قبل کچھ دیر سکوت فرماتے اور اللہ تعالیٰ سے فضل طلب کرتے ۔ (3) ویکبر کلما خفض و رفع پھر ہر حرکت پر تکبر (تکبیر) کہتے۔

طرز استدلال:
یہاں بھی سیدی ابوہریرہ (رض) نے صرف پہلی رفع یدین کا ذکر کیا ہے ۔ مسند ابوہریرہ ص 872۔ اس سے ملتی جلتی روایت نسائی شریف جلد اول/ص 201 پر بھی موجود ہے۔

11۔ عن ابن مسعود (رض) صلیت خلف النبی (ﷺ) و ابی بکر وعمر فلم یرفعوا یدیھم الا عند افتتاح الصلوٰۃ۔

حضرت ابن مسعود(رض) فرماتے ہیں میں نے نبی اکرم(ﷺ) ،ابوبکر وعمر (رضوان اللہ علیہ) کے پیچھے نمازیں پڑھیں مگر یہ حضرات شروع نماز کے علاوہ رفع یدین نہیں فرماتے تھے۔ بیہقی شریف جلد 2/ص 08

اس روایت پر محمد بن جابر کی وجہ سے اعتراض کیا گیا۔ مگر علامہ ماردینی متوفی 547ھ نے آج سے چھ سو تہتر سال قبل محمد بن جابر کی توثیق فرمادی ہے۔ ملاحظہ ہو۔ (الجواہر النقی علی البیہقی ، جلد 2/ص 87)

21۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں:(ترجمہ)

نبی اکرم(ﷺ) ہر حرکت پر تکبیر کہتے تھے، دائیں بائیں (السلام علیکم ورحمتہ اللہ ) کہتے تھے اور ابوبکر و عمر بھی اسی طرح کرتے تھے۔ مسند ابی یعلیٰ جلد 4/ص 391

31۔ حضرت اسود (رض) فرماتے ہیں : رایت عمر بن الخطاب یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود۔
میں نے حضرت عمر (رض) کو دیکھا انہوں نے صرف پہلی تکبیر پر ہی رفع یدین فرمائی پھر نہ فرمائی ۔ طحاوی شریف جلد اول / ص 111۔

اس روایت کے متعلق امام طحاوی ؒ نے فرمایا (وھو حدیث صحیح) یہ حدیث صحیح ہے گویا اس کی صحت کا اقرار آج سے گیارہ سو چھ سال پہلے ہوچکا ہے۔

41۔ عاصم بن کلیب کے والد حضرت کلیب جو کہ حضرت علی (رض) کے تلامذہ میں سے تھے فرماتے ہیں:
ان علی بن ابی طالب کان یرفع یدیہ فی التکبیرۃ الاولی التی یفتتح بھا الصلوٰۃ لا یرفعھما فی شی ء من الصلوٰۃ ۔ (ترجمہ) ۔ سیدنا علی (رض) صرف پہلی تکبیر پر رفع یدین فرماتے تھے بعدہ کسی مقام پر نہ فرماتے۔
موطاء امام محمد ۔ ص 88/09۔ مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول /ص 762۔ بیہقی شریف جلد دوئم صفحہ 08۔

اہم بات: بعض لوگ اس کی سند میں موجود عاصم بن کلیب پر اعتراض کرتے ہیں تو انہیں ترمذی شریف جلد اول صفحہ 842 پر دیکھ لینا چاہیئے سند میں عاصم بن کلیب ہے مگر امام ترمذی  اسے (ھذا حدیث حسن صحیح  ) فرما رہے ہیں۔اور اگر ابوبکر النہشلی کی وجہ سے اعتراض کا موڈ ہو تو الجواہر النقی علی البیہقی جلد 2 صفحہ 87 پر ملاحظہ فرمالیں۔ کیونکہ آج سے چھ سو تہتر سال پہلے اس کی توثیق ہوچکی ہے۔

51۔ جب کوفہ میں سیدنا علی (رض) تشریف فرماچکے تو !

کان اصحاب عبداللہ واصحاب علی لا یرفعون ایدیھم الا فی افتتاح الصلوٰۃ ۔

حضرت ابن مسعود (رض) اور سیدنا شیرخدا کے تلامذہ (ہزاروں) پہلی تکبیر کے بعد رفع یدین نہیں فرماتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول 762)۔

علامہ ماردینی ؒ فرماتے ہیں یہ بات سند صحیح وجلیل سے ثابت ہے ۔ (الجواہر النقی  علی البیہقی جلد 2 صفحہ 97)

61۔ وکان اصحاب ابن مسعود (رض) یرفعون فی الاولی ثم لا یعودون ۔ ترجمہ۔ حضرت ابن مسعود (رض) کے شاگرد صرف پہلی مرتبہ رفع یدین فرماتے تھے۔ (المدونۃ الکبریٰ  جلد اول / ص 291)

اب غیرمقلد یہ بتائیں ؛ کہ آیا انکی (عبداللہ بن مسعود ،وعلی رضی اللہ عنہما) بشمول انکے ہزاروں شاگردوں (یعنی صحابہ و سلف تابعین سب) کی نماز سنت کے مطابق تھی یا نہیں تھی؟

71۔ عن ابن عباس(رض) عن النبی (ﷺ) قال لاترفع الایدی الا فی سبع مواطن حین یفتتح الصلوٰۃ وحین یدخل المسجد الحرام فینظر الی البیت وحین یقوم علی الصفاء و حین یقوم علی المروۃوحین یقف مع الناس عشیۃ عرفۃ و بجمع والمقامین حین یرمی الجمرۃ۔

جامع المسانید جلد 23/صفحہ 5019۔ و۔ مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول / ص 762۔
حضرت ابن عباس (رض) سیدی (ﷺ) سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا سات مقامات پر ہی رفع یدین کرنی چاہیے۔ (ا) نماز شروع کرتے وقت۔ (2) جب بیت اللہ شریف پر نظر پڑے۔ (3) صفاء پر کھڑے ہوکر۔ (4) مروہ پر کھڑے ہو کر۔ (5) عرفات میں ۔ (6) مزدلفہ میں ۔ (7) جمرتین پر۔

اعتراض (1)۔ اس میں تو وتر اور عیدین کی تکبیرات کے وقت رفع یدین کا ذکر بھی نہیں حالانکہ احناف وتر اور عیدین میں رفع یدین کرتے ہیں۔

جواب: اس روایت میں فرائض کی رفع یدین کا ذکر ہے، یعنی نماز اور حج جبکہ وتر اور عیدین فرض نہیں۔

