Monday, 27 April 2015

Imam Taj-ud-deen Suboki Refutation to Ibne Taymmiya Translation Urdu Chp 4

ترجمہ؛ باب الرابع ، 


قاضی عیاض مالکی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ قبرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مسلمانوں میں مجمع علیہ سنت ہے۔ اور اس کی فضیلت پسندیدہ چیز ہے۔ قاضی ابو الطیب نے فرمایا حج اور عمرہ کے بعد قبر النبی کی زیارت کرنا مستحب ہے۔ محالی نے (تجرید) میں فرمایا حاجی کے لیئے مستحب ہے کہ حج سے فارغ ہونےکے بعد وہ قبرالنبی کی زیارت کرے۔ ابو عبداللہ الحسین الحلیمی نے اپنی کتاب (المنہاج) میں فرمایا۔ آنحضور کی زندگی میں تو ان کی تعظیم کے طریقے وہ تھے جو صحابہ کرام نے اختیار کیئے اب ان کی تعظیم کا طریقہ یہی ہے کہ قبر کی زیارت کی جائے۔ ماوردی نے (الحادی) میں فرمایا، آنحضور کی قبر کی زیارت کا حکم ہے اور وہ مستحب ہے۔ ماوردی نے (الاحکامُ السلطانیہ) میں حاجیوں پر والی مقرر کرنے کے سلسلے میں فرمایا متولی کے لیئے شرط ہے کہ وہ مطاع، ذی رائے، شجاع ہو اور دیگر شرائط کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا۔ جب لوگ حج کرچکیں تو ان کو کچھ مہلت دے اور جب واپس ہوں تو ان کو مدینہ طیبہ والے راستہ سے واپس لے کر لوٹے تاکہ ان کو حج کے ساتھ قبرالنبی کی بھی زیارت حاصل ہوجائے۔ اور یہ اگر حج کے ارکان میں سے نہیں ہے لیکن شرعی مستحبات میں سے ہے اور حاجیوں کی اچھی عادتوں میں سے ہے۔ 


صاحب (المہذب) نے فرمایا قبر النبی کی زیارت مستحب ہے القاضی حسین نے فرمایا جب حج سے فارغ ہو تو سنت ہے کہ ملتزم کے پاس کھڑا ہوکر دعا کرے پھر زمزم پیئے پھر مدینہ آئے اور حضور کی قبر کی زیارت کرے۔ رؤیانی نے کہا جب حج سے فارغ ہوجائے تو مستحب ہے کہ قبرالنبی کی زیارت کرے۔


