Sunday 22 February 2015

Sultan Salah-ud-deen Ayubi Was a Sunni and a Sufi

Summary of the events of 583-to-84 H:

"....and nearby Gumbad- al Sakhra the Sultan removed all wrong things like pictures and crosses, and washed it (purify) it from impurities, and asked Faqih Essa al Hakaari to make an iron fence surrounding it, and appoint an Imam with salary, and make more supplies to him, and such likewise he did for Imam of al-aqsa, and then he made a Maddrassa (School) which is known as Al-Salaheeyah and also called as al-Naasariyah, because there was a Church, attributed to the mother of Holy Mary, 'Hannah' and that was on the grave of her. He (sultan) make a Khanqah (Place where Sufis used to do Dikhr of Allah) and gifted it which was for the seek of al-Tabbaruk (Blessings)



  The Mihrab of Dawud outside al-Aqsa Masjid was in an insurmountable fort within the city, in a lofty rank and it was the fort where the ruler lived. The Sultan appointed an Imam, two muezzins, and a supervisor for it. It became a resort for the righteous and a shrine for all people. Then he issued orders for the maintenance of Masajids and religious shrines. This Mihrab was the abode of Dawud and Sulayman (peace be upon them). The Sultan assembled the jurisprudents, (Fuqaha) the righteous men of knowledge, and the pious to seek their opinion concerning constructing a School of the Shafi'e Madh-hab and a hospice for pious Sufis.


  Points to Remember:


  1) Shrines and Holy Places in the History of Islam was never destroyed even if it was shrines of Non-Muslims.


  2) It was certainly not Shirk Polytheism, because if it was then Mujahid-e-Kabeer Sultan Salah-UD-Deen Ayubi (rta) would never do that.


  3) This proves the fact that, Sultan was himself a Sufi and Tareeqat was never considered polytheism in Islam before emergence of Wahhabism.


  4) Establishing Maddrassa, school of Shafi'e School of Thought shows that all Muslims were and are Muqallads (Followers of any one of the Imams among 4 school of thoughts in Islam).


 5) In another place in the same book its written that, he used to visit holy places as well as visited Shrine of Prophet Shuaib (alehisalatowasalam).   Thus visiting these places shows that previous Muslims also consider them worth to be visited for the sake of Allah's blessings and was never considered polytheism until Ibnu Taymmia was the one who started this fever which is still been carried out by Khawarij al-Wahhabiyyah. And these are not new beliefs which were invented later.



The same kind of information is been given by another famous most Historian and Muhadith al Imam Shayban (aka) Ibne Aseer (rta) in his famous work Al-Tareekh al Kaamil Vol 9 - page 214-15 Published by Darul kitabul Arabi - Beirut Lebanon. 


(Events of 584 A. H (1188 A.C.) Al Bidaya Wan Nihaya - Tarikh Ibne Kathir Vol 16 Pages 593/94)


Urdu:
ابن کثیر لکھتےہیں:


اور صخرہ معظمہ کے اردگردسے سلطان نے بری چیزوں تصاویر اور صلیبوں کو ہٹا دیا، اور اسے مردار ہونے کےبعد پاک کیا اور اسے مستور ہونے کے بعد ظاہر کیا، اور فقیہ عیسیٰ الہکاری کوحکم دیا کہ وہ اس کے اردگرد آہنی کھڑکیاں بنائے اور اس کے لیئے تنخواہ دار امام مقرار کیا اور اس کے لیئے اچھی رسد جاری کی، اور اسی طرح اقصیٰ کے امام کا بھی ھال تھا اور اس نے شافعیہ کے لیئے ایک مدرسہ تعمیر کیا جسے الصلاحیہ کہاجاتا ہے اور الناصریہ بھی بتایا جاتا ہے اور اس کی جگہ ایک گرجا تھا ،جو حضرت مریم کی والدہ حنہ کی قبر پر تھا، اور اس نے صوفیاء کے لیئے ایک خانقاہ وقف کی جو التبرک کی تھی۔۔۔۔۔۔۔