اعتراض (2)۔ بعض لوگ محمد بن ابی لیلی پر معترض ہیں۔
جواب۔ اس کی بابت اوپر پہلے سے ہی بیان کیا جاچکا ہے۔

81۔ قال مالک لا اعرف رفع الیدین فی شیء من تکبیر الصلوٰۃ لافی خفض ولا فی رفع الا فی افتتاح الصلوٰۃ ۔
حضرت امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ میں نماز کی شروع والی رفع یدین کے علاوہ کسی رفع یدین کو نہیں جانتا۔ (المدونۃ الکبریٰ جلد 1/ص 091)

اہم بات: حضرت امام مالکؒ مدینہ طیبہ کے امام ہیں اور 971ھ میں وفات پائی ہے ۔ مدنیہ شریف مرکز اہل اسلام ہے مگر امام مالک ؒ رکوع کو جاتے ، سراٹھاتے ، اور تیسری رکعت، کی رفع یدین کو جانتے تک نہیں اور حضرت کا یہ ارشاد 971ہجری سے قبل کا ہے۔ گویا دوسری صدی میں ابتداء نماز کے علاوہ رفع یدین متروک ہوچکا تھا (یعنی قرون اولیٰ کا عمل وہی ہے جو ہم حنفیوں کا ہے )۔

91۔ جلیل القدر محدث ابوبکر بن عیاش ؒ فرماتے ہیں؛
مارایت فقیھا قط یفعلہ یرفع یدیہ فی غیر التکبیرۃ الاولیٰ ۔ میں نے کسی فقیہ کو ابتدائی رفع یدین کے علاوہ رفع یدین کرتے نہیں دیکھا۔ (طحاوی ؛جلد اول /ص 211)

02۔ امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں:
وبہ یقول غیر واحد من اھل العلم من اصحاب النبی (ﷺ) والتابعین وھو قول سفیان و اھل الکوفۃ۔ یعنی ۔ یہی مذہب (صرف پہلی تکبیر پر رفع یدین) ہے۔ اصحاب النبی (ﷺ) میں سے کئی اہل علم کا اور یہی مذہب ہے تابعین کا ، حضرت سفیان ؒ کا اور اہل کوفہ کا۔ (ترمذی جلد 1/ ص 85)۔

12۔ عن ابن عباس (رض) عن النبی (ﷺ) قال ترفع الایدی فی سبع مواطن فی افتتاح الصلوٰۃ (الخ)۔
ابن عباس (رض) نبی اکرم(ﷺ) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا: سات مقامات پر رفع یدین کی جائے ۔(جیسے پہلے گزر چکا)۔حوالہ (طحاوی ص 133،نصب الرایہ جلد 1/ص 193)۔

22۔ بالکل یہی روایت حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے ہے۔ (طحاوی شریف جلد اول / ص 133۔نصب الرایہ جلد اول /ص 093پر موجود ہے۔

نوٹ؛ یہ روایت موقوف ومرفوع دونوں طریقوں سے مروی ہے۔

32۔ عبدالعزیز بن حکیم لکھتے ہیں:
رایت ابن عمر یرفع یدیہ حذاء اذنیہ فی اول التکبیرۃ افتتاح الصلوٰۃ ولم یرفھما فیما سوی ذالک۔
میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کو دیکھا وہ ابتداء نماز کے علاوہ رفع یدین نہ فرماتے۔ موطا امام محمد ص 09

42۔ حضرت مجاہد تابعی فرماتے ہیں:
صلیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیہ الا فی التکبیرۃ الاولیٰ من الصلوٰۃ۔ یعنی۔ میں نے ابن عمر (رض) کے پیچھے نماز پڑھی آپ نے صرف پہلی تکبیر میں رفع الیدین فرمائی۔ (حوالہ ۔ مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول / ص 862۔طحاوی ص 011)

نوٹ: حضرت مجاہدؒ دس سال حضرت ابن عمر (رض) کی خدمت میں رہے۔ (فیض الباری جلد اول / 271)

52۔ جناب سالم بن عبداللہ اپنے والد عبداللہ ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت (ﷺ) کو دیکھا:
اذا افتتح الصلوٰۃ رفع یدیہ حذ ومنکبیہ واذا اراد ان یرکع وبعد ما یرفع راسہ من الرکوع فلا یرفع ولا بین السجدتین ۔
جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین فرماتے ، پھر رکوع کو جاتے، رکوع سے سراٹھاتے  اور دو سجدوں کے درمیان رفع یدین نہ فرماتے۔ (مسند الحمیدی مجلد 2۔ص ۔ 772)

62۔ ترجمہ:حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے تمہیں دیکھا کہ تم نماز میں رفع یدین کررہے ہو خدا کی قسم یہ (بدعت) ہے میں نے نبی اکرم(ﷺ) کو اس طرح کرتے نہیں دیکھا۔ (کامل ابن عدی جلد 2/ ص 061)

72۔ حضرت ابن عمر (رض) سے اسی مفہوم کی روایت میزا ن الاعتدال جلد 2 صفحہ 62 پر بھی موجود ہے۔

نوٹ اس مقام پر حضرت (رض) کا بدعت فرمانا بمعنی عدم مواظبت ہے یعنی نماز میں رفع یدین کی مواظبت (دائمی عمل) نبی اکرم(ﷺ) سے ثابت نہیں ۔

82۔ حضرت ابراہیم نخعی ؒ  فرماتے ہیں : اے مخاطب نماز میں پہلی تکبیر کے بعد رفع یدین نہ کر۔ (موطا امام محمد ص 88)

92۔ امام زین العابدین فرماتے ہیں؛
اللہ کے نبی (ﷺ) نماز میں (رکوع کو جاتے، اٹھتے ، سجدہ کو جاتے اور سرمبارک اٹھاتے) اللہ اکبر فرماتے تھے۔ یہانتک کہ آپ (ﷺ) کا وصال ہوگیا۔ موطاء امام مالک ص 16۔ یعنی یہاں بھی رفع یدین کا ذکر نہیں۔

03۔ صحاح ستہ کی شہرہ آفاق کتاب صحیح مسلم شریف میں ہے؛

حضرت جابر بن سمرہ(رض) فرماتے ہیں:

خرج علینا رسول اللہ (ﷺ) فقال مالی اراکم رافعی ایدیکم کانھا اذناب خیل شمس اسکنو افی الصلوٰۃ۔ یعنی۔ نبی اکرم(ﷺ) ہمارے پاس تشریف لائے (نماز پڑھنے کی حالت میں) تو فرمایا کیا بات ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح رفع یدین کرتے ہو،نماز میں ساکن رہو۔

