Tuesday 11 November 2014

Translation of a Passage from Imam Abdul-Wahab-Al-Shaaraani (rt)'s Arabic Work

Manuscript: al Yawaqeet al Jawahir
Writer: Imam - Qutub al Rabbani, Sheikh Abdul-wahab-al-Shaarani (rt)
Translation: Urdu / English (courtesy ZH)


انتخاب، از الیواقیت الجوھر، از امام عارف الربانی، قطب شیخ امام عبدالوہاب الشعرانی رحمتہ اللہ علیہ!


ترجمہ اردو:

تیسرا باب : اہل طریقت کی طرف سے عذر


کے بیان میں وہ ایسی گفتگو فرماتے ہیں جو ان کے علاوہ دوسرے کے لیئے پیچیدہ ہوتی ہے:۔

"جان لو اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے! کہ قوم کے لیئے اُمورِ طریقت میں رمز کی دلیل وہ ہے جوکہ بعض احادیث میں روایت کی گئی کہ رسول پاک (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ایک دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "کیا تُو جانتا ہے فلاں دن فلاں دن۔ عرض کی : "جی ہاں" یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے مجھ سے یوم ِ مقادیر کے بارے میں پوچھا ہے۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے ایک دن فرمایا ؛ اے ابوبکر! کیا تجھے معلوم ہے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ عرض کی؛ جی ہاں۔ وہ  وہ ہے، وہ وہ ہے ۔ اسے تاج الدین بن عطاء اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی بعض کتابوں میں حکایت فرمایا"۔ 

شیخ محی الدین رحمتہ اللہ علیہ  کی وضاحت:



"اور شیخ محی الدین رحمتہ اللہ علیہ  نے فتوحات کے 45 ویں باب میں یوں فرمایا ہے ؛ "جا ن لو کہ اہل اللہ نے وہ اشارات جن پر اپنے مابین اصطلاحات رکھی ہیں اپنے لیئے وضع نہیں کیئے کیونکہ وہ تو اس حق میں صریح واقف ہیں ۔ یہ صرف اپنے درمیان داخل ہونے والے کو روکنے کے لیئے وضع کی ہیں حتیٰ کہ وہ اس حال کو نہ پہچان سکے جس پر وہ فائز ہیں۔ اور یہ اس شفقت کے طور پر کرتے ہیں کہ کہیں ایسی چیز سن لے جس تک اس کی رسائی نہیں پس اہل ِ اللہ پر انکار کردے تو اسے اس کی محرومی پر سزا دی جائے پس وہ پھر کبھی اسے نہ پاسکے گا۔ نیز فرماتے ہیں کہ اس راستے میں سب سے عجیب شئے جو کہ اس کے سوا کہیں پائی نہیں جاتی یہ ہے کہ منطقیوں ، نحویوں، اہل ہندسہ وحساب ، علم الکلام والوں اور فلسفیوںمیں سے جو گروہ بھی کسی علم کا حامل ہے ان کی اپنی اصطلاح ہے جسے ان میں داخل ہونے والا نہیں جانتا مگر جب وہ خود اسے واقفیت بخشیں۔ اس کے سوا چارہ نہیں مگر اس راستے والوں کا خصوصیت کے ساتھ یہ حال ہے کہ مرید صادق جب ان کے طریق میں داخل ہوتا ہے جبکہ اسے ان اصطلاح کی کوئی خبر نہیں ہوتی ۔ اور ہم نشینی کرتا ہے اور ان سے مبنی براشارات گفتگو سنتا ہے تو وہ ساری گفتگو سمجھ لیتا ہے گویا اس اصطلاح کا وضع کرنے والا وہی ہے اور وہ اس علم میں گفتگو میں ان کے ساتھ شریک ہوجاتا ہے۔ اور وہ اپنی طرف سے اس میں اجنبیت محسوس نہیں کرتا، بلکہ اس کا علم ضروری پاتا ہے۔ اسے روک نہیں سکتا۔ گویا وہ اسے شروع سے ہی جانتا ہے۔ اور نہیں جانتا کہ اسے علم کیسے حاصل ہوا۔ یہ مریدِ صادق کی شان ہے۔ رہا کاذب تو وہ واقفیت دلائے بغیر اسے نہیں پہچان سکتا۔ اور اس کے اخلاص فی الارادہ اور اس کی طلب کے بغیر قوم میں سے کوئی بھی اس پر سخاوت نہیں کرتا"۔ (یعنی علم سے نہیں نوازا جاتا)

