Sunday 9 November 2014

Article 23: Imam Ibn Hajar Makki Refuting Ibnu Taymmiyah on Ziarah


زیارت نبی ﷺ کے لیئے سفر

ترجمہ ( 1) :  " ان تمام مذکورہ احادیث میں تمام یا تو زیارت کے لیئے صریح ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ زیارت مندوب ہے ۔ بلکہ آپﷺ کی زیارت ظاہر ی زندگی اور بعد از وصال میں مردوں اور عورتوں کے لیئے زیادہ متاکد ہیں جو کہ قرب و بعید سے زیارت کے لیئے آئیں اور ان کے ساتھ آپ ﷺ کی طرف شد الرحال کرنے کی فضیلت ظاہر ہے۔ اور آپ ﷺ کی طرف سفر کرنا مندوب ہے۔ حتیٰ کہ عورتوں کے لیے بھی اتفاقاً مندوب و مستحسن ہے ۔ جیسا کہ امام الدیلمی نے فقہاء کے اس قول سے اخذ کیا ہے کہ ہرحاجی کے لیئے زیارت سنت ہے اور جو بحث ہے وہ آپﷺ کی قبر کے سوا میں ہے۔ 

اولیائے اللہ اور شہداء کے مزارات کی زیارت بھی ایسے ہی سنت ہے اور سنت کے سفر شمول کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہوتا ہے، یعنی زائر مزؤر ے پاس چل کر جاتا ہے۔ جیسا کہ لفظ "مجیئی" آنے والا سے ظاہر ہے کہ جس پر آیت کریمہ میں نص وار د ہے۔ 

پس زیارت یا تو نفس انتقال ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف اس کا قصد کرکے یا پھر مزؤر کے پاس حاضر ہونا ہے دوسرے جگہ سے۔ پس ہر حا ل میں اس پر سفر کا اطلاق ہوگا۔ چاہے وہ قریب سے آئے یا دور سے ، اس میں سفر کا معنی ضرور پایا جائے گا۔ 

اور جب ہرزیارت قربت ہے تو اس کی طرف سفر کرنا بھی قربت ہوگا۔ اور آپ ﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کی طرف جنت البقیع میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور احد شریف کی طرف آپ ﷺ کا جانا بھی ثابت ہے۔ پس جب غیر کی قبر کی زیارت کے لیئے سفر کرنا مشروع ہے ۔ تو آپ ﷺ کی قبر شریف ان تمام قبروں سے زیادہ اس کی حقدار ہے کہ اس کی طرف سفر کیا جائے۔ اور متفقہ قائدہ ہے کہ قرب کا وسیلہ بھی قرب میں داخل ہے۔ یعنی جو کہ قرب تک پہنچائے وہ کسی اور وجہ سے حرام نہیں ہوسکتا جیسا کہ مغضوب راستہ پر چلنا۔ تو یہ صریح ہے کہ زیارت کے لیئے سفر بھی قرب کا ذریعہ ہو کر قرب ٹھہرا۔ اور جس کا یہ گمان ہے کہ صرف قریب رہنے والے کے لیئے ہی زیارت قربت و نیکی ہے تو یہ اس کا شریعت مطہرہ پر افتراع ہے۔ لہٰذا اس کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہیئے۔