حوالہ جات؛
نسائی شریف؛ جلد اول / ص / 331
ابوداؤد شریف؛ جلد اول / ص/ 341
مسلم شریف ؛ جلد اول / ص/ 181
طحاوی شریف ؛ جلد اول /ص/ 122
صحیح ابن حبان ؛جلد سوم/ص/871
مصنف عبدالرزاق؛مجلد 2/ص/282

آپ الفاظ سے اندازہ لگائیے کہ نبی اکرم(ﷺ) نے اس کو پسند نہیں فرمایا بلکہ شریر گھوڑوں سے تشبیہ دی۔بعض لوگ اس روایت کو سلام کے وقت کی رفع یدین سے روکنے کی دلیل بتاتے ہیں حالانکہ یہ سراسر مغالطہ ہےوہ دوسری روایت ہے جو اس کے نیچے مذکور ہے۔

چونکہ اہل سنت وجماعت احناف کا مسلک متعلق رفع یدین سن 051ہجری میں مدون ہوچکا تھا لہٰذا اگر کوئی اہل علم ہمارے پیش کردہ دلائل پر سنداََ اعتراض کرنا چاہے تو اسے 051ہجری سے قبل متوفی راوی پر بحث کرنا ہوگی بعد میں آنے والے پر جرح معتبر نہ ہوگی۔ کیونکہ ہمارا عقیدہ و مسلک آج نہیں بلکہ 051ہجری سے پہلے مدون ہوچکا تھا۔ چند اور اہم باتیں درج ذیل ہیں:

چار رکعت والی نماز میں اٹھائیس حرکات ہیں۔ یعنی ۔ نماز شروع کرتے، رکوع کو جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے ، پہلے سجدہ میں جاتے، پہلے سجدہ سے سراٹھاتے، دوسرے سجدہ میں جاتے، دوسرے سجدہ سے سراٹھاتے وقت۔ اور یہی عمل ہررکعت میں ہوتا ہے لہٰذا سات کو چار سے ضرب دینے سے حاصل ضرب اٹھائیس بنتا ہے۔

مگر غیر مقلد صرف دس مقامات پر رفع یدین کرتے ہیں اور اٹھارہ مقامات پر نہیں کرتے۔ نماز کی ابتداء ، رکوع کو جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے ، اور تیسری رکعت کی ابتداء میں رفع یدین کرنا۔ چار رکعتوں میں دس مقامات بنیں گے۔

غیر مقلدین کا مسنون طریقہ نماز:
1۔ نماز کی ابتداء ، رکوع کو جاتے، رکوع سے سراٹھاتے وقت اور تیسری رکعت کی ابتداء میں رفع یدین کرنا ۔ (صلوٰۃ الرسول ص 061)
2۔یہ اللہ کے نبی کا دائمی آخر عمر کا عمل ہے ۔ (صلوٰۃ الرسول ص 102)
3۔ نماز میں رفع یدین (اختلافی) سنت مؤکدہ ہے۔ (صلوٰۃ الرسول 502)
4۔ جو نماز اس طریقہ پر نہ پڑھی جائے وہ یقیناََ ناقص ہے۔ (صلوٰۃ الرسول ص 112)

نوٹ؛ صلوٰۃ الرسول مؤلفہ محمد صادق سیالکوٹی پر 6 جید غیر مقلد علماء کی تصدیقات ہیں اور چودہ مختلف اخبارات و جرائد کے توصیفی کلمات موجود ہیں۔ یعنی غیر مقلدین کے ہاں یہ عام اور معمولی کتاب نہیں۔ لہٰذا غیر مقلدین حضرات کو مندرجہ بالا ثبوتوں کی روشنی میں

1۔ نبی اکرم(ﷺ) کے صحیح ، صریح غیرمعارض ارشادات طیبہ سے اپنے عمل کے مطابق یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اللہ کے نبی (ﷺ) پہلی اور تیسری رکعت کی ابتداء اور رکوع کو جاتے اور سراٹھاتے وقت ہمیشہ رفع یدین کرتے رہے دوسری اور چوتھی رکعت کی ابتداء میں اور سجدوں کے درمیان کبھی رفع یدین نہیں فرمائی۔

2۔ نیز چونکہ ان کے نزدیک تقلید شرک اور اس کا انجام کفر ہے لہٰذا انہیں ایسی کسی کتاب کی دلیل پیش کرنی ہوگی جو کسی مقلد یا مجتہد کی تصیف نہ ہو۔

غیر مقلدین کے دلائل پر ایک نظر۔

عموماََ غیر مقلدین اپنے طریقہ نماز (چاررکعت والی نماز میں پہلی اور تیسری رکعت کی ابتداء میں اور رکوع کو جاتے رکوع سے سراٹھاتے ہمیشہ رفع یدین کرنا دوسری اور چوتھی رکعت کی ابتداء اور سجدوں کے درمیان کبھی بھی رفع یدین نہ کرنا) مسنون طریقہ نماز بتلاتے ہوئے بطور دلیل (1) حضرت ابن عمر(2) حضرت مالک بن الحویرث ، (3) حضرت وائل ابن حجر ، (4) حضرت ابوحمید الساعدی ، (5) حضرت انس بن مالک اور دیگر اصحاب ِ رسول کی مرویات کتب حدیث سے نقل کرتے ہیں۔

مگر اچھی طرح ذہن نشین فرمالیں:
وہ تمام روایات ان کی دلیل نہیں بنتی کیونکہ !

(1) یہ تمام کتب حدیث مقلدین کی تصنیف کی ہوئی ہیں اور ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ غیرمقلدین کے نزدیک تقلید شرک ہے لہٰذا مشرکین کی تصنیفات سے دلیل پکڑنا ہرگز ہرگز درست نہیں۔

(2) ان تمام مرویات میں کسی ایک مقام پر بھی اللہ کے نبی (ﷺ) سے یہ ثابت نہیں کہ جو اس اختلافی رفع یدین کو نہیں کرگا اس کی نماز سنت کے  مطابق نہ ہوگی۔

(3) ان تمام روایات میں کسی ایک مقام پر بھی بسند صحیح صراحتہََ رسول اللہ (ﷺ) سے آخر عمر تک ہمیشہ ہمیشہ اختلافی رفع یدین کرنا ثابت نہیں کیونکہ اختلاف دوام رفع یدین میں ہے محض ثبوت میں نہیں۔

(4) ان تمام روایات میں کسی ایک حدیث میں بھی غیر مقلدین کا مکمل مسئلہ رفع یدین ثابت نہیں ۔

