Saturday 29 November 2014

Lataif-Maqamat-al-Ruhaniyah-dar-Jismul-Insani





UNICODE:

لطائف ستہ ۔ مختصر تعارف؛

بزرگوں نے فرمایا ہے کہ انسان کو حق تعالیٰ نے اپنی حقیقت کا نمونہ بنایا ہے اور اس کے اندر لطائف ستہ پیدا فرمائے ہیں اور اسے اپنی جمالی وجلالی صفتوں سے نواز کرسرفراز وممتاز کیا اور تمام نیکیوں اور سعادتوں کا منبع گردانا اور اپنے  نور سے اسے منور کیا۔ 

اول لطیفہ نفس ہے ۔ یہ اس کو نصیب ہوتا ہے جو ذوق و شوق سے خداوند قدوس کو یاد کرے ۔ وہ کون مبارک درخت ہے کہ اس میں یہ پھل آئے اور کون وہ درویش ہے جو اگر ذکر خدا میں رات کو دن بنائے اور کون وہ فقیر ہے جس کا وقت اس کی فکر میں ہی صرف ہو۔ نور ذات وہ نور ہے کہ اس کا بیان مشکل اور اس کی کیفیتیں بغیر نشان کے محال۔ ہاں بزرگانِ دین نے راسخ العقیدہ مریدوں کی تعلیم کے لیئے چند علامتیں مقرر فرمائی ہیں ۔ اگر ان علامتوں کو معمول بنائے تو مطلوب و مقصود سے بہرہ ور ہوسکتا ہے۔


لطیفہ نفسی:
مختلف صوفیائے کرام نے اپنے اپنے سلسلوں میں اس کے ذکر کے مختلف طریقے بتائے ہیں۔سلسلہ قادریہ ،نقشبندیہ ،مجددیہ میں باوضو قبلہ رخ ہوکرمراقبہ گر ہوتے ہیں۔ اس مراقبہ میں ذکر (اسمِ اللہ ) کیا جاتا ہے۔اس کا بعض علماء نے (اللہ ھو) بھی بیان فرمایا ہے۔ اس لطیفہ کا مقام بعض مشائخ ناف سے ذرا سا نیچے بتاتے ہیں جبکہ بعض ناف اور دل کے درمیاں یعنی ناف سے ایک یا دو انچ اوپر بتاتے ہیں۔ اس مقام کو پار کرنے کے لیئے مراقبہ میں ذکر اسمِ اللہ یا ، اللہ ھُو کے ساتھ ضرب کی جاتی ہے۔ عمومی طور پر کتابوں میں آپ کو ضرب تو بتا دی جاتی ہے لیکن اس کا پریکٹیکل صحیح طریقہ نہیں بتایا جاتا۔ میں نے ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں جو کہ دل پر یا پیٹ پر ہاتھ سے باقائد ہ ہلکا سے پیٹنے  کو ضرب سمجھتے ہیں جو کہ صریحاً نادانی ہے۔ ضرب سے ہمیشہ مراد یہ ہوتی ہے کہ جب آپ مثال کے طور پر (اسم باری تعالیٰ (اللہ) عزوجل) کا ورد کرتے ہیں مراقبہ کے دوران تو مثال کے طور پر آپ نے کہا کہ اللہ،تو (ہ) پر ذور دینا اور اُس کو اُس لطائف کے مقام پر محسوس کرنا ضرب کہلاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہاتھ سے تھپڑ ماریں۔ یہ پہلا مقام ہے لطائف میں ، جب سالک اس کے ذکر میں کامل ہوجاتا ہے۔ اور ماسوا ء اللہ ہرچیز سے تعلق کو توڑ لیتا ہے تب اسمائے باری تعالیٰ کی روشنی اپنے نفس پر قوی پاتا ہے اور اُس کو اپنے نفس کے ساتھ لڑنے میں مدد ملتی ہے اور اُس کو زیر کرنے کو ہی لطیفہ نفسی کا پار لگنا کہا جاتا ہے۔ذکر الٰہی کی کثرت، اوراد ، وظائف کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کی سرکشی کو ختم کرنا اس پہلے مقام کا مقصد ہوتا ہے۔تب ہی تجلیات الٰہی کا ظہور ہوتا ہے۔

لطیفہ ء قلبی:
سلسلہ عالیہ قادریہ سہروردیہ کے بزرگان ِ کرام نے اس کے متعلق یوں ارشاد فرمایا ہے کہ قلب بائیں پہلو میں ایک مخروطی انڈے کی شکل کی ایک چیز ہے ۔ جِسے قلب صنوبری کہتے ہیں اور وہ بائیں طرف دل سے ایک یا دو انگلی نیچے ایک مقام ہے۔سالک (درویش ، صوفی) کو چاہیئے کہ صبح اور دوپہر دن میں شام کو علیحدہ ہوکر گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر زبان کو تالو سے لگا کر لفظ اللہ جو کہ باری تعالیٰ کی ذات اور صفات پر حاوی ہے۔سرنیچے کرکے قلب صنوبری پر ضرب دےاور اتنی ہی دیر تک یہ وظیفہ جاری رکھے کہ لفظ اللہ دل سے سنا جاسکے۔ بلکہ آہستہ آہستہ جیسا کہ جانور کی تعلیم کرتے ہیں زبان سے بغیر کہے ہوئے دل سے کہے انشاء اللہ تعالیٰ ، عنایت الٰہی اور توجہات مرشد ارشاد پناہی سے دل سے آواز پیدا ہوگی۔ جو دوطرح سے ہوتی ہے۔ 

ایک یہ کہ جسے دل کہتے ہیں۔ اس کی حرکت سے آواز پیدا ہو، دوئم یہ کہ قلب سےمل کرتمام بدن سے آواز برآمد ہو اور یہ طریقہ اعلیٰ وارفع ہے ۔ رنگ قلب سرخ رنگ ہے اور تجلیات الٰہی جو آگ کی مانند ہیں ظاہر ہوتی ہیں اور ان کے حاصل ہونے سے سالک اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوتا ہے اور اس کے تمام گناہ اور لغزشیں نیکیوں سے بدل جاتی ہیں،دل کا نور اس قدر ضیا پاش ہوتا ہے کہ تاریک رات میں چیزیں نظر آنے لگتی ہیں اور اولیاء اللہ کی زیارات سے مشرف ہوتا رہتا ہے۔اور جذبات اور عنایاتِ الٰہی سے ایسا پُر ہوجاتا ہے کہ خداوند عالم اسے اس درجہ پر فائز فرمادیتے ہیں جس سے طالب اس شغل سے بلند ترین درجہ پر پہنچ کر خود کو ڈھونڈتا ہے ۔ مگر نہیں پاسکتا اور کوئی نشان اپنا اسے نظر نہیں آتا۔

پس قلب صنوبری اس چیز کا مظہر ہے کہ قلب محمد ی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے آمیختہ یعنی ملا ہوا ہے اور آپ کے نور سے منور ہے اور قلب محمدی قلب بیرنگ کا مظہر ہے۔ جس نے نشان اس کی بے نشانی سے لیا ہے اور اس طرح کی نسبت بمرتبہ بے رنگی ہے اور یہ وحدت کا ظہور ہے۔ (اگر نقش اللہ کا دل پر قائم اور درست نہ ہو تو چاہیے کہ لفظ اللہ کاغذ پر لکھ کر نظر کے سامنے رکھے اور اس طرح اس کی طرف نظر جمائے۔ یہاں تک کہ اس کا مشاہدہ ہو اور جب نقش اللہ بغیر لکھا دیکھے ہوئے نظر کے سامنے آجائے تو اپنی نظر کو ہٹا کر دل کی طرف لے جائے) اور اللہ کی ذات کا مشاہدہ اس پر کرے انشاء اللہ کامل استعداد مرشد کی برکت اور رب العزت کی عنایت سے اللہ کا نشان دل پر درست ہوجائے گا اور آنکھیں اور دل مراقبہ میں بعینہ دیکھ سکیں گے۔ 


لطیفہ روحی:
یہ مقام، سینے کے بیچ ہوتا ہے۔ جب لطیفہ قلبی کا مقام حاصل ہوجائے اور وہ تجلیات خداوندی کی کیفیت پالے ، انوار کا مشاہدہ کرلےاور اللہ کی رحمت اپنے آغوش میں لے لے تو پھر اسے لطیفہ روحی کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے۔ کیونکہ یہ لطیفہ حامل انوارِ الٰہی ہے اور ناختم ہونے والی تجلیات سے بنا ہے ۔ اس طریقہ سے سالک کو چاہیے کہ اپنی توجہ روح کی جگہ پر متوجہ کرے ۔ لفظ اللہ کو اندرونی آواز سے روح کو تلقین کرے اور یہ اسطرح ہو کہ زبان کو مطلق اس کی خبر نہ ہواور اتنا کھو جائے کہ عالم اجسام سے عالم ملکوت اور سیر الی اللہ وسیرنی اللہ من وعن ظاہر ہو اور عالم مثال اور عالم جبروت نظر آئیں اور روح کا سبز رنگ ہے ۔ اسلیئے کہ ذات باری کا رنگ عارف ہے۔ مشاہدہ میں سیاہ رنگ ہے اور روح کا رنگ سبز ہےاور سبز رنگ کو سیاہ رنگ سے نسبت تامہ ہے ۔ اسلیئے کہ ذات اور روح کے رنگ مظہر میں ہے وہی سب کچھ مظہر سے ظاہر ہوگا۔ اس سے غیبت اور دوئی (یعنی جدائی) معدوم ہوجاتی ہے ۔


لطیفہ سری؛
لطیفہ سری کا مقام روحی سے آگے ہے، اس مقام میں بھی مشائخ اپنے مریدوں کو مختلف اوراد وظائف وغیرہ سے مشغول رکھتے ہیں، اسم باری تعالیٰ اللہ کے ساتھ ساتھ لاالٰہ الاللہ کا ذکر کیا جاتا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ حسب سابق مراقب ہوکر لاالٰہ پڑھے اور اپنی سانس کھینچتے وقت لاالٰہ کو اتنا پڑھے کے سانس بھرپور طریقے سے لے چکے پھر سانس کو جتنا روک سکتا ہے روکے، اور اگر حبس دم میں کام نہیں تو لاالٰہ کو جب سانس اندر لے تو پڑھے (زبان تالو سے لگی رہے)، اور الاللہ کہتے وقت ضرب اس مقام پر کرے یعنی یوں سمجھئے آسان الفاظ میں کہ لاالٰہ تب پڑھنا ہے جب سانس لے رہے ہیں اور جب سانس چھوڑ رہے ہیں تو الاللہ پرھتے ہیں اور تصور یہ ہوتا ہے کہ لاالٰہ سے لکیر کھیچ کر اُس مقام تک یعنی الاللہ تک لے جائی جائے اور الاللہ کا اختتام لطیفہ سری پر کیا جائے۔ (یہی کیفیت اور طریقہ کم و بیش لطائف کے تمام حصوں میں ہے)۔ 
لطیفہ خفی:
پنجم لطیفہ خفی کہلاتا ہے ۔ طالب کو جب اللہ تعالیٰ یہ توفیق بخشے کہ وہ چار لطائف پر جو انسان کے جسم سے تعلق رکھتے ہیں ، عامل ہوجائے تو لطیفہ خفی کی طرف رجوع کرے۔ دو لطیفہ سر سے تعلق رکھتے ہیں ، ایک خفی دوسرے اخفی درویش پر ظاہر کیئے جاتے ہیں۔ بعض مشائخ کے مطابق، لطیفہ خفی کامرکز ومکاں دونوں (حاجبین) جبڑوں کے درمیان ہےاور اس کو قلب عبرت اور قلب انوار بھی کہتے ہیں ۔طالب کو چاہیئے کہ لفظ (ھُو) کو دونوں ابروؤں کے درمیان سے اندرونی آواز کے ساتھ (کچھ ذکر بالجہر کا بھی کہتےہیں)نیچے لے جائے جہاں کہ لطیفہ سری ونفسی ہے۔اور زبان ودہان کو اس کی مطلق خبر نہ ہو، اور دونوں حاجبین کے درمیاں سے بائیں طرف کھینچے اور لطیفہ سری کے درمیاں لے جاکرلطیفہ نفسی پر پہنچائے۔ یعنی (ہو) کو پیشانی کے اوپر سے تمام قوت سے نیچے کی طرف لائے اور دوسری مرتبہ ہو کو حاجیبین کے درمیان لمبا کرکے نیچے سے اوپر کو لے جائے اور اسی طرح یہ عمل دہراتا رہے۔ اور نوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حاجبین کے درمیان تلاش کرےاور نوررسالت اور ذات اللہ  کی مدد اور فیض چاہے۔ نیز چاہیے کہ دونوں کانوں سے ہو ہو آواز متواتر باہر آئے ۔اس درجہ کے لاتعداد مدارج و مناقب ہیں۔

لطیفہ اخفی:
جب طالب پر حقیتِ لطیفہ خفی پوری طرح کھل جاتی ہے تو دوسرا لطیفہ جو کہ سر سے تعلق رکھتا ہے اس کی جانب توجہ کرنا چاہیئے۔ کیونکہ اس کا ظاہر ہونا انتہائی ضروری ہے اور اس کو لطیفہء اخفی اور جمع الجمع بھی کہتے ہیں۔ اولیاء اللہ اس کا مکان ونشان ام الدماغ بیان کرتے ہیں ۔ قلب احمر اور قلب مدور بھی اسی کے نام ہیں۔اس کے متعلق ہم اتنا ہی لکھ سکتے ہیں کہ یہ سب سے افضل درجہ ہوتا ہے جس کو بیان کرنا بہت ہی مشکل  ہے۔ ہزارہاں کتب اس کے بارے میں وارد ہیں مگر یہ ایک معمہ ہے کیونکہ اللہ رب العزت کی وحدانیت کا جلوہ اور اپنی ذات کی فنائیت میں اس قدیم بقا اور لامحدود نور ِ الٰہی کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اور اس کا سالک ہروقت وہاں پرمشاہدہ میں غرق رہتا ہے۔ ولایتوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ 


آخری بات:
اس سب لطائف جسم انسانی وروحانی میں داخل ہونے سے پہلے کے بھی کئی مدارہوتے ہیں ، ہم لوگ بدقسمتی سے خود کو صوفی سمجھ تو لیتے ہیں مگر تصوف انتہائی مشکل امر ہے۔ یہ لطائف صرف علم کی ترویج کے لیئے بیان کیئے جاتے ہیں وگرنہ پہلا لطیفہ نفسی تک بھی کوئی نہیں پہنچ پاتا ، ہاں اگر مرشد کامل نصیب ہوجائے تو یہ مدارج وہ بہت جلد طے کرواسکتا ہے۔ علم تصوف کی مستند کتابوں میں لاتعدار طور پر مشائخ وعلماء نے ان مشقوں کا بتایا ہے۔ مختلف خانوادوں کے مطابق ہر ایک کی اپنی اپنی وظائف و اوراد ہوتی ہیں۔اسمائے باری تعالیٰ کا صحیح ترین استعمال اور مکمل یقین ہی انسان کو اس منزل میں لے جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب مرید تیار ہوجاتا ہے تو مرشد خود بہ خود اس کو مل جاتا ہے۔ اور مرید کے تیار ہونے کے لیے بہت ہی پرانی اور بہت ہی سیدھے اصول ہیں، وہ ہیں اللہ کی عبادت، اور اسوہ حسنہ کی پیروی، کیونکہ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ ادب پہلی سیڑھی ہوتی ہے محبت کی راہ میں۔ان سب مدارج میں آنے سے پہلے ایک طویل وقت تحقیق اور دین کو سمجھ کر عمل کرنے میں گزرجاتاہے۔ ہم اُس کو ہی نہیں سمجھ پاتے مکمل طور پر تو بھلا ان مدارج اور مقامات کو کہاں سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ اپنے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقے میں ہم کو عقل عطا فرمائے اور ایمان کی تکمیل ویسے فرمائے جس سے وہ راضی ہو۔ آمین۔

(فقیر احقر مجذوب القادری) 


No comments:

Post a Comment