ترجمہ ( 2) 
توحید ِ رب اور تعظیم رسول ﷺ؛

"اور یہاں دوامر ہیں جن میں سے ہرایک لازمی ہے۔ 
ایک یہ ہے رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کا وجوب اور ساری خلق سے آپ ﷺ کا رتبہ بلند وارفع ہونا۔ اور دوسرا اللہ تبارک وتعالیٰ کا واحد ویکتا ہونا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات وافعال میں ساری مخلوق سے منفرد ہے اور جس نے مخلوق کو اس کے ساتھ کسی بھی چیز میں شریک کیا تو وہ شرک کا مرتکب ہوا۔ اور جس نے رسول اکرمﷺ کی شان اقدس میں کسی قسم کی کمی کی ،یا ، ان کا مرتبہ کم کرنے کی کوشش کی اور جو چیز ان کی ذات کے لیئے ثابت ہے اس کی نفی کی تو وہ گنہگار بلکہ کافر ہوکردائرہ اسلام سے خارج ہوگیا۔ اور جس نے رسول اکرم ﷺ کی تعظیم وشان میں مبالغہ کیا ہر اس طریقے سے کہ جس سے تعظیم بلند ہو اور یہ مبالغہ ذات باری تعالیٰ تک  نہ لے جائے تو وہ حق تک پہنچا اور اس نے اللہ کی ربوبیت اور رسول اکرم ﷺ کی رسالت کی حدوں کی پاسداری کی اور یہ وہ قول ہے جو کہ افراط و تفریط سے مبریٰ اور پاک ہے۔

(زیارت گنبد خضریٰ پر اجماع امت)

اور اگر تم کہو کہ تم نے کس طرح پچھلے صفحات میں زیارت قبر نبی ﷺ پر اور اس کی طرف سفر پر اجماع نقل کیا ہے۔ حالانکہ متاخرین حنابلہ میں سے ابن تیمیہ تو اس کی مشروعیت کا منکر ہے۔ بلکہ اسکی طرف سفر کرنا وغیرہ ہر چیز کا اس نے انکار کیا ہے جیسا کہ امام سبکی ؒ کی تحریر سے ظاہر ہوتا ہے۔ 

اور ابن تیمیہ نے اپنے استدلال پر کافی کچھ مواد جمع کیا ہے کہ جس کو کان سننا پسند نہیں کرتے اور طبیعتیں اس سے متنفر ہوتی ہیں بلکہ ابن تیمیہ کا زعم باطن اور گمان فاسد ہے کہ قبر شریف کی طرف سفر کرنا بالاجماع حرام ہے۔ اس لیے (بقول ابن تیمیہ ) ہم اس سفر میں نماز قصر نہیں کریں گے اور تمام احادیث جو کہ زیارت کے بارے میں مروی ہیں وہ موضوع ہیں اور بعض متاخرین نے بھی اس میں اس کی اتباع کی ہے جو کہ مذہباً اُسی کے تابع ہیں۔

(ابن تیمیہ علمائے امت کی عدالت میں)
میں کہتا ہوں ابن تیمیہ کی طرف دیکھنا اور امور دین میں سے کسی چیز کا اس کی طرف پھیرنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے جب کہ اس کے بارے میں تو علمائے امت کی ایک کثیر جماعت نے اسکے کلام فاسدہ اور حجج کاسدہ کا تعاقب اور رد بلیغ کیا ہے۔ حتیٰ کہ اس کی اغلاط وعیوب اور اس کے اوہام کی قباحت کو خوب واضح کیا ہے۔ 

جیسا کہ امام العز بن جماعہ ؒ نے فرمایا کہ "ابن تیمیہ کو اللہ تعالیٰ نے گمراہ اور ہلاک کردیا ہے اور اس کو رسوائی کی چادر اوڑھائی اور وہ اپنے جھوٹ اور افتراء میں خود ہی لوٹ کر گرگیا۔ اور ذلت نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے لیئے بدنصیبی واجب ہوگئی"۔ 

اورحضرت شیخ الاسلام و عالم انام (کہ ان کی جلالت شان اور اجتہاد پر تمام امت جمع ہے) یعنی تقی الدین السبکی ؒ (اللہ ان کی قبر کو نور سے معمور کرے) نے اپنی ایک مستقل تصنیف میں  اس شخص (ابن تیمیہ) کا خوب رد کیا ہے۔ اور اس کتاب میں واضح دلائل ، براہین قاہرہ اور حجج باہرہ سے صحیح راہ کی طرف خوب راہنمائی فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ان کی اس سعی جمیل پر شکر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے فیوض و برکات کو ہم پر ہمیشہ رکھے ۔ (آمین)

