Monday 13 April 2015

Imam AbdulRehman bin Abdusalam Nuzhatal Majaalis

Details: 

Nuzha'tul' Majalis By Imam Abdu-Rehman Bin Abdus-Salam Al-Shafi'e Al Safuri (Rt)

Pages (1) (53) (189/190) Urdu Translation and Scans



بسم الله الرحمن الرحيم


الحمد لله الذي قص لنا من آياته عجباً. وأفادنا بتوفيقه إرشاداً وأدباً. وأرسل فينا رسولاً كريماً نجيباً أطلعه على الحقائق ففاق أخاه وأباه، وعرض عليه الحبال ذهباً فنأى وأبى وخصنا بشريعته القويمة وجبا، فآمنا وصدقنا وله الفضل علينا وجبا، لأنه ادخر لنا ذلك في خزائن الغيب وخبا، أحمده حمداً أرغم به أنف من جحد وأبى وأبلغ من فضله الواسع أربا واشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له شهادة تكون للنجاة سبباً وأشهد أن سيدنا محمد عبده ورسوله المجتبى أشرف البرية حسباً وأطهرهم نسباً صلى الله عليه وسلم، على آله وأصحابه الذين سادوا الخليقة عجماً وعرباً...





عربی عبارت: (۱)۔ ترجمہ: 

"تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیئے ہیں، جس کی ذاتِ اقدس نے ہمارے لئے عجیب وغریب نشانیاں بیان فرمائیں اور ہمیں رشدوہدایت سے نوازتےہوئے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا، فرمائی اور قرآن مجید کو مصائب وآلام سے بچنے کےلئے ہمارا محافظ بنایا، جس میں ہدایت ورہنمائی ، رحمت وراحت ،عذاب وعتاب سے آگاہ کیا، اور ہمارے لئے رسول کریم ، رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور انہیں علومِ غیبیہ سے سرفراز فرماکرہرچیز کی حقیقت سے آگاہ کیا، اور آپ کو تمام جہانوں میں ممتاز فرمایا، اللہ تعالیٰ نے آپ کے سامنے پہاڑ رکھے تاکہ وہ آپ کے لیے سونا بن جائیں مگر آپ نے ان سے اعراض فرمایا اور معذرت کی، اور ہمیں شریعت محمدیہ علیہ التحیہ والثناء کے لیے مخصوص فرمایا نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے نواز کرایمان وصداقت کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا، اور ہم پر یہ اللہ تعالیٰ کا بے پایا ں فضل اور عظیم احسان ہے ، کہ اس نے رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس واطہر کو خاص کرہمارے لیئے اپنے خزائن غیبیہ میں محفوظ رکھا"۔(صفحہ اول/مقدمہ)


وقال الإمام مالك رضي الله عنه وأنا حبب إلي من دنياكم ثلاث مجاورة روضته صلى الله عليه وسلم وملازمة تربته وتعظيم أهل بيته 


ترجمہ صفحہ (۵۳)۔ (اول) حضرت امام مالک فرماتے ہیں:
"مجھے تمہاری دنیا سے تین چیزیں محبوب ہیں ، روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری ، اور آپ ؐ کے مزارِ اقدس پر ہمیشگی،اور آپ کے اہل بیت کرام کی تعظیم وتوقیر بجا لانا"۔ 


فقال صلى الله عليه وسلم صبوا على يده فإنه منهم وعنه صلى الله عليه وسلم ومن أحبني كان معي في الجنة وعنه صلى الله عليه وسلم من أحب أزواجي وأصحابي وأهل بيتي ولم يطعن في أحد منهم وخرج من الدنيا على محبتهم كان معي في درجتي يوم القيامة وسيأتي إن شاء الله تعالى زيادة في فضائلهم إجمالاً وتفصيلاً


ترجمہ؛ (دوئم) نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم فرماتےہیں:

"جس شخص نے میرے صحابہ اور میرے اہل خانہ (امھات المؤمنین) اور اہلِ بیت (کرام) سے محبت اختیار کی اور کسی کو بھی سب وشتم کا نشانہ، نہ بنایا اور دنیا سے جب اس نے وصال کیا تو اس کا دل ان کی محبت سے معمور تھا، وہ روز ِ قیامت میرے ہی ساتھ میرے ٹھکانے  پر ہوگا، اس کا تفصیلی ذکر ان کے فضائل ومناقب کے باب میں آئے گا"۔ 


زيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم مستحبة في كل وقت خلافاً لتقييد المنهاج حيث قال وزيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم بعد فراغ الحج قال النبي صلى الله عليه وسلم من زار قبري وجبت له شفاعتي رواه ابن خزيمة وعنه صلى الله عليه وسلم من جاءني زائرا لم يكن له حاجة إلا زيارتي كان حقاً علي أن أكون شافعا له يوم القيامة في عيون المجالس عنه صلى الله عليه وسلم من زر قبري بعد موتي فكأنما زارني في حياتي ومن لم يزر قبري جفاني وقال إسحاق ابن سنان زرت قبره الشريف سبع عشرة مرة كلما زرته مرة قلت السلام عليك يا رسول الله فيقول وعليك السلام يا ابن سنان وعنه صلى الله عليه وسلم من زارني بعد موتي فكأنما زارني في حياتي ومن مات بأحد الحرمين بعث من الآمنين يوم القيامة رواه البيهقي... حكاية: كان الشيخ الصالح سيدي أحمد الرفاعي يبعث السلام مع الحجاج في كل عام إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فلما قدر الله له بالحج وقف عند قبر الشريف وقال: شعر:

في حالة البعد روحي كنت أرسلها ... تقبل الأرض عني وهي نائبتي
وهذه نوبة الأشباح قد حضرت ... فامدد يمينك كي تحظى بها شفتي



فظهرت له يد النبي صلى الله عليه وسلم فقبلها ولا إنكار في ذلك فإن إنكار ذلك يؤدي إلى سوء الخاتمة والعياذ بالله وإن كرامات الأولياء حق والنبي صلى الله عليه وسلم حي في قبره سميع بصير منعم في قبره وقال بعضهم بلغنا أن من وقف عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم وقرأ هذه الآية إن الله وملائكته يصلون على النبي الآية ثم قال صلى الله عليك يا محمد سبعين مرة ناداه ملك صلى الله عليك يا فلان ولم تسقط له حاجة ويستحب لمن زاره أن يصلي بين القبر الشريف والمنبر فإنها روضة من رياض الجنة قيل معناه البقعة تستحق روضة من الجنة وقيل أن تلك البقعة بعينها تكون في الجنة يوم القيامة قال صلى الله عليه وسلم الصلاة في المسجد الحرام بمائة ألف صلاة والصلاة في مسجدي بألف صلاة والصلاة في بيت المقدس بخمسمائة صلاة رواه الطبراني وقد صرح بعض العلماء بأن المشي إلى قبره صلى الله عليه وسلم أفضل من المشي إلى الكعبة لأن البقعة التي ضمت أعضاءه الطاهرة أفضل من العرش والكرسي وكيف لا وقد رفع الله تعالى ذكره وقرن إسمه مع إسمه وكتبه في كل موضع من الجنة وقال ابن عباس رضي الله عنهما على باب الجنة مكتوب إني أنا الله لا إله إلا أنا محمد رسول الله لا أعذب من قالها وقال النبي صلى الله عليه وسلم ما ضر أحدكم أن يكون في بيته محمد ومحمدان وثلاثة وعن جعفر بن محمد عن أبيه إذا كان يوم القيامة نادى مناد ألا ليقم من إسمه محمد فليدخل الجنة لكرامة اسمه صلى الله عليه وسلم..