یعنی پہلی اور تیسری رکعت کی ابتداء اور رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے نبی اکرم(ﷺ) کا ہمیشہ رفع یدین کرنا اور دوسر ی اور چوتھی رکعت کی ابتداء اور سجدوں کے درمیان کبھی بھی رفع یدین نہ کرنا۔

(5) کسی بھی روایت سے چار رکعت والی نماز میں دس مقامات پر رفع یدین کرنے اور اٹھارہ مقامات پر رفع یدین نہ کرنے کا حکم نبی اکرم(ﷺ) سے ثابت نہیں۔

(6) کسی ایک روایت کے متعلق بھی سیدی (ﷺ) کے ارشاد سے اس کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہوتا۔

کیا صحاح ستہ میں سے ایک، ایک اور صرف ایک ایسی صحیح ، صریح ، غیر معارض روایت پیش کی جاسکتی ہے جس میں نبی اکرم(ﷺ) کا ارشادِ مبارک ہو۔

(1) چاررکعت والی نماز میں پہلی رکعت اور 3سری رکعت کی ابتداء  اور رکوع کو جاتے ، سراٹھاتے،وقت ہمیشہ ہمیشہ رفع یدین کرنے کا حکم ہو، اور دوسری و 4تھی رکعت کی ابتداء اور سجدوں میں رفع یدین نہ کرنے کا حکم ہو۔

(2) جو شخص نماز میں (اختلافی) رفع یدین نہ کرے اس کی نماز سنت کے مطابق نہ ہوگی۔
(3)بزبان نبوت (ﷺ) اس حدیث کا صحیح ہونا ثابت ہو۔
(4) جس کتاب کا حوالہ دیا جائے وہ کسی مقلد کی تصنیف نہ ہو۔

اب اس موضوع پر مزید تفصیلات؛

علامہ محمد بن محمد اکمل الدین بابرتی ؒ (متوفی 687ہجری) عنایہ شرح الھدایہ میں بیس رکعت تراویح کے متعلق تفصیلات لکھتے ہیں کہ:

روی انہ (ﷺ) خرج لیلۃ من لیالی رمضان وصلی عشرین رکعۃ فلما کانت اللیلۃ  الثانیۃ اجتمع الناس فخرج وصلی بھم عشرین رکعتہ،فلما کانت اللیلۃ الثالثۃ کثر الناس فلم یخرج علیہ الصلاۃ والسلام وقال: عرفت اجتماعکم لکنی خشیت ان تکتب علیکم ، فکان الناس یصلونھا فرادی الی زمن عمر رضی اللہ عنہ۔

ترجمہ:روایت ہے کہ نبی اکرم(ﷺ)  ماہ رمضان کی راتوں میں سے ایک رات رونق افروز ہوئے۔ اور آپ نے بیس رکعت نماز ادا فرمائی ، پھر جب دوسری رات آئی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان جمع ہوگئے، حضور (ﷺ) جلوہ افروز ہوئے اور آپ (ﷺ) نے (02) رکعات نماز پڑھائی، پھر جب تیسری رات آئی ، صحابہ کرام بڑی تعداد میں جمع ہوئے، حضور (ﷺ) رونق افروز نہیں ہوئے ،ارشاد فرمایا؛ میں تمہارے جمع ہونے کو جانتا ہوں لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ یہ نماز تم پر فرض قرار دی جائے۔ چنانچہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ، حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے زمانہ تک علیحدہ علیحدہ نماز ادا کرتے رہے،

مزید حدیث لکھی ہے کہ : فقال عمر ! انی اری ان اجمع الناس علی امام واحد، فجمعھم علی ابی بن کعب فصلی بھم خمس ترویحات عشرین رکعۃ۔

ترجمہ: پھر حضرت عمر (رض) نے فرمایا: میں بہتر سمجھتا ہوں کہ لوگوں کو ایک امام کی اقتداء میں جمع کردوں، پھر آپ نے انہیں حضرت ابی بن کعب (رض) کی اقتداء میں جمع کردیا تو انہوں نے پانچ ترویھات ، بیس رکعات پڑھائیں۔

مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم (ﷺ) نے دو، تین ، یا چار راتیں باجماعت نمازِ تراویح ادا فرمائی، پھر اس اندیشے سے کہ کہیں امت پر فرض نہ ہوجائے، تشریف نہیں لائے، امام ابن حجر ہیتمی ؒ کے مطابق باقی مہینہ کاشانہء اقدس میں نماز ادا فرماتے رہے، اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ نمازتراویح باجماعت ادا کرنا حضور (ﷺ) کے عمل مبارک سے ثابت ہے ، علاوہ ازیں ،نبی اکرم (ﷺ) نے جب صحابہ کرام کو باجماعت نماز ادا کرتے ہوئے ملاحظہ فرمایا تو تحسین فرمائی۔

جیسا کہ سنن ابو داؤد میں مرفوع روایت ہے۔

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آپ  نے فرمایا؛ حضرت رسول اللہ (ﷺ) تشریف لائے، کیا دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) رمضان شریف میں مسجدکے ایک گوشے میں نماز ادا فرما رہے ہیں، تو آپ (ﷺ) نے ان سے ارشاد فرمایا؛ یہ لوگ کیا کررہے ہیں؟ تو عرض کیا گیا ؛ یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے کامل طور پر قرآن کریم حفظ نہیں کیا ہے، اور حضرت اُبی بن کعب (رضی اللہ عنہ) امامت کررہے ہیںاور یہ صحابہ اُن کی اقتداء میں نماز ادا کررہے ہیں۔ تو حضور اکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا؛ انہوں نے درست کیا اور کیا ہی اچھا عمل کیا ہے۔

دلائل سے ثابت ہوچکا کہ نبی اکرم (ﷺ) کا یہ عمل مبارک بیان کیا جاتا ہے کہ آپ (ﷺ) نے بیس رکعات ادا فرمائی۔ مزید حوالہ جات نیچے درج ہیں۔

مصنف ابن ابی شیبہ ، مسند عبد بن حمید، شرح صحیح البخاری لابن بطال، السنن الکبریٰ للبیہقی، المعجمع الاوسط للطبرانی، المعجم الکبیر للطبرانی، الاستذکار والجامع لمذھب فقھاء الامصار وعلماء الاقطار لابن عبدالبر، التمھید لما فی موطا من المعانی والاسانید لابن عبدالبر، مجمع الزوائد للھیثمی ، خلاصۃ الاحکام فی مہمات السنن وقواعد الاسلام للنووی، نصب الرایۃ فی تخریج احادیث  الہدایۃ للزیلعی، فتح الباری شرح صحیح البخاری لابن حجر العسقلانی، المطالب العالیۃ لابن حجر العسقلانی،التلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر لابن حجر العسقلانی، فتح القدیر لابن الہمام ، الحاوی للفتاوی للسیوطی، تنویر الحوالک للسیوطی ، نیل الاوطار للشوکانی، منحۃ الخالق علی البحر الرائق لابن عابدین الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد للصالحی، اتحاف الخیرۃ المہرۃ للبوصیری، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ، زجاجۃ المصابیح لمحدث الدکن اور الفقہ الاسلامی للزجیلی میں حدیثِ پاک ہے:

عن ابن عباس قال کان النبی (ﷺ) یصلی فی شھر رمضان بعشرین رکعۃ والوتر
ترجمہ؛ سیدنا عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (ﷺ) ماہ رمضان میں بیس رکعات تراویح اور وتر ادا فرمایا کرتے تھے۔

(خصوصی نوٹ: یہاں اس حدیث کے الفاظ میں مخالفین کے اُس جھانسے کا بھی رد ہوجاتا ہے کہ جب وہ مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہوئے یہ دلیل لاتے ہیں کہ تراویح اور وتر ایک ہی چیز ہے۔ ہرگز نہیں یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ انشاء اللہ کسی اور آرٹیکل میں اس پر بھی تفصیلی رد لکھوں گا)۔

اسی طرح ؛
امام بخاری کے دادا استاذ محدث عبدالرزاق بن ہمام صنعانی ؒ (متوفی 112ھ) اپنی مصنف میں صحابی رسول (ﷺ) حضرت سائب بن یزید (رض) سے روایت نقل فرماتے ہیں:

عن السائب بن یزید قال کنا ننصرف من القیام علی عھد عمر وقد دنا فروع الفجر کان القیام علی عھد عمر بثلاثۃ وعشرین رکعۃ۔
ترجمہ؛ حضرت سائب بن یزید (رض) (متوفی 08ھ) سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا: ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مبارک دور میں رات کے قیام سے واپس ہوتے جبکہ سپیدہء صبح کا وقت قریب آجاتا اور حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں رات کی نماز تئیس رکعات (بیس رکعات تراویح اور 3 رکعت وتر) ہوتی۔

یعنی اس روایت سے بیس رکعات نمازِ تراویح پر صحابہ کرام کا عمل ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ طویل قیام ، کثرت تلاوت صحابہ کرام کا شعار رہا ہے۔

حضرت سائب بن یزید (رض) کی روایت اور محدثین کے اقوال
امام نووی (رحمتہ اللہ علیہ) نے خلاصتہ الاحکام میں اس روایت کے متعلق کہا ہے کہ (رواہ البیہقی باسناد صحیح) ۔ اس حدیث کو امام بیہقی  ؒ نے سند صحیح سے روایت کیا ہے۔

امام نووی ؒ کی تصحیح کو امام زیلعی ؒ نے (نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الہدایہ) میں علامہ ابن ہمام نے فتح القدیرمیں، علامہ بدرالدین عینی  ؒ نے عمدۃ القاری میں، امام سیوطی ؒ نے الحاوی للفتاوی میں، امام مُلا علی القاری الھروی ؒ نے مرقاہ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں بھی نقل کیا ہے۔

مزید ثبوت و احادیث ۔

امام بیہقی  ؒ کی سنن صغریٰ اور معرفۃ السنن والآثار میں روایت ہے:
عن السائب بن یزید قال: کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب (رض) بعشرین رکعۃ والوتر۔
ترجمہ:حضرت سائب بن یزید سے مروی ہے ، آپ نے فرمایا کہ ہم عمر (رض) کے دور خلافت میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھا کرتے ۔

علامہ کمال الدین محمد معروف  بہ ابن ہمام ؒ (متوفی 168ھ) صاحب فتح القدیر نے اس حدیث پاک کو نقل کرنے کے بعد امام نووی کے حوالے سے مذکورہ روایت کی سند کی صحت کے متعلق لکھا ہے:

قال النووی فی الخلاصۃ اسنادہ صحیح ۔ امام نووی ؒ نے خلاصتہ الاحکام میں کہا ہے کہ کہ اس کی سند صحیح ہے۔

روایت:
جامع الاحادیث اور کنز العمال میں روایت ہے:

ترجمہ: حضرت ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ سیدنا عمر(رض) نے انہیں رمضان المبارک کی رات میں نماز(تراویح) پڑھانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ رکھتے ہیں اور وہ بہتر طور پر قرات نہیں کرسکتے، اگر آپ رات (تراویح) میں قرات کریں تو بہتر ہوگا، انہوں نے عرض کیا: یا امیر المؤمنین ! یہ ایسا عمل ہے جو اب تک (مستقل طور پر باجماعت) نہیں ہوا، تو آپ نے فرمایا : یقیناََ میں جانتا ہوں، لیکن یہ اچھا کام ہے، تو حضرت ابی بن کعب(رض) نے اہل اسلام کو بیس رکعات نمازِ تراویح پڑھائی۔

نوٹ: حضرت ابی بن کعب (رض) نے جو عرض کیا (یہ ایسا عمل،،،،،) کا مطلب یہی ہے کہ تسلسل سے پورا مہینہ بھر باجماعت تراویح کا (اہتمام اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا، ) ورنہ اس سے پہلے متعدد مرتبہ گاہ بگاہ باجماعت تراویح کی ادائیگی ہوچکی جیسا کہ حدیث پاک کے حوالہ گزر چکے۔کہ صحابہ کرام نے ابتداء میں تین یا چار راتیں حضور (ﷺ) کی اقتداء میں نماز تراویح ادا کی، پھر جماعت صحابہ نے خود حضرت ابی بن کعب(رض) کی اقتداء میں بسا اوقات نماز تراویح پڑھی اور حضور (ﷺ) نے ملاحظہ فرما کر تحسین فرمائی، لیکن تسلسل کے ساتھ پورے رمضان میں باجماعت تراویح نہیں پڑھی گئی تھی۔

عہد عثمانی سے ثبوت:

حدیث ترجمہ: حضرت سائب بن یزید (رض) سے روایت ہے کہ لوگ سیدنا عمر (رض) کے زمانہ میںرمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھتے ، اور سو سو آیتوں والی سورتیں (جیسے براءۃ، تحل، ھود وغیرہ) تلاوت کرتے تھےاور حضرت عثمان بن عفان (رضی اللہ عنہ) کے دور میں طویل قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں کا سہارا لیتے تھے۔