اورعجائب الوجود میں سے وہ جسارت ہے جس کی بعض متاخرین حنابلہ نے جراءت کی اور حسین ترین محذورات کے چہرے کہ جن کو کسی انسان اور جن نے بھی نہیں چھوا تھا پر غبار ڈالنے کی کوشش کی۔ اور ایسی چیزیں لائے کہ جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جہالت پر دلالت کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کو کم کرنے کی کوشش کی۔ ایسی جہالت سے پناہ اور ان کو رب سے حیا کرنی چاہیئےتھی کہ ان کے منہ افراط میں چلے گئے اور جو چاہا انہوں نے کہا۔(العیاذ باللہ تعالیٰ)

جب کسی شخص پر شقاوت غالب آجائے اور غباوت اس پر حاکم ہوجائے تو وہ ایسی ہی خرافات بکتا ہے۔ اے اللہ ! ہم تیری پناہ میں آتے ہیں ان تمام قبائح سے ۔ اے باری تعالیٰ ! ہم تیری قدرت وعزت کی طرف عاجزی کرتے ہیں کہ تو ہمیں واضح اور صحیح راستہ کا علم عطا فرمائے اور ہر اس قباحت سے بچائے کہ جو ابن تیمیہ سے واقع ہوئی ۔ اور وہ اس برائی میں ہمیشہ کے لیئے گر گیا اور یہ مصیبت اس پر مستقل طاری ہوگئی اوریہ بدقستمی ہمیشہ اس کے پلے پڑی رہی ،یہ باتیں اس سے انہونی نہیں کیونکہ اس کے نفس، اس کی خواہشات اور اس کے شیطان نے اس کے لیئے ان امور کو خوبصورت بنا رکھا تھا۔ حتیٰ کہ وہ مجتہدین کے صائب تیر سے گھائل ہوگیا اور وہ عقل کا اندھا نہ جان سکا کہ وہ کن قبائح میں مبتلا ہورہا ہے اور بہت سارے مسائل میں اجماع امت کے خلاف کررہاہے۔

اور وہ مجتہدین بالخصوص خلفائے راشدین کے عیب کمزور دلائل کے ساتھ نکالنے کے درپے ہوا اور اس میں بے شمار خرافات وہ لایا کہ جن کو کان سننا پسند نہیں کرتے اور طبائع اس سے متنفر ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ وہ جناب حق سبحانہ وتعالیٰ جو کہ ہرعیب ونقص سے پاک ہے اور ہرکمال اور اچھائی کا مستحق ہے کے بارے میں بھی حق سے تجاوز کرگیا اور اُس ذاتِ پاک کی طرف عظام وکبائر کو منسوب کرگیا اور اس کی عظمت کبریائی اور جلالت کی باڑ کو توڑ دیا اور منبروں پر عام لوگوں کے لیئے اس کے خدا کی طرف جہت اور تجسیم وتضلیل کی نسبت کی کہ متقدمین ومتاخرین میں سے کوئی ایک شخص بھی ان کا معتقد نہ ہوا۔ حتی ٰ کہ اس کے خلاف اس کے ہم عصر علماء کھڑے ہوگئے اور سلطانِ وقت کو انہوں نے اس کے قتل یا قید کرنے پر ابھارا پس اُس نے اِس کو قید کردیا۔ یہاں تک کہ وہ اسی قید میں مرا اور یہ بدعت دم توڑگئی اور اس کے ظلمت وگمراہیاں زائل ہوگئیں اورپھر اس کے متبعین کم ہونے لگے ، اللہ تعالیٰ ان کو دوبارہ نہ اٹھنے دے اور نہ ان کو عزت دے بلکہ اللہ نے ان پر ذلت اور مسکنت تھوپ دی اور وہ اللہ کے غضب میں لوٹے بسبب اپنی گمراہی کے کیونکہ وہ حد سے بڑھنے والے تھے۔