احناف کے نزدیک تو قبر النبی کی زیارت مستحبات مین سے سب سے زیادہ افضل بلکہ درجہ وجوب سے قریب تر ہے۔ ابومنصور محمد ابن مکرم کرمانی نے اپنے (مناسک) میں اور عبداللہ بن محمود نے (شرح المختار) میں اس کی تصریح کی ہے اور فتاوی ابواللیث سمرقندی میں حسن بن زیاد کی روایت سے منقول ہے کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ حاجی کےلئے مناسب ہے کہ پہلے مکہ جائے جب وہاں کے ارکان ادا کرچکے تو مدینہ جائے اور اگر پہلے مدینہ ہوآئے یہ بھی جائز ہے۔ مدینہ پہنچ کر آنحضور کی قبرِ مبارک پر جائے ، قبلہ اور قبر کے درمیان اسطرح کھڑا ہو کہ اُس کا رخ قبر کی جانب ہو۔ حضور پر صلوٰۃ والسلام پڑھے اور حضرت ابوبکر وعمر پر بھی سلام پڑھے اور ان کے لیئے رحمت کی دعا کرے۔ ابوالعباس السروجی نے (الغایۃ) میں لکھا ہے جب حج یا عمرہ کرنیوالے مکہ سے واپس ہوں تو مدینہ طیبہ پہنچ کر قبرالنبی کی زیارت کریں یہ اُس کی ایک قابلِ تعریف کوشش ہوگی۔ حنابلہ نے بھی اس طرح کی تصریحات کی ہیں۔ ابوالخطاب محفوط حنبلی نے (کتاب الہدایۃ) میں فرمایا حاجی جب حج سے فارغ ہوجائے تو اس کے لیئے آنحضور اور صاحبین کی قبر کی زیارت مستحب ہے۔ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ السامری الحنبلی نے کتاب (المستوعب) میں فرمایا۔ جب مدینۃ الرسول پر پہنچے ۔ اس کے لیئے مستحب ہے کہ مدینہ میں داخلہ کے وقت غسل کرے پھر مسجد نبوی میں پہنچے اور داخل ہوتے وقت دایاں پاؤں پہلے داخل کرے پھر قبرالنبی کی دیوار کے پاس پہنچ کر اس طرح کھرا ہوکہ قبرالنبی سامنے ہو اور قبلہ پشت کی جانب ہو اور منبر النبی بائیں جانب ہو اور پھر دعا وصلوٰۃ وسلام کی کیفیت بیان کرنے کے بعد فرمایا۔ یہ بھی کہے اے اللہ تو نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے۔ (اور اگر ان لوگوں نے جس وقت اپنا برا کیا تھا تیرے در پر آتے پھر اللہ سے بخشواتے اور رسول ان کو بخشواتا اللہ کو پاتے معاف کرنے والا مہربان ۔سورۃ النساء 64)۔ اور کہے اب میں تیرے نبی کے پاس مغفرت چاہنے کے لیئے حاضر ہوا ہوں اور تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ تو اپنی مغفرت میرے لیئے ثابت کردے جس طرح تو نے اُن کے لیئے مغفرت ثابت کی ہے جو ان کی زندگی میں مغفرت کے لیئے آئے ۔ اے اللہ میں تیری طرف تیرے نبی کے واسطہ سے متوجہ ہوتا ہوں۔ اس کے بعد جب واپسی کا ارادہ کرے دوبارہ قبرالنبی پر حاجر ہوکر رخصت ہو۔ دیکھئے یہ مصنف حنبلی ہیں اور منکرِ زیارتِ قبرالنبی بھی حنبلی(یہاں امام سبکی کی مراد ابن تیمیہ سے ہے)۔ انہوں نے کس قدر صراحت کے ساتھ زیارت قبرالنبی کا ذکر کیا ہے۔ اور نبی کے واسطہ سے توجہ الی اللہ کو بیان کیا ہے۔ اسی طرح ابومنصور کرمانی حنفی نے کہا ہے کہ اگر تجھ سے کسی نے آنحضور تک سلام پہنچانے کی درخواست کی ہے تو تجھے قبرالنبی پہنچ کر کہنا چاہیے۔ اے رسول آپ پر فلاں بن فلاں کی جانب سے سلام ہو اور وہ آپ سے اللہ کے دربار میں رحمت اور مغفرت کی شفارش چاہتا ہے آپ اس کی سفارش کردیجئے۔ اس مسئلے کے لیئے ہم انشاء اللہ ایک مفصل باب قائم کرینگے۔ نجم الدین ابن حمدان حنبلی نے (الرعایۃ الکبریٰ) میں فرمایا ۔ جو شخص حج سے فارغ ہو اس کے لیئے نبی اور صاحبین کی قبور کی زیارت مسنون ہے اور اگر وہ چاہے تو حج سے پہلے زیارت کرلے۔ 


ابن جوزی نے اپنی کتاب (مثیر العزم الساکن) میں فرمایا اور یہ حنابلہ کی معتبر ترین کتاب ہے۔ قبر النبی کی زیارت مستحب ہے اور ابن عمر کی حدیث بطریق دارقطنی وغیرہ اور ابوہریرہ کی حدیث بطریق احمد (جو کوئی مسلمان میری قبر کے پاس آکر سلام کرےگا اس کے لیئے مجھ پر شفاعت ضروری ہوگئی)۔ ذکر کی ہے۔ اسی طرح موالک کی بھی تصریحات ہیں اور ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ قاضی عیاض نے اس مسئلہ کو اجماعی قرار دیا ہے۔ اور عبدالحق نے (تہذیب المطالب) میں شیخ ابوعمران مالکی کی جانب سے نقل کیا ہے کہ زیارت قبر النبی واجب ہے ۔ اور عبدالحق نے اسی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ شیخ ابومحمد بن ابی زید سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ اگر کسی نے کسی کے ذریعہ حج کرایا اور اس کو حج وزیارت کے لیئے خرچہ دیا۔ اب وہ شخص حج کرکے لوٹ آیا اور کسی عذر کی وجہ سے مدینہ طیبہ نہ جاسکا تو کیا ہو۔ انہوں نے