یعنی معلوم ہوا کہ ابن تیمیہ کی پیدائش سے پہلے کے مسلمان سب کے سب مقلد بھی تھے اور صوفیاء بھی تھے، ان کو آجکل کے دور کی طرح کسی دیوبندی وہابی نے بریلوی نہیں کہا تھا۔ نہ ہی سلطان صلاح الدین نے تاریخی مقامات کو منہدم کیا۔ اسی التاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ نے سیدنا شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روضہ مبارک کی بھی زیارت کی۔اب اگر زیارتِ مزارات حرام ہوتا تو کیا مجاہدِ اسلام سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ جو کہ خود ایک صوفی بھی تھے وہ کیا یہ شرک کرتے؟ یہ سوال ہر ایک کے سوچنے کے لیئے ہے۔


قریباً یہی سب کچھ امام ابن اثیر کی مشہور الکامل فی التاریخ جسکو تاریخ ابن اثیر بھی کہا جاتا ہے اس کی جلد 9 صفحات 214 اور 215 طبع شدہ دار الکتاب العربی بیروت لبنان پر بھی موجود ہے


حوالہ؛ البدایۃ والنہاٰیۃ ۔ للامام ابن کثیر ۔ جلد ۱۶ ص ۵۹۳، ۵۹۴.جز السادس عشر. طباعت. هجر للطباعۀ والنشر والتوزيع


Pashto:
امام ابن کثير په خپل تاريخ البدايه والنهايته کي لوستونکے دے


او..ګنبد صخره تر آړه غاړه سلطان هر بد شئے او صليبونه لري کړل، او پس له مردارئي ئي دغه ځائے پاک کړو،او دې مستورکيدو نه پس له ئي ظاهر کړ، او فقيه عيسي الهکاري له ئي حکم ورکړو چه دِ دغه څلور اطرافه دَ اوسپني کړکئ جوړئ کړئ شي اور دې له پاره ئي تنخواه دار امام هم مقرر کړو اور بيا ئي ورته خه رسد انتظام هم وکړ، هم دغه حال دَ مسجد اقصي امام له پاره هم وو.او هغئ يعني سلطان صلاح الدين ايوبي صاحب يوه شافعي مدرسه هم تعمير کړه چه څه ته الصلاحيه په نوم نوميګي او ورته الناصريه هم وئيلي کيږي .ځکه چه په دئ ځائ کښ به يوه ګرجا وا، چه کمه دې سيدتنا مريم عليه السلام دَ مور (حنه) په قبر باندے سازه وه.او سلطان صوفيائے کرامو له پاره يوه خانقاه هم وقف کړه.

يعني معلوم دغه شوه چه دې ابن تيميه دَ پيدائش نه وړاندے اور دې ديوبندو و وهابيانو نوے اسلام نه وړاندے ټول مسلمانان مقلد هم وو او ورڅره ورڅره صوفيان هم وو. که صوفيان مشرکان وو يا تقليد حرام وو نو بيا به چرے هم مجاهد اسلام سلطان صلاح الدين ايوبي به دغه عمل نه کولو، نن وهابيان سنيانو ته تقليد په وجه کافر وائي اور صوفيانو ته مشرکان وائي حالانکه سلطان خپله هم صوفي وو. په هم دغه جلد ۱۶ کښ دا هم ليکلي شوي دي چه سلطان دې سيدنا شعيب عليه السلام مزار مبارک يعني روضه مبارکه لره زيارت له هم حاضر شوے وو. نو معلوم دا شوه چه زيارتونو لره تګ عين اجماع امت دے


دې سلطان صلاح الدين ايوبي رضي الله عنه تر هقله دغه قسم معلومات ده يو بل مشهور امام َ تاريخ او محدث امام ابن اثير هم په خپل مشهور تصنيف التاريخ الکامل جلد ۹ پانړه ۲۱۴،او ۲۱۵ ، چاپ دې دارالکتاب العربي بيروت لبنان کښ هم لوستونکي شوے دے چه دَ څه نه معلوميږي چه سلطان ِاعظم مجاهد اسلام صلاح الدين ايوبي نه صرف دا چه مقلد وو بلکه مشهور صوفي هم وو