ترجمہ ( 3) 
"تنبیہہ!   امام سبکی ؒ نے بعض فضلاء سے کیا ہی اچھی حکایت بیان کی ہے ! اگرچہ اس میں کلا م ہے ، یہ کہ : زیارت قربت ہے اور یہ دین سے ضرورت کے ساتھ معلوم ہے اور جو ا س کے مخالف ہے اس پر کفر کا خوف ہے ۔ (انتھیٰ) پس اس میں غور وفکر کرو تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ ابن تیمیہ اور اس کےمتبعین اور ساتھی کتنی بری چیز لے کر آئے ہیں۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ زیارت قربت و نیکی ہے تو اس کی طرف مجرد سفر بھی نیکی وقربت ہوگا۔ اور یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں  اور یہ مخفی نہیں ماسوائے معاند کے اور جس نے زیارت کے لیئے مجرد سفر کے قربت ہونے میں توقف کیا اور انکار کیا تو لازم ہے کہ وہ زیارت کے قربت ونیکی ہونے میں متوقف ہے۔ یہ تو جان چکا ہے کہ مطلق زیارت کا انکار کفر ہے لہٰذا اس سے بچنا چاہیئے کیونکہ یہ بہت عظیم انکار ہے۔ 

اور اگر تم کہو کہ یہ اس قدر سختی کیوں؟ جبکہ وہ شخص بھی تو صحیح حدیث سے استدلال کررہا ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:

"لا تشد الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد"۔ "تین مساجد کے سوا کسی طرف کجاوے نہ کسے جائیں "۔ 

اور زیارت کے لیئے جانا ان تینوں سے باہر ہے تو چاہیئے کہ اس حدیث کی رو سے وہ بھی منع ہو، تو میں کہتا ہوں کہ حدیث کا معنی وہ نہیں ہے جو کہ اس نے سمجھا ہے جیسا کہ اپنے مقام پر آئے گا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ نہ کجاوے کسے جائیں کسی مسجد کی طرف صرف اس کی تعظیم وعظمت اور نماز کے لیئے ۔ تقرب چاہتے ہوئے سوائے ان تین مساجد کے کہ انہیں کی تعظیم اور تقرب للصلوٰۃ ہے ۔ اس تقریر پریہ مستثنیٰ متصل ہوگا ۔ کیونکہ عرفہ کی طرف مناسک ادا کرنے کے لیئے جانا بالاتفاق واجب ہے۔اسی طریقے سے جہاد میں جانا اور دارالکفر سے ہجرت بھی واجب ہے جب کہ شروط پائی جائیں اور طلب علم سنت یا واجب ہے، اور تجارت کے لیے شدر حال پر اجماع واقع ہے۔ ا س طریقے سے حوائج دنیا اور آخرت کے لیئے شدر حال ہے اور ان سب سے زیادہ مئوکد زیارت قبر شریف ہے تو اولیٰ ہے کہ اس کے لیئے بھی شدرحال جائز ہو۔

اس حدیث کی تاویل پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کی سند حسن ہے اور اس میں اس کی تصریح بھی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
ترجمہ"نمازی کو یہ نہیں چاہیے کہ کسی مسجد کی طرف کجاوے کسے کہ اس میں جا کر نماز پڑھے سوائے مسجد حرام اور میری اس مسجد اور مسجد اقصیٰ کے۔ "

ان تینوں مساجد کے سوا کسی اور کی طرف کجاوے کس کر یعنی قصد کرکے جانے کے بارے میں کئی مذاہب ہیں۔ شیخ ابومحمد الجوینی نے فرمایا کہ منع ہے اور بعض مقامات پر فرمایا کہ مکروہ ہے۔ اور فرمایا کہ بعض اوقات حرام ہے۔ اور حضرت شیخ ابوعلی  نے فرمایا کہ حرام نہیں ہے اور نہ ہی مکروہ ہے۔ بے شک اس سے مراد یہ ہے کہ قربت کا حصول ان تینوں کی طرف کجاوے کسنے میں ہے اور ان تینوں مساجد کے علاوہ کسی مسجد کی طرف کجاوے کسنے میں قربت نہیں ہے۔ 