امام نووی ؒ نے خلاصتہ الاحکام میں اس روایت کے صحیح ہونے کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے: رواہ البیھقی باسناد صحیح ۔ یعنی امام بیہقی ؒ نے اسے سند صحیح سے روایت کیا۔ اس کے علاوہ امام ملا علی القاری الحنفی الھروی نے بھی مرقاۃ المفاتیح ، میں امام نووی ؒ کے اس فیصلہ کا ذکر فرمایا ہے۔

آٹھ رکعات تروایح بہ دورِ خلافتِ شیر خدا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)

امام بیہقی ؒ کی سنن کبریٰ اور امام بدرالدین عینی ؒ کی شرح عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں حدیث درج ہے:

عن ابی عبدالرحمٰن السلمی عن علی (رض) دعا القراء فی رمضان فامر منھم رجلا یصلی بالناس عشرین رکعۃ۔

ترجمہ: حضرت ابو عبدالرحمٰن السلمی (رضی اللہ عنہ ) (متوفی 47ھ) سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ماہ رمضان میں حفاظ کرام کو بلوایا اور ان میں سے ایک صاحب کو حکم فرمایا کہ بیس رکعات تراویح پڑھائیں۔

روایت:
مصنف ابن ابی شیبہ ، امام بیہقی کی سنن الکبریٰ ، اور امام علی المتقی کی کنز العمال وغیرہ میں حدیث مندرج ہے کہ:

عن ابی الحسناء ان علی بن ابی طالب (رض) عنہ امر رجلا ان یصلی بالناس خمس ترویھات عشرین رکعۃ۔
ترجمہ: حضرت ابوالحسناء (رض) سے روایت ہے کہ سیدنا شیر خدا علی (رض) نے ایک صاحب کو حکم فرمایا کہ لوگوں کو پانچ ترویحات یعنی بیس رکعت پڑھائیں۔

مذکورہ بالا حدیث کی سند کے روای عمر و بن قیس کے بارے میں علامہ ابن ترکمانی ؒ نے الجواہر النقی میں رقم فرمایاہے:

وعمر بن قیس اظنہ الملائی وثقہ احمد و یحییٰ وابو حاتم وابوزرعۃ وغیرھم۔

عمر و بن قیس سے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ (عمرو بن قیس ملائی) ہیں ، امام احمد ، حضرت یحییٰ، حضرت ابوحاتم، امام ابوزرعۃ ودیگر ائمہ محدثین نے انہیں ثقہ و معتبر کہاہے۔

یہ سب ثبوت ظاہر کرتے ہیں کہ ہم حنفیوں سنیوں کا ہی عمل قرآن اور حدیث نیز سلف الصالحین اور آئمہ کرام کے  عقیدے پر ہے۔

محدث دکن ابوالحسنات حضرت سید عبداللہ شاہ نقشبندی قادری ؒ (متوفی 4831ھ) فرماتے ہیں:

ان مجموع عشرین رکعۃ فی التراویح سنۃ مؤکدۃ لانہ مما واظب علیہ الخلفاء وقد سبق ان سنۃ الخلفاء ایضاََ لازم الاتباع وتارکھا اثم۔
ترجمہ: نماز تراویح میں مکمل بیس رکعات سنت مؤکدہ ہیں، کیونکہ یہ ان اعمال میں سے ہیں جن پر خلفائے راشدین نے مواظبت کی ہے ، اور سابق گزر چکا ہے کہ خلفائے راشدین کی سنت بھی لازم اتباع ہے اور اسے ترک کرنے والا گنہگار۔

یہاں تک تو آپ نے صحابہ و سلف کا عمل وسنت ملاحظہ کیا۔ اب چند گواہیاں اور عمل تابعین سے بھی پیش خدمت ہیں:
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا عمل:
عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں علامہ بدرالدین عینی  ؒ نے حضرت اعمش کے حوالہ سے ایک روایت ذکر کی ہے، جسمیں واضح طور پر لکھا ہے کہ صحابی ء رسول (ﷺ) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیس رکعات پڑھایا کرتے :

عن الاعمش عن زید بن وھب قال کان عبداللہ بن مسعود یصلی لنا فی شھر رمضان ، قال الاعمش کان یصلی عشرین رکعۃ ویوتر بثلاث۔
ترجمہ: حضرت اعمش (رض) (متوفی 841ھ) سے روایت ہے وہ حضرت زید بن وہب (رض) (متوفی 381ھ) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ماہ رمضان میں ہماری امامت فرماتے اور حضرت اعمش (رض) فرماتے ہیں کہ آپ بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھاتے ۔

بیس رکعت تراویح پر تمام صحابہ کرام کا اتفاق:

وفی المغنی عن علی انہ امر رجلا ان یصلی بھم فی رمضان بعشرین رکعۃ قال وھٰذا کالاجماع۔

اور مغنی میں حضرت علی مرتضیٰ (رض) کی روایت مذکور ہے کہ آپ نے ایک صاحب کو حکم دیا کہ وہ رمضان المبارک میں نماز تراویح بیس رکعات پڑھائیں ۔ اس کی شرح کرتے ہوئے امام عبدالبر ؒ (متوفی 364ھ) نے فرمایا : صحابہ کرام کا یہ عمل گویا اجماع ہے۔

صاحب تبیین الحقائق علامہ فخر الدین عثمان بن علی زیلعی ؒ (متوفی 347ھ) فرماتے ہیں:

ولنا ماروی البیھقی باسناد صحیح  انھم کانو یقومون علی عھد عمر (رض) بعشرین رکعۃ وعلیٰ عھد عثمان وعلی مثلہ فصار اجماعا۔
ترجمہ: اور ہماری دلیل وہ روایت ہے جسے امام بیہقی  ؒ نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حضرات کرام ،حضرت عمر (رض) کے دور خلافت میں بیس تراویح ادا کیا کرتے ، اور اسی طرح حضرت عثمان غنی (رض) و علی (رض) کے دور خلافت میں عمل جاری رہا اور (بیس رکعات تراویح پر) صحابہ کرام کا اجماع ہوگیا۔

ثبوت:
اسی طرح امام ملا علی القاری ؒ نے مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح  میں تحریر کیا ہے:

لکن اجمع الصحابۃ علی ان التراویح عشرون رکعۃ۔یعنی ۔ بہرحال صحابہ کرام نے نماز تراویح بیس رکعت ہونے پر اجماع و اتفاق کیا ہے۔
(نوٹ:اس آرٹیکل میں دیئے گئے ریفرینسس کے عکس (سکینز) دیکھنے کے لیئے آخر میں دیے گئے لنکس کو کلک کریں)۔