حواله ؛ تاريخ ابن کثير، البدايۀ والنهايۀ، جلد ۱۶ پانړه ۵۹۳/۹۴، طباعت هجر للتوزيع والطباعۀ.جيزه

Research  Imran A. Malik
Pashto Translation and Rechecking  ZarbeHaq


Scans:


Scans:



End.

Thursday 19 February 2015

Hadith of Zaid bin Khaarjah (Urdu)



  Unicode:

زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ:

زیدبن خارجہ تابعی تھے جن کا انتقال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے چوتھے سال ہوا، آپ کا جنازہ پڑا ہے کہ اچانک بولنے کی آواز آئی، لوگوں نے ادھر ادھر دیکھا تو معلوم ہوا کہ زید بن خارجہ بول رہے ہیں ، وہ کیا بول رہے تھے؟ فرمارہے تھے۔

احمد فی الکتاب الاول۔۔۔۔ ،،،،،،،،ترجمہ:

"ارے احمد کا کیا کہنا وہ تو کتاب اول میں احمد مصطفیٰ ہیں اور ابوبکر صدیق کا کیا کہنا وہ تو کتاب اول (یعنی انجیل دیکھئے سکینز) میں ابوبکر صدیق ہیں اور عمر کا کیا کہنا وہ تو کتاب اول میں عمرفاروق ہیں، اس کے بعد فرماتے ہیں، "چاربرس گزر چکے ہیں اور دوبرس باقی ہیں، تمہیں پتہ چل جائے گا

لوگ اس بات کو نہ سمجھ سکے کیونکہ ان کا تعلق آنے والے واقعہ سے تھا، چنانچہ چاربرس گزرچکے تھے اور دو برس بعد یہ ہوا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سرکار علیہ االصلوٰۃ والسلام کی سنت کی یاد تازہ کرنے کے لیئے بئر عریض میں پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے، حضرت مسیب رضی اللہ عنہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زامنہ اقدس سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک انگوٹھی برداررہے، انگوٹھی حضرت عثمان غنی کو دیتے یا لیتے وقت کنوئیں میں گرگئی، تو پھر کیا ہوا؟ فتنوں کے دروازےایسے کھل گئے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت انہیں فتنوں کا نتیجہ ہوئی، دراصل وہ انگوٹھی آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی، آپ کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کےب عد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس، فاروقِ اعظم کے بعد عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس، توپتہ چلا کہ سارا نظام اس انگوٹھی کا صدقہ تھا، کیونکہ انگوٹھی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی مبارک سےمس ہوئی تھی، جب کنویں میں گرگئی تو خلاء پیدا ہوگیا، جب خلاء پیدا ہوگیا تو فتنوں کے دروازے کھل گئے، خلافت کے آخری چھ سال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نہایت پریشانی میں گزرے ، حتیٰ کہ شہید کردیئے گئے۔

اب دیکھئے کہ زید بن خارجہ بولے اور علم کی بات بتائی، جو دنیا والوں کو معلوم نہ تھی، کسی کو بھی پتہ نہ تھا کہ دو سال بعد کیا ہونے والا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہیں، آپ کے غلام مرنے کے بعد غیب کی خبر دے رہے ہیں ، زید بن خارجہ کلام بھی فرما رہے ہیں اور غیب کی خبر بھی دے رہے ہیں، مرنے کے بعد کلام فرمانا حیاتِ حقیقت کی دلیل ہے، تو جن کے غلاموں کے مرنے کے بعد حیات کا یہ عالم ہے کہ مرنے کے بعد غیب کی خبر دے رہے ہیںاُن کے آقا کی حیات کا کیا عالم ہوگا۔ حوالہ جات:

یہ واقعہ ان کتب میں بیان ہوا ہے۔ ازالۃ الخفاء ، از محدث شاہ ولی اللہ دہلوی (مترجم) جلد چہارم، ص 99، 100 جلد دوئم ، فصل ہشتم ، ص 530درفضیلت شیخین البدایہ والنہایہ ، جل 6، ص 292 تاریخ الکبیر،امام بخاری۔امام حاکم کی مستدرک میں اور بیہقی کی دلائل النبوت میں ۔

Tuesday 10 February 2015

Al Hakeem Tirmidhi Was Also a Sufi Shaikh as Well

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اسلامی بھائیو اور بہنو! السلام علیکم !۔

دورجدید کے جدید فرقے اکثر عوام کو یہ دھوکہ دیتے نظر آتے ہیں کہ (صوفیائے کرام) اسلام یا خیرا لقرون یا سلف الصالحین وغیرہ کے بعد آئے، جو کہ سراسر جھوٹ بددیانتی اور کذب میں آتا ہے کیونکہ، اسی بلاگ پر مختلف آرٹیکلز میں ہم یہ بمع ثبوت ثابت کرچکے ہیں کہ تمام تر محدثین سلف الصالحین، اور خاص طور پر صحاح ستہ کے تمام فاضل مشہور محدیثین جیسے سیدنا امام بخاری ، امام مسلم ، ابن ماجہ، ابی داؤد ، ترمذی وغیرہ سب کے سب مقلد بھی تھے آج آپ کی خدمت میں ایک اور معلومات پیش خدمت ہے جس سے آپ پر واضح ہوجائے گا کہ سلف الصالحین خود بھی صوفیاء تھے۔

الامام ابی عبداللہ محمد بن علی بن الحسن بن بشر المعروف بالحکیم ترمذی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ جو کہ پڑھنے لکھنے والے قارئین کے لیئے کوئی گمنام شخصیت نہیں ہیں۔ دارالکتب العلمیہ بیروت سے شائع شدہ ان کی مشہور تصنیف جس پر 5 سے زیادہ علماء عرب نے بطور محقق تحقیق کرکے (الاحتیاطات) شائع کی جو کہ حکیم ترمذی کی تصوف سے متعلق ایک مایہ ناز تصنیف ہے ۔ انشاء اللہ اگلی کسی پوسٹ میں اس کے مندرجات بھی پیش کروں گا۔ یہاں فی الحال حکیم ترمذی کا تعارف خود مخالفینِ تصوف کے ادارے سے پیش خدمت ہے۔



مقدمہ میں امام ترمذی کو محدث کے ساتھ ساتھ (صوفی) بھی لکھا ہے جو کہ آپ نیچے دیئے گئے عکس میں پڑھ سکتے ہیں۔ 


نیز مزید تعارف صفحہ 12 پر دیا گیا ہے جس کی آخری لائین کو کلر فینس دیا گیا ہے۔ جس میں صاف پڑھا جاسکتا ہے کہ اس دور میں ان کا تصوف میں سلسلہ کا نام (حکیمیہ ) تھا۔حوالہ کے طور پر امام علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش سرکار رحمتہ اللہ علیہ کی مشہور کشف المحجوب کا حوالہ دیا گیا ہے۔عکس صفحہ 12 دیکھیئے 



یعنی ثابت ہوا کہ اتنے بڑے محدثین بھی نہ صرف یہ کہ مقلد تھے جیسا کہ اسی بلاگ پر ہم نے ثبوتوں کے ساتھ حوالہ جات کے عکس دیئے ہیں جو کہ آپ یہاں سے ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

امام بخاری، ابی داؤد سب مقلد تھے کلک کریں۔

مزید ثبوت کہ حکیم ترمذی (رح) صوفی بھی تھے، نہ صرف یہ بلکہ ان کے صوفی شیوخ کا بھی تعارف دیا گیا ہے جو کہ آپ نیچے دیئے گئے عکسوں میں دیکھ سکتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے نہ صرف علم الحدیث ان سے حاصل کی بلکہ باقائدہ پیری مریدی بھی کی۔