اور امام سبکی ؒ نے بحث کی ہے کہ اگر اس سے تعظیم مراد ہے تو پہلا قول صحیح ہے اور اگر اس سے تعظیم مراد نہیں ہے تو دوسرا قول صحیح ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ لا تشد الرحال سے مراد کسی ایسی مسجد کی طرف اشارہ ہو کہ اگر وہاں جاکرنماز پڑھی جائے تو اس میں نماز کا زیادہ ثواب ہوگا سوائے ان تین مساجد کے تو بھی کسی اور مسجد کی طرف قصد کرکے جانے کی نفی نہیں ہوگی۔ اگر اس میں زیادتی نماز کے سوا فضیلت ہے جیسا کہ مسجد قباء کہ اس کے لیئے علیحدہ دلیل وارد ہے اور امام سبکی ؒ نے فرمایا کہ یہ تمام کسی معین جگہ کے لیئے ہے یا وہاں جا کر عبادت کرنے کے لیئے قصد کے لیے ہے کہ اس کے ساتھ اس کی تعظیم کا بھی قصد کیا جائے۔ اور اگر بغیر نذر کے اس کا قصد کیا جائے کسی اور غرض کے لیے جیسا کہ زیارت یا اس کی مانند کسی اور کام کے لیے تو کسی ایک نے بھی اس کو حرام یا مکروہ نہیں کہا اور آپ ﷺ کی زیارت کے لیے سفر کی غایت مسجد مدینہ ہے کیونکہ اس کی مجاورت میں آپﷺ کی قبر مبارک ہے۔ 

اور زائر کی غرض اس مسجد شریف میں قبر شریف کے حلول سے تبرک حاصل کرنا ہے اور سلام عرض کرنا ہے اور جوذاتِ مقدسہ اس قبر شریف میں ہے اس کی تعظیم کرنا جیسا کہ اگر کوئی شخص آپﷺ کے وصال سے پہلے آپ ﷺ کی طرف سفر کرتا ہے اور اس میں صرف اس قبر کی معین تعظیم نہیں بلکہ آپ ﷺ کی ذات کی تعظیم ہے۔ 

حاصل کلام یہ ہے کہ سفر سے انہی دونوں حکموں کے ساتھ مشروط ہے ۔ ایک تو یہ کہ ان تینوں مساجد کے علاوہ کسی اور کا قصد کرکے جانا قربت ونیکی کی نیت سے نہ ہو۔ جیسا کہ علم حاصل کرنے کے لیئے یا قریب سے زیارت کے لیئے نہ ہو تب منع ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اس کی علت صرف اس ٹکڑا کی تعظیم کے لیے ہو اور آپ ﷺ کی قبر مبارکہ کی زیارت کا سفر قطعی طور پر اس سے خارج ہے کیونکہ ان تینوں مساجد میں سے کسی ایک کی غایت اور علت اس بقعئہ مبارکہ میں ساکن ﷺ کی تعظیم ہے نہ کہ صرف اس بقعہء مبارک کی۔ پس مطلوب سفر کی دو قسمیں ہوں گی پہلی قسم تو وہی جو کہ ان تینوں مساجد کی طرف سفر کی غایت ہے ،وہی یہاں بھی پائی جاتی ہے۔ اور دوسری قسم یہ کہ سفر عبادت کے لیئے ہو اگرچہ ان تینوں کے علاوہ کسی طرف ہو اور آپ ﷺ کی زیارت کے لیئے سفر میں یہ دونوں قسمیں پائی جاتی ہیں پس یہ طلب کہ اعلیٰ اور افضل ترین اور اکمل ترین درجات میں سے ہے۔



ترجمہ ( 5) ؛

"اور اگر تم کہو کہ امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں فرمایا کہ ان تینوں مساجد کے علاوہ سامان سفر باندھنے میں علماء کا اختلاف  ہے جیسا کہ اولیاء کرام کی قبور کی زیارت کے لیئے اور دیگر متبرک مقامات کی طرف جانا تو امام ابو محمدؒ اس کی حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں اور قاضی عیاض ؒ نے بھی اس کو اختیار کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے اور ہمارے اصحاب کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ نہ تو حرام ہے اور نہ ہی مکروہ ۔ ہمارے علماء نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ صرف انہی تینوں مساجد کی طرف سامان سفر باندھنے کی فضیلت ثابت ہے۔ 