"اور ہر دو ر میں علماء ظاہر قوم (یعنی صوفیاء) کی کلام وفہم میں توقف کرتے رہے (یعنی احتیاط، یعنی کفر شرک  کے فتوے سے پرہیز)۔ اور امام احمد بن سریج ایک دن جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ ان کی کلام سے آپ کیا سمجھے؟ فرمایا؛ معلوم نہیں ! لیکن ان کی گفتگو کا رعب دل میں ظاہر پاتا ہوں۔ جو کہ باطنی عمل اور ضمیر کے اخلاص پر دلالت کرتا ہے۔ اور ان کا کلام کسی باطل پرست کا کلام نہیں ۔ انتہی۔ 

"پھر یہ حضرات اشارہ کے ساتھ صرف اس وقت بات کرتے ہیں جب ان کے پاس وہ شخص حاضر ہو جو ان میں سے نہیں یا ان کی تالیف میں ہو۔ پھر فرمایا؛ مخفی نہ رہے کہ باطل پرست دشمن کا انکار اصل میں صرف حسد کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ اور اگر یہ منکر حسد ترک کردیتے اور اہل اللہ کے راستے پر چلتے تو ان سے کوئی انکار ظاہر ہوتا نہ حسد ۔ اور اُن کے علم کے ساتھ ساتھ اِن کا علم بھی زیادہ ہوتا۔لیکن یہ ایک امر مقدر تھا۔ فلاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم۔ اور اس بارے میں طویل کلام فرمایا۔"

"پھر فرمایا کہ عطیہء الٰہی کے علم والوں کے شدید دشمن ہردور میں بے ادب اہل جدال ہیں۔ اور ان پر یہی لوگ شدید انکار کرنے والے ہیں۔ اور جب عارفین نے یہ امر پہچانا تو اشارات کی طرف پھر گئے جیسے افک و الحاد والوں کی وجہ سے حضرت مریم علیہم السلام اشارہ کی طرف پھر گئیں۔ پس ان کے نزدیک ہر آیت یا حدیث کی دو وجہیں ہیں۔ ایک وجہ جسے وہ اپنے آپ میں دیکھتے ہیں اور ایک وجہ اس میں دیکھتے ہیں جو کچھ ان سے خارج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ سنریھم آیاتنا فی الآفاق وفی انفسھم (حٰم سجدہ ؛ آیت 35)  ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں اور ان کے نفسوں میں دکھائیں گے"۔ پس یہ حضرات جوکچھ اپنے آپ میں دیکھتے ہیں اسے اشارہ کا نام دیتے ہیں۔ تاکہ منکرین ان پر مانوس ہوں اور یہ نہ کہیں کہ یہ اس آیت کی یا حدیث کی تفسیر ہے۔ اور ایسا ان کے شر سے اور فتویٰء کفر سے بچنے کے لیئے کرتے ہیں کہ تہمت ِ کفر لگانے والے خطاب ِ حق کے مواقع سے جاہل ہیں۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے اسلاف کی سنتوں کی پیروی کی ہے۔

بے شک اللہ تعالیٰ قادر تھا کہ اہل اللہ وغیرہم ، نے جن مسائل کو تاویلاً بیان کیا ہے اپنی کتا ب میں آیات متشابہات اوراوائل سورہ کی طرح نصاب میں بیان فرما دیتا۔ اس کے باوجود ایسا نہیں کیا بلکہ ان کلمات و حروف ِ الٰہیہ میں ایسے مخصوص علوم درج فرما دیئے جنہیں اس کے صرف منتخب بندے ہی جانتے ہیں۔" 


منکرین کو دعوت انصاف:

"اور اگر منکرین انصاف کرتے تو اپنے آپ میں عبرت حاصل کرتے جب وہ ظاہری آنکھ سے آیت میں نظر کرتے ہیں جسے وہ اپنے مابین تسلیم کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ اس میں ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں اور اس آیت کے معنوں میں کلام اور فہم میں ان کا بعض ، دوسروں پر فائق ہے۔ اور ان میں سے جو غیر قاصر کی فضیلت کا اقرار کرتا ہے ۔ اور سب ایک ہی نہج پر ہیں۔ اور اپنے مابین مشہور باہمی فضیلت کے باوجود جب اہل اللہ کوئی ایسی چیز لاتے ہیں جو ان کے ادراک سے گہری ہے تو ان پر انکار کرتے ہیں۔"

اہل اللہ کے متعلق منکرین کا غلط عقیدہ:

"اور یہ سب کچھ اس لیئے کہ وہ اہل اللہ کے بارے میں عقیدہ ہی نہیں رکھتے کہ انہیں شریعت کا علم ہے اور انہیں جہالت اور گمراہی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ علی الخصوص اگر انہوں نے علماء ظاہر سے نہیں پڑھا۔ اور یہ لوگ اکثر کہتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس علم کہاں سے آیاکہ ان کا عقیدہ ہے کہ علم کسی تک نہیں پہنچتا مگر کسی معلم کے ذریعے۔ اور وہ اس میں سچے ہیں، کیونکہ قوم ِ صوفیاء نے جب اپنے علم پر عمل کیا توانہیں اللہ تعالیٰ نے اعلام ربانی کے ساتھ اپنی طرف سے علم عطا فرمایا جسے ان کے دلوں میں شریعت کے عین مطابق نازل فرمایا۔ ایک ذرے کے برابر بھی اس سے باہر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نےفرمایا؛ خلق الانسان علمہ البیان۔ (الرحمٰن) ۔ انسان کو پیدا فرمایا، اسے بیان سکھایا۔ نیز فرمایا علم الانسان مالم یعلم ۔ انسان کو وہ کچھ پڑھایا جو نہیں جانتا تھا۔اور  اپنے بندے حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق فرمایا ۔ وعلمناہ من لدنا علما۔ اور ہم نے اسے اپنے ہاں سے علم پڑھایا تو منکرین نے اپنے قول میں سچ بولا کہ علم صرف معلم کے واسطے سے ہی ہوتا ہے۔ اور اپنے عقیدے میں غلطی کرگئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نہیں پڑھایا،جو نبی ہے نہ رسول ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (یؤت الحکمتہ من یشاء (البقرۃ آیت 962)) جسے چاہے حکمت عطا فرماتا ہے۔ اور حکمت ہی علم ہے۔ اور یہاں من لایا گیا جو کہ نکرہ ہے۔ لیکن ان منکروں نے جب دنیا میں بے رغبتی ترک کردی اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دی جو کہ اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کرتی ہے اور علم کتابوں اور لوگوں کے مونہوں سے حاصل کرنے کی عادت بنا لی تو انہیں یہ جاننے سے حجاب میں کردیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے ہیں جن کے سرائر میں ان کی تعلیم کا وہ خود متولی ہے،کیونکہ پورے موجودات کا معلم حقیقی وہی ہے اور اس کا علم ہی علم ِ صحیح ہے جس کے کمال میں مومن اور غیر مومن شک نہیں کرتے۔کیونکہ جن لوگوں نے پہلے یہ قول کیا کہ حق تعالیٰ کا علم جزئیات کے ساتھ متعلق نہیں انہوں نے جزئیات کے ساتھ علم الٰہی کی نفی کا ارادہ نہیں کیا۔ ان کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ حق تعالیٰ تمام اشیاء کلیات وجزئیات کو علم واحد کے طور پر جانتا ہے پس اپنے علم بالجزئیات کے لیئے جزئیات کی تفصیل کی ضرورت نہیں جیسے کہ یہ مخلوق کے علم کا حال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے ۔ پس انہوں نے اس کے علم کی تفصیل پر موقوف ہونے سے تنزیہہ کا ارادہ کیا۔ پس ان لوگوں نے تعبیر میں غلطی کی۔ پس معلوم ہوا کہ جس کا معلم اللہ تعالیٰ ہو ۔ وہ پیروی کا اس شخص سے زیادہ مستحق ہے جس کا معلم اس کا فکر ہو۔ لیکن انصاف کہاں؟ اور اس میں طویل کلام فرمایا۔"

آخری بات:


جیسا کہ آپ نے پڑھا کہ امام عبدالوہاب الشعرانی رحمتہ اللہ علیہ ، امام قطب ربانی حضرت محی الدین ابن العربی رحمتہ اللہ علیہ کے فرمودات کا اپنی کتا ب میں ذکر کررہے ہیں کہ جو شانِ اولیاء کے بارے میں ہے۔ اور اس میں منکرینِ کرامات ِ اولیاء اور وہ لوگ جو ان کے خلاف شکوک و شبہات کا شکار ہوتے ہیں اور جن کے دماغوں میں اپنے کہے مولوی کے ہی الفاظ پھرتےہیں وہ سیدی کے قول کے مطابق ظاہری ہیں۔ اور ان کے سارے سوالات کے جوابات قطب ربانی ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کے ان فرمودات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ دراصل، منکرین خود اس علم کے اہل ہی نہیں ہیں۔ مثل مشہور ہے، برتن میں جتنی گنجائش ہوتی ہے اُس میں اتنا ہی پانی ڈالا جاسکتا ہے۔ ہمیں اللہ رب العزت سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں ان فرمودات وارشادات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور بے دین فرقوں سے دوری عطا کرے۔ بجاہ النبی آمین۔

(ترجمہ ؛ مجذوب القادری)
(کمپوزنگ، انگریزی رف ٹرانسلیشن، زیڈ کے آفریدی)
برائے مکاشفہ ورڈ پریس ڈاٹ کام۔



For Reading it in Proper Urdu Fonts and English Translation Please Visit My Regular Site by Clicking here!

No comments:

Post a Comment