یہاں تک تو تھا تعارف آپ کے شیوخ کا جو کہ آپ عربی سکینز میں دیکھ سکتے ہیں کہ اُن میں سے بیشتر صوفیاء کرام تھے اور یہ نہیں کہ کوئی انجانے بلکہ مشہور ومعروف محدثین تھے جن کی ثقاہت کی دلیل خود ان کے ہی محققین نے نیچے دیئے ہوئے حوالہ جات میں دی ہے۔ جرح وتعدیل کے ساتھ ساتھ۔اب یہاں سے آگے اسی کتاب میں اب حکیم ترمذی کے تلامذہ یعنی شاگردوں  کا بھی ذکر خیر ہورہا ہے جس میں سے اکثر نہ صرف آپ سکینز میں دیکھ سکیں گے حوالہ جات کے ساتھ کہ وہ صوفی تھے بلکہ اپنے اپنے وقت کے عظیم مشائخ سے درس و تدریس اور مجالس یعنی اُن کے حلقوں میں اٹھنا بیٹھنا بھی رکھتے تھے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ان کے تمام ترشاگرد بھی مشہور ترین محدثین ہیں اور جنکی ثقاہت بھی اسی جگہ پر دی گئی ہے



جیسے کہ آپ نے صفحہ نمبر 21 پر پڑھا کہ شیخ کے تمام مریدین بھی زہد میں مشہور ومعروف قرار ٹھہرے۔ اور یہ سب افراد اور ان کا ذکر تاریخ و رجال کی کتب میں موجود ہے۔جس میں سے چند کے حوالے اسی کتاب کے محققین نے صفحات کے ساتھ ساتھ دیئے ہیں۔

حکیم ترمذی کے شیوخ میں اباتراب النخشبی، احمد بن خضرویہ ،اوراحمد بن الجلاء جیسے صدوق محدثین کا بھی ذکر ہے جو آپ نے گزشتہ صفحات میں پڑھا اور جن کو کلر لائینز سے مارک کیا گیاہے۔ یہ شیوخ ناصرف محدثین تھے بلکہ صوفی شیوخ بھی تھے اور پھر جیسے کہ ان کے شاگردوں کا ذکر ہے۔جن کا علمی درسی حلقہ ، شیخ جنید بغدادی، شیخ سری سقطی، شیخ الکرخی وغیرہم سے جاکر ملتا ہے جو کہ مایہ ناز اولیائے کرام ہونے کے ساتھ ساتھ علم الاسلام کے عظیم ترین محدثین، مفکرین سلف بھی ہیں۔

صفحہ 25 پر محنتہ الحکیم ترمذی کے عنوان کے ماتحت ابوعبدالرحمٰن السلمی سے روایت بھی لکھی گئی ہے کہ اہل ترمذ نے اُس دور میں بھی ان کی دو کتابوں علل الشریعتہ اور ختم الاولیاء کی وجہ سے ان پر کفر ارتداد کا الزام لگا کرشہر بدر کردیا گیا جسکی وجہ سے وہ بلخ جاکر رہنے لگے۔یعنی ثابت ہوا کہ صوفی کوئی نئے لوگ نہیں بلکہ یہی اصلی اسلام کے علمبردار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاک گھرانے اور پاک صحابہ سے علم وفضل حاصل کرنے والے شیوخ کے ہی متبدی ہیں۔ یہ الزام بالکل من گھڑت اور جھوٹ ہے جو کہ بعض حدیث حدیث کے نام پر چلانے والے لگاتے ہیں۔ تصوف اسلام کی روح ہے اور روح کو منفی کرکے جسم میں حرکت کی توقع صرف بیوقوفی ہے۔ سلف الصالحین تو بعد کی بات ہے،صوفیائے کرام تو اسلام بلکہ دین ابراہیمی کے وقت سے ہی موجود ہیں۔ جیسے کہ مثال کے طور پر سیدنا خضر علیہ السلام،اور موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ۔ پھر جب دین مکمل کردیا گیا یعنی اسلام دنیا میں آگیا تو یہی تصوف اسلام کی روح بنا اور انسان کے لیے دینی راہ پر چلتے ہوئے اپنی روح کو منور کرنے کی سنت ہمیں جا بہ جا ملتی ہے مثال کے طور پر سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ ۔ لہٰذا یہ کہنا بالکل ہی فاسد مکروہ بیہودہ شرمناک جھوٹ اور لاعلمی سے زیادہ کچھ نہیں کہ صوفی بعد کی پیداوار ہیں۔ مخالفین کو کم سے کم اپنے مکتبوں کی چھاپی کتب کا تو مطالعہ کرلینا چاہیئے۔ عکس پیش خدمت ہے۔



واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ۔ملک عمران اکبر (مجذوب القادری)۔

English Summary:


Famous Muhadith Syaduna Imam Abi Abdullah Muhammad bin Ali bin al Hassan bin Bishr (aka) Hakeem Tirmidhi (Rd) was not only Muhadith and Imam but also was a Sufi. This is been written in the scans as you can see and check above. This is book of Imam Hakeem Tirmizi al-Sufi and the name of the book is (al-Ehtiya’taat) published by famous Darul kutub al Elmiya Beirut Lebanon. In the Muqaddima of the book its been written clearly on page 11 that , he was a Sufi, also further information is been given that his Silsila (order) was (al-Hakeemiya) on page 12 of the same page. Remember this book is been check and written by 5 dominant scholars of Darul Kutub al Elmiya. On pages 13 -to- 18 the Shayukh of Hakeem Tirmizi (rta) is been mentioned and among them several names which are written are most famous Scholars of Hadith as well as most famous Sufis of their times. E.g 
Yaqoob al DaowrqiSufiyan bin WaqeeAba Turab al Nakhshabi,Ahmed bin Khazroya and Ahmed bin Al-Jila. These all most all are the famous Shayukh of Hadith as well as Tassawuf (Tareeqat/Sufism). Many among them are from Khurasan and Balkh also from Tirmiz City.
Then from pages 18 to 21 his (Tirmizi’s) Students are mentioned. Those are also not unknown personalities but rather they are utmost famous scholars of Jurisprudence and hadith sciences as well as its also written that, they were opt to take classes from most famous gnostics like Shyaikh Junaid al-Baghdadi (rt), Shyaikh Siri al-SiqtiSheikh al-Kharkh , Haatim al As’am etc etc. Those all are the most glorious names of Islamic history regarding Islamic teachings as well as spirituality and tassawuf. On the same page 21 its also been proven that, this was not only one person’s choice type of thing in regard to Hakeem Tirmiz, but this is a continous chain like, he studied from Sufi Syuokhs, who were also muhaditheen of ‘Saddooq‘ level. (the utmost authentic). and then his followers i.e., Hakeem Tirmidhi’s students also use to follow the same of their Teacher Hakeem Tirmizi and they use to carry out this. This same thing is to be known as (Peeri-Mureedi). [Which is interestingly called polytheism from the so called followers of salaf i.e., Deobandism-Wahhabism and their sects like (chakralvis, thanvis, gangohis, ismaeel dhlawis, ahle hadith etc etc) by the way.]
On page 25 under the title of Mahnatal Hakeem al Tirmidhi (Work Struggle of Hakeem Tirmiz) it is narrated through famous scholar of hadith Abu AbdiRehman al Selmi, that people of Tirmiz accused his of polytheism, because of his two books which he wrote, (1) Kitab Khatm al Vilayata, and (2) Kitab Elal al Sharee’a. and then further details are been given that, because those people were not comprehend to understand his work thats why they accused him of this, and so do he left the city and get his way towards Balkh for residence in his last age.
Allah and His Apostle Knows best!
Imran Akbar Malik (Majzoob al Qadri)