توامام نووی ؒ کی اس عبارت میں خلل ہے کہ انہوں نے کہا ابومحمد نے اس کی حرمت میں فتویٰ  دیا ہے ۔ اور امام نووی ؒ نے ہی شرح مسلم میں اس مقام کے علاوہ دوسری جگہ اور تہذیب المہذب میں ایک مقام پر فرمایا اور ان سے پہلے امام رافعیؒ نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ کہ اگر اس کو صرف مساجد ہی رکھا جائے تو امام ابومحمد کے قول کو اس پر محمول کیا جائے گا اور اگر سفر اغراض صحیحہ کے قصد سے ہو اگرچہ مسجد غیر ثلاثہ اور دیگر امکنہ کی طرف ہو مثلاً زیارت کے لیے  اور طلب علم وغیرہما  کے لییئے ہو تو امام ابو محمد نے اس سلسلہ میں کلام نہیں فرمایا اور نہ ہی اس حرمت وکراہت کے قول کی ان کی طرف نسبت جائز ہے۔ اور اگر انہوں نے یہ کلام واقعی زیارت نبی ﷺ کے لیئے کیا یا کسی اور نے کہا ہے تو ان کا یہ غلط کلام قبول نہ کیا جائے گااور ہم ان کے اس کلام کے غلط ہونے کا ہی حکم دیں گے۔ اور ہم کہیں گے کہ وہ اس حدیث کا مفہوم نہیں سمجھ سکے۔ اور اسی طریقے سے امام قاضی عیاض ؒ کا کلام بھی زیارت النبی ﷺ کے متعلق نہیں ہے۔ نہ تو صراحتاً اور نہ ہی اس میں زیارت موتی  کی نفی کا اشارہ ہے۔ (انتھیٰ بقدر الحاجت)۔ اور پھر فرمایا (سبکی ؒ نے) کہ وہ جو کہ حنابلہ کی کتاب المغنی میں ابن عقیل سے نقل کیا گیا ہے کہ زیارت قبور اور دیگر مشاہد کی طرف نہ تو مباح ہے اور نہ ہی اس کی رخصت ہے کیونکہ رسول اکرمﷺ سے روایت ہے کہ تین مساجد کے سوا کسی بھی مسجد کی طرف سامان سفرنہیں باندھنا چاہیئے تو صحیح یہ ہے کہ زیارت ومشاہدہ قبور جائز ہے اور وجہ ءجواز رسول اللہ ﷺ کا قبا کی طرف پیدل اور سواری پر تشریف لانا ہے اور آپ ﷺ قبور کی زیارت فرمایا کرتے تھے اور قبروں کی زیارت کرنے کا حکم فرمایا کرتے تھے اور بہرحال رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک کہ ان تینوں مساجد کے علاوہ کسی مسجد کے لیئے سامان سفر نہ باندھنا میں فی الحقیقت بات صرف یہ ہے کہ ان تین مسجدوں پر کسی اور مسجد کو فضیلت نہیں اور اسے اسی پر محمول کیا جائے گا ، اس سے دوسری مسجدوں کی زیارت کی حرمت ثابت نہیں ہوتی ۔ (مغنی کا کلام ختم ہوا)۔"


چند اہم باتیں ؛
جیسا کہ آپ نے اوپر پڑھا کہ امام ابن حجر مکی ؒ نے ابن تیمیہ کے اس شرکیہ عقیدہ کا سخت الفاظ میں رد کیا ہے۔ اور اسلاف مستشرقین سے واضح کیا ہے کہ کیا وجوہات تھیں کہ ابن تیمیہ کے خلاف تمام علماء ایک تھے۔ وجہ صاف ظاہر تھی، یہ شخص بدعت کا مرتکب ہوا جب اس نے ایسے نئے نئے عقیدے ایجاد کرلیئے اور ہر بری بدعت ذلالت ہے ۔جیسا کہ امام ابن حجر کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کو علماء کے سامنے بھی پیش کیا گیا جہاں پر اسکی کم علمی اور عقل پر پردے کا پول کھل گیا، اور آخرکار انجام بد ہوا۔

اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ، ابن تیمیہ وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ بدعت سیئہ ایجاد کی، کہ نبی اکرم ﷺ کے روضہ مبارکہ کی طرف سفر کرنا کفر شرک اور بدعت ہے۔ جس کا امید ہے مکمل رد آپ اوپر دھیان سے پڑھ چکے ہیں۔ پھر ایک مقام پر امام ؒ نے اسی ابن تیمیہ کے اللہ کے متعلق تجسیم کے کفریہ اور شرکیہ عقیدہ کی بابت بھی لکھا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ ابن تیمیہ مجسمی وہ پہلا انسان تھا جس نے سیدھے سادھے اسلام میں ابن صبا کی طرح تفریق ڈالی، جس کو اُس کے بعد اُس کے شاگرد یعنی ابن قیم الجوزیہ، اور پھر دورِ حاضر قریب میں ابن وہاب نجدی کی تعلیمات سے فروغ ملا۔ یعنی یہ ثبوت ہے کہ 

1) وہابی /دیوبندی/سلفی/ اہلحدیث ؛ یہ تمام نا م موجودہ دور کے گمراہ فرقوں کے ہیں اور خوارج اور زنادقہ میں شمار ہوتے ہیں۔ 27 جہنمی فرقوں میں گنے جاتے ہیں اور ان کا اصلی اسلام اور سلف الصالحین سے کوئی تعلق نہیں ، اور نہ ہی یہ لوگ اہلسنت وجماعت کا حصہ ہیں، بلکہ یہ منافقانہ طور پر ہم اہلسنت وجماعت کا نام اپنے ابلیسانہ مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

2) ان کے دھرم جدید کی ابتداء ابن تیمیہ سے ہوئی ۔ اس سے پہلے وہابی عقیدوں اور مزارات پر اعتراضات کا کوئی وجود نہ تھا اُمت مسلمہ میں۔
3) مطلق زیارت کا انکار کفر ہے ۔ امام ابن حجر کے اس قول کے مطابق کیا فرقہ وہابیہ اہلحدیثیہ دیوبندیہ ، سلفیہ کافر نہیں؟
4) ابن تیمیہ کو عقل کا اندھا کہنا مطلب صاف ظاہر کرتا ہے کہ سلف اور خلف کے نزدیک یہ گمراہ ہوچکا تھا۔ 

 ا س کے مرنے پر امام ابن حجر ؒ فرمارہے ہیں کہ "وہ اسی قید میں مرا اور یہ بدعت دم توڑ گئی"۔ یعنی ثابت ہوا کہ موجودہ فرقہ وہابیہ جن کے امام نجدی اوردیگر اسی ابن تیمیہ کے مقلد ہیں وہ بھی سب کے سب بدعتی ہیں۔ اسی لیئے شاید یہ لوگ خود کو چھپانے کی خاطر 0041 سو سال سے چلی آرہی امت کو ہی کافر مشرک و بدعتی کہتے ہیں تاکہ لوگوں کا دھیان ان پر نہ جائےکہ اصلی بدعتی تو خود ان کا اپنا ناپاک وجود ہے۔

6) امام صاحب کی بدعا بھی آپ نے پڑھی ، کہ وہ (موجودہ وہابیوں) یعنی (ابن تیمیہ کے غیرمقلد مقلدوں) کے متعلق کہتے ہیں "اللہ تعالیٰ ان کو دوبارہ نہ اٹھنے دے اور نہ ان کو عزت دے بلکہ اللہ نے ان پر ذلت اور مسکنت تھوپ دی اور وہ اللہ کے غضب میں لوٹے بہ سبب اپنی گمراہی کے کیونکہ وہ حد سے بڑھنے والے تھے"

اب اس قول کو ذہن میں رکھ کر وہابیوں کی فطرت کے بارے میں سوچیں ، یہ لوگ کیا حد سے نہیں بڑھتے جب یہ ابن تیمیہ کی تقلید میں تجسیم کا شرک کرتے ہیں؟
کیا یہ لوگ حد سے نہیں بڑھے ہوئے کہ دین میں غلو کرتے ہیں اور توہین کے مرتکب ہوتے ہیں؟
اور کیا امام ابن حجرؒ کی یہ بدعا درست نہیں ثابت ہورہی کہ وہابی جن کے پاس دنیا کے سب سے زیادہ دولت کے خزانے ہیں وہی سب سے زیادہ دنیا میں ذلیل اور رسوا ہورہے ہیں؟ اور امام ابن حجرؒ کا ان کو اور ان کے متبعین یعنی بعد میں فالورز وغیرہ یعنی موجودہ دیوبندی وہابی سامراج کو گمراہ کہنا کی ان کی گمراہیوں کی دلیل نہیں؟ 

یا وہابی کہیں گے کہ اُس وقت بھی کوئی امام احمد رضا بریلوی ؒ ، امام ابن حجر مکی ؒ کے پاس بیٹھ کر اُن کو اہلخبیثوں کی حرکات بتا رہے تھے؟

7) امام ابن حجر کا یہ کہنا کہ جب کسی شخص پر شقاوت غالب ہوجاتی ہے تو وہ ایسی ہی خرافات بکتا ہے۔ اب ہم جب وہابیوں کو کہتے ہیں کہ تم لوگ بکتے ہو۔ تو نیچے سے اوپر تک سلفیوں کو جلاب لگ جاتی ہے کہ ہمارے سے بدتہذیبی سے بات ہورہی ہے۔ او بھائی ، بدتہذیبی تو اُن کے ساتھ ہوتی ہے جن کی کوئی تہذیب ہو۔

8) اجماع امت سے جو بھی ہٹا وہ اہلسنت وجماعت سے ہٹ گیا۔ اب وہ چاہے، جمیعت مودودی ، اہلحدیث، سلفی،وہابی، دیوبندی ، کے نام سے ہو یا ڈائیریکٹ خوارج یعنی (آئی ایس آئی ایس ) سے ہو، چاہے تحریک ظالمان کا گماشتہ ہو، یا دیوبندی کے دھرم کو لے کر چلنے والی اسماعیلی دیوبندیت کی علمبردار سپاہ شیاطین۔ یہ سب کے سب واجب القتل ہیں اور یہ سب کے سب 27 جہنمی گروہوں میں شامل ہیں۔ 

حق صرف وہی ہے جو ہم اہلسنت وجماعت، سنی صوفیائے کرام کا ہے۔ چاہے وہ ، قادری سلسلہ ہو، چشتی ہو، نقشبندی ہو، سہروردی ہو، بریلوی ہو، ان سب کے چونکہ عقیدے ایک ہیں اور وہی عقیدے ہیں جو کہ پرانے چلے آرہے ہیں اسلام میں ، اس لیئے ہم تو اہلسنت ہیں الحمدللہ، لیکن خود کو اہلسنت وجماعت کے نام پر لوگوں کو دھوکا دینے والے ابن تیمیہ کے گمراہ مقلدینِ غیرمقلد پر کیا ثبوت ہے؟

ابن تیمیہ کے وہی عقیدے تم وہابیوں نے اپنے عقیدے بنا کر خود کے خوش رکھنے کو یہ نام رکھ لیئے۔ اب گدھا جتنا بھی رنگ میں رنگ لے وہ زیبرا تو بن نہیں سکتا، جیسے ہی حق کی بارش ہوگی سارا رنگ دھل جائے گا اور بیچ میں سے وہی پرانا (قرن الشیطان) اپنے سینگوں کے ساتھ نمودار ہوجائےگا۔ 

وہابیو! توبہ کرو موت کا کچھ پتہ نہیں۔ توبہ کا دروازہ بند ہونے سے پہلے اپنے عقائد درست کرلو اور اسلام قبول کرلو۔ (احقرالعباد، فقیر ،مجذوب القادری)




for reading notes in proper inpage format click the link given below:

No comments:

Post a Comment