بیس رکعات پر مہاجرین و انصار کا اتفاق، علامہ ابن تیمیہ کی صراحت:
ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوی میں لکھا ہے:

قد ثبت ان ابی بن کعب کان یقوم بالناس عشرین رکعۃ فی قیام رمضان ویوتر بثلاث فرای کثیر من العلماء ان ذالک ھوالسنۃ لانہ اقامہ بین المھاجرین والانصار ولم ینکرہ منکر۔

ترجمہ: یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ حضرت ابی بن کعب (رض) ماہ رمضان میں بیس رکعات کی امامت فرماتے اور تین رکعات وتر پڑھاتے ، لہٰذا بہت سارے علماء کی رائے ہے کہ یہی سنت ہے، کیونکہ حضرت ابی بن کعب(رض) نے یہ عمل مہاجرین وانصار کی موجودگی میں کیا اور کسی نے اسکا انکار نہیں کیا۔

نیز ابن تیمیہ نے اپنے فتاوی میں لکھا ہے:

وھوالذی یعمل بہ اکثر المسلمین ۔ یعنی ۔ بیس رکعات تراویح پر اکثر مسلمانوں کا عمل ہے۔

وزارۃ الاوقاف کویت کی جانب سے ترتیب کردہ فقہ اسلامی کے انسائیکلوپیڈیا الموسوعۃ الفقیہۃ الکویتیۃ میں مذکور ہے:

وقال الدسوقی وغیرہ کان علیہ عمل الصحابہ والتابعین۔ یعنی۔ علامہ دسوقی ؒ نے اور دیگر علماء نے کہا ہے؛ بیس رکعات تراویح پر صحابہ وتابعین کا عمل رہا ہے۔

الفقہ الاسلامی وادلۃ میں مذہب احناف کے تحت مرقوم ہے:

التراویح سنۃ۔۔۔۔وعدد رکعاتھا عشرون رکعۃ ، تؤدی رکعتین رکعتین، یجلس بینھما ، مقدار الترویحۃ، بعشر تسلیمات ثم یوتر بعدھا، ولا یصلی الوتر بجماعۃ فی غیر شھر رمضان، ودلیلھم علی العدد فعل عمر (رض) ۔۔۔۔حیث انہ جمع الناس اخیرا علی ھذا العدد فی المسجد، ووافقہ الصحابۃ علی ذلک، ولم یسخالفھم بعد الراشدین مخالف۔

ترجمہ: تراویح سنت ہے اور اسکی بیس رکعتیں ہیں، جو دو دو رکعات کے طور پر دس سلام کے ساتھ ادا کی جائیں گی، اس کے بعد وتر ادا کی جائیگی، رمضان کے علاوہ مہینوں میں وتر باجماعت ادا نہیں کی جاسکتی، اور حضرت عمر (رض) کا عمل بیس رکعات تراویح پر دلیل ہے کہ آپ نے آخیر میں مسجد نبوی (ﷺ) میں بیس رکعات پر لوگوں کو جمع فرمادیا، اور صحابہ کرام (رض) نے اس پر آپ کے ساتھ اتفاق فرمایا اور خلفاء راشدین کے بعد بھی کسی نے ان کی مخالفت نہیں کی۔

تابعین کا عمل:

پہلی روایت:
عن عبداللہ بن قیس عن شتیر بن شکل انہ کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر۔
حضرت عبداللہ بن قیس (رض) حضرت شتیر بن شکل (رض) متوفی (96ھ) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ماہ رمضان میں بیس رکعات تراویح اور نماز وتر پڑھتے تھے۔

حضرت شتیر بن شکل کی روایتیں صحیح بخاری کے علاوہ بقیہ پانچوں صحیح کتب میں موجود ہیں، نیز امام بخاری نے الادب المفرد میں آپ سے روایت کی ہے۔

حافظ ابن حجر عقسلانی  ؒ نے تہذیت التہذیب میں حضرت شتیر (رض) کے بارے میں لکھا ہے:

قال النسائی ثقہ وذکرہ ابن حبان فی الثقات وقال ابن سعد ۔۔۔۔۔وکان ثقہ قلیل الحدیث وقال العجلی ثقہ من اصحاب عبداللہ۔

امام نسائی نے کہا: حضرت شتیر بن شکل (رض) معتمد علیہ اور ثقہ ہیں۔ ابن حبان نے آپ کو ثقہ اور معتبر روایوں میں درج کیا ہے، ابن سعد نے کہا کہ آپ قابل استدلال ہیں اور کم روایت کرنے والے ہیں ، عجلی کہتے ہیں کہ آپ معتمد علیہ راوی ہیں اور حضرت عبداللہ بن مسعود(رض) کے شاگرد ہیں۔

نیز حافظ ابن حجر عسقلانی  ؒ نے الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ میں لکھا ہے:

شتیر بن شکل العبسی تابعی مشہور ذکر ابو موسیٰ  المدینی انہ ادرک النبی (ﷺ)۔

حضرت شتیر بن شکل (رض) عبسی مشہور تابعی ہیں ابوموسیٰ مدینی نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے نبی اکرم(ﷺ) کا زمانہ پایا ہے۔

دوسری روایت:
اسی طرح امام بیہقی نے سنن کبری میں روایت نقل کی ہے جلیل القدر تابعی حضرت سوید بن غفلہ (رض) متوفی (18ھ) بیس رکعات تراویح پڑھاتے تھے چنانچہ لکھا ہے :

اخبرنا ابوالخصیب قال کان یؤمنا سوید بن غفلۃ فی زمان فیصلی خمس ترویحات عشرین رکعۃ۔

حضرت ابو الخصیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سوید بن غفلہ (رض) ہماری امامت فرماتے اور پانچ ترویحات یعنی بیس رکعات تراویح پڑھاتے۔  اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام بیہقی فرماتے ہیں: وفی ذلک قوۃ۔ یعنی اس روایت کی سند قوی ہے۔
چند مزید ثبوت، ان کے عکس آپ آخر میں فولڈر میں دیکھ سکتے ہیں، مختصر حوالے یہاں دیئے جارہے ہیں:

علامہ ابن عبدالبر مالکی ؒ  فرماتے ہیں:
امام سفیان ثوری، امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، امام احمد بن داؤدفرماتے ہیں کہ (تروایح بیس رکعت ہے وتر کے علاوہ، اور مستحب ہے کہ اس سے زیادہ ادا نہ کیا جائے)۔ حوالہ الاستذکار، علامہ ابن عبدالبر المالکیؒ۔دار ابن تیمیہ دمشق بیروت، دار الوعی ، حلب، القاہرۃ،صفحہ 751