ترجمہ (صفحات ومخطوطہ،  (۱۸۹/۱۹۰)۔ 

"زیارت گنبدخضریٰ(کے متعلق لکھتے ہیں) کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کی حاضری ہروقت مستحب ہے ، حج سے پہلے اور حج کے بعد بھی!۔ سید عالم نے فرمایا جس نے میری قبر کی زیارت کی لازماً میں اُسکی شفاعت کرواؤں گا(ابن خزیمہ)۔ نیز فرمایا جو شخص خالص میری زیارت کی نیت سے میری قبر پر حاضر ہوا اور اسکے علاوہ اسکا کوئی اورمقصد نہ ہوتوقیامت کے دن اسکی شفاعت کرانا میری ذمہ داری ہے۔! عیون المجالس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے وصال کے بعد " جس نے میری قبر کی زیارت کی گویا کہ اُس نے میری زندگی میں میری زیارت کی، نیز فرمایا، جس شخص نے حج کیا اور میرے مزار شریف پر حاضر نہ ہوا اُس نے مجھ سے "جفا" کی اورحضرت اسحاق بن سنان بیان کرتےہیں کہ میں نے نبی کریم کے روضہ پاک کی سترہ مرتبہ زیارت کی اور میں نے جب بھی عرض کیا "السلام علیک یا رسول اللہ" توآپ نے جواب میں عنایت فرمایا "علیک السلام یا ابن سنان"۔ مزید آپ علیہ السلام فرماتے ہیں جس نے میرے وصال کے بعد میرے مزار شریف کی زیارت کی گویا اُس نے میری زندگی میں زیارت کی اور یہ کہ حرمین شریفین مکہ مکرمہ یا مدینہ طیبہ میں انتقال کرے گا، قیامت کے دن وہ امن والوں کے ساتھ ہوگا (بیہقی)۔ 

(حکایت) ۔ حضرت شیخ سیدی احمد رفاعی (رض) ہرسال حاجیوں کے ذریعہ بارگاہ نبوی میں سلام پیش کیا کرتے تھے، پھر 
اللہ تعالیٰ نے جب انہیں حج وزیارت کا موقع نصیب فرمایا تو آپ مواجہ شریف کے سامنے کھڑے ہوکر عرض گزار ہوئے۔


(ترجمہ اشعار)


 ۔۔۔دوری کی حالت میں، میں اپنی روح کو بھیجا کرتا تھا، جو میری نائب ہوکرمیری طرف سے قدمبوسی کا شرف پاتی رہی، اور اب تواس جسم کو حاضری کی نعمتِ عظمیٰ حاصل ہوئی ہے ، ذرا اپنے دائیں ہاتھ کو بڑھائیے تاکہ میرے لب اس کے فیضان سے بہرہ مند ہوں!


۔۔۔۔ (آگے لکھتے ہیں) ۔۔۔

یہ کہنا تھا کہ نبی کریم کا دستِ اقدس ظاہر ہوا اور انہوں نے اپنے لبوں کو بوسہ سے مشرف کیا۔ ایسے اُمور سے انکار نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ انکار کا انجام برے خاتمہ پر ہوا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ انکی برائی اور گرفت سے محفوظ رکھے اس میں ذرہ برابر شک نہیں ، کراماتِ اولیاء حق ہیں، بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مزارِ اقدس میں زندہ ہیں، سنتے ہیں، دیکھتے ہیں اور آپ کے قبرانور سے نعمتیں ملتی رہی ہیں، کیونکہ آپ قاسم نعم ہیں۔۔۔۔بعض کہتےہیں جسے مزار پرانوار پر حاضری کی سعادت میسر ہوتووہ یہ آیت پڑھے"ان اللہ ملائکتہ،،،،الیٰ الآخر،،،پھر ستر بار کہے، صلی اللہ علیک یا محمدا (یعنی، الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ)تو ایک فرشتہ ندا کرتا ہے ۔ صلی اللہ علیک فلاں، پھر اس کی کوئی بھی حاجت باقی نہیں رہتی۔

مستحب یہ ہے کہ جو شخص زیارت سے مشرف ہو وہ قبر اقدس اورمنبر شریف کے درمیان درود شریف کثرت سے پڑھے کیونکہ یہ ریاض الجنۃ ہے،

 (حدیث)میرے گھر اورمیرے منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ، جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔ نبی کریم نے فرمایا کہ مسجد حرام میں نماز پرھنا ایک لاکھ نماز کے برابر ہے اورمیری مسجد میں ایک نماز (بیت اللہ شریف کی) ایک ہزار نماز کے برابر ہے۔ اور بیت المقدس میں نماز پانچ صد نمازوں کے برابر ہے۔ (طبرانی)۔ بعض علماء بالتصریح فرماتے ہیں ، بیت اللہ شریف سے محبوبِ خدا کی طرف جانا افضل ہے، کیونکہ زمین کا وہ قطعہ مبارکہ جہاں آپ کا جسم ِ اطہر موجود ہے وہ عرش وکرسی سے بھی افضل و اعلیٰ ہے ، اور پھر کیسے نہ ہو جب کہ آپ کے ذکر کو اللہ تعالیٰ نے خود رفعت دی اورفرمایا (ورفعنا لک ذکرک) ۔ آپ کا اسم گرامی اپنے نام نامی سے متصل رکھا، جنت کے ہرمقام پر نقش فرمایا، حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں جنت کے ہردوازے پر مرقوم ہے، بیشک میں اِلٰہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں، محمد میرے رسول ہیں، جو اس پر ایمان لائے گا میں اسے عذاب نہیں دوں گا۔ نبی کریم نےفرمایا: تمہارے لیئے یہ بات نفع مند ہے 

کہ تمہارے گھر ایک محمد، دو یا تین ہوں (یعنی بچوں کے نام میرے نام پر رکھو)"۔


 حوالہ (نزهته المجالس . ۱۹۰. )۔ اختتام شد۔(مخطوطہ)۔ از امام عبدالرحمٰن بن عبدالسلام الشافعی الصفوری (رحمتہ اللہ علیہ )۔

آخری بات:

(ا)۔ پہلے ذرا غور کیجیئے کہ  نبی علیہ السلام کے لیئے علمِ غیب (منجانب اللہ) ماننے کا عقیدہ ہی اصلی اسلام کا عقیدہ ہے، جو لوگ اللہ کی عطا سے نبی علیہ السلام کے لیئے علم غیب کے منکر ہیں وہ سلف اسلاف کی ان کتابوں اور ان میں لکھے الفاظ کے پس منظر میں اپنے انکار پرذرا غور کرے ۔ 

(۲) ۔ اب غور کریں کہ نہ وہابی درست ہیں کیونکہ وہ اہلبیت کی تحقیر کرتے ہیں ۔اور نہ ہی روافض کیونکہ وہ صحابہ کی تحقیر کرتے ہیں اور ان سب کی گستاخی فرمان نبوی کے مطابق جہنم میں لے جانے کا باعث ہوتی ہے۔ 

(۳)۔ اسی صفحہ پر آپ پڑھ سکتے ہیں کہ تمام تر آئمہ کا یہی ایمان اور عقیدہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی عطا سے مختار ہیں اسی لیئے (القاسم) کہلائے جاتے ہیں (یعنی تقسیم فرمانے والے)۔نیز یہ کہ زیارتِ روضہ رسول ، مزارات وغیرہ یہ سب کچھ خیر القرون کے عمل سے ثابت ہیں۔ آج (خارجی ٹولہ) ان کو (کفر شرک بدعت) کہہ کر اپنا الو سیدھا کرتا ہے۔

(۴) ۔ اور آخر میں نداء رسالت یعنی (یا رسول اللہ ) کہنے کا ثبوت، اور آپ کو حاضر وناظر و زندہ جاننا عین ایمان ہے۔ 

جبکہ ۔ (خوارج) کے تمام (پیرومرشدان) یہ کہتے ہیں کہ (نبی کو کسی چیز کا اختیار نہیں، جو مرگیا مرکے مٹی میں مل گیا، غیراللہ سےمدد مانگنا حرام ہے،نبی کی اتنی ہی تعظیم کرو جتنی بڑے بھائی کی کرتے ہیں ) معاذ اللہ۔ تو کیا ہم حق بجانب نہیں ان خوارج کو گمراہ کہنے میں؟۔





Scans:

Click Here


No comments:

Post a Comment