امام مُلا علی القاری الھروی ؒ ، بیس رکعت پر صحابہ کے اجماع کا قول ؛ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان،جلد دوئم، صفحہ 643،743

غیرمقلدین کے مشہور عالم، نواب صدیق حسن بھوپالی قنوجی نے کہا۔ (بیس رکعت تراویح پر حضرت عمر (رضی اللہ عنہ ) کے دور میں اجماع ہوا۔ حوالہ : عون الباری لحل ادلۃ البخاری، الجز الثانی، الناشر دارالرشید ، حلب سوریا، و سعودی عرب۔صفحہ 168،

ابن تیمیہ الحرانی کا قول کہ دورِ خلافتِ عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعات تراویح اور تین رکعت وتر پڑھائی گئی۔ (حوالہ: مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ، الجز الثالث والعشرون (32) ، انور الباز، صفحہ 86، طبع، ملک فھد بن عبدالعزیز آل سعود، ریاض ۔ کے ایس اے۔

محدث کبیر الامام الحافظ، شیخ الاسلام محی الدین ابی زکریا یحییٰ بن شرف الدمشقی الشافعی۔ الاذکار المنتخبۃ من کلام سید الابرار(ﷺ)۔ فرماتے ہیں؛ جان لو، تراویح اتفاقِ علماء سے سنت ہے اور وہ بیس رکعات ہیں۔ دار الدیان للتراث۔صفحہ 242۔

کتاب المجموع شرح المھذب للشیرازی، الامام ابی زکریا یحییٰ بن شرف النووی ؒ ۔ الجز الثانی، صفحہ 625۔ مکتبہ الارشاد، جدہ سعودی عرب۔

الاقناع فی حل الفاظ ابی شجاع۔  الشیخ شمس الدین محمد بن محمد الخطیب الشربینی، دارالکتاب العلمیۃ بیروت، لبنان صفحہ 572

امام ابن قدامہ الحنبلی الدمشقی  ؒ ، بیس رکعات تراویح پر اجماع ہے۔ المغنی ، دار عالم الکتب جز الثانی، الریاض، صفحہ 402
امام شیخ ابوالحسن یحییٰ بن ابی الخیر الشافعی ؒ، البیان فی مذہب الامام الشافعیؒ۔المجلد الثانی، کتاب الصلاۃ صفحہ 472۔

امام ترمذی ؒ اپنی کتاب جامع ترمذی میں فرماتے ہیں؛

اور اکثر اہل علم کا رمضان کے قیام میں اختلاف ہے ، بعض کہتے ہیں  کہ 4 رکعات وترکے ساتھ پڑھائی جائے اور یہ قول اہل مدینہ کا ہے اور اسی پر اہل مدینہ کا مدینہ میں عمل ہے۔ ۔۔۔۔اور اکثر اہل علم جو حضرت عمر (رض) ، حضرت علی (رض)، وغیرہ صحابہ (رض) سے روایت ہے بیس رکعات اور یہی سفیان ثوری ؒ عبداللہ بن مبارک ؒ، اور امام شافعی ؒ کا قول  ہے۔

اور امام شافعی نے فرمایا:
میں نے اپنے شہر مکہ میں لوگوں کو بیس رکعات پر عمل پایا۔) حوالہ: جامع الترمذی ، المجلد الثانی، صفحہ  951، دارالغرب الاسلامی۔الجامع الکبیر۔

امام شافعی ؒکا فرمان کہ : مجھے بیس رکعات پسند ہے۔ حوالہ : الاُم۔ للامام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی القرشی ۔ بیت الافکار الدولیۃ۔ کتاب الصلوٰۃ صفحہ 501

بدایۃ المجتھد ونھایۃ المقتصد۔ امام ابی الولید محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن رشد القرطبی۔ کے مطابق امام شافعی بھی بیس یا چھتیس کے قائل تھے۔ الجز الاول، داررالمعرفۃ، صفحہ 021۔بیروت لبنان۔

ان کے علاوہ ، یہ بھی کہ امام ترمذی نے اہل علم کا اختلاف بتایا ہے مگر کسی نے یہ نہیں کہا کہ، تراویح 8 رکعت پڑھی جائے کیونکہ (سلف) کا یہ مذہب ہی نہیں تھا یا وہ 02 رکعات پڑھتے تھے یا اُس سے زیادہ مگر کم نہیں پڑھتے تھے۔ امام غزالی ؒ نے احیاء العلوم الدین جلد اول، دارالاشاعت، پاکستان کے اردو ترجمہ صفحہ 813 پر بھی بیس رکعت کا ہی ذکر فرمایا ہے۔ نیز

حضرت شیخ عبدالقادر الجیلانی ؒ لکھتے ہیں:
مستحب ہے کہ نمازِ تراویح باجماعت ہو اور قرات جہری ہو کیونکہ آپ (ﷺ) نے نماز تراویح اسی طرح پڑھائی تھی۔ جب رمضان کا چاند نظر آجائے تو اسی رات سے تراویح کی نماز شروع کردی جائے کیونکہ وہ رمضان کی رات ہے، نمازتراویح  عشاء کے فرض اور پھر 2 سنتیں پڑھ کر ادا کرنی چاہئے کیونکہ سنت طریقہ یہی ہے۔ تراویح کی بیس رکعات ہیں اور ہر 2 رکعت کے بعد سلام پڑھا جائے۔ بیس رکعت کی چار تراویح ہیں، یعنی ہرچار رکعت کا ایک ترویحہ اس لیئے ہر ترویحہ کے بعد قدرے توقف کیا جاتا ہے۔ (غنیۃ الطالبین، عربی ایڈیشن۔ صفحہ 862۔الجز الثانی ۔۔دار احیاء التراث العربی، بیروت لبنان۔

ہم امید کرتے ہیں کہ اتنی وضاحت وصراحت کے بعد (غیرمقلدین) اپنے طرزِ عمل پر بہتر نظر ڈالیں گے اور جن کے حق میں اللہ بہتر سمجھے گا اُن کو
ہدایت عطا فرما دے گا۔ وآخرالدعوانہ۔

تحریر و تحقیق، ملک عمران اکبر۔ (مجذوب القادری)
چیکنگ وکمپوزنگ، ضرب حق۔ برائے مکاشفہ ورڈ پریس ڈاٹ کام۔
I had intentionally leave it in open unicode format so that everyone can take  help from it. If you want to read it in proper true type urdu fonts. Please visit to (makashfa.wordpress.com). I am willing to update this post with more authentic references regarding 20 Raka' of Taraweeh!

Scans can be accessed through makashfa.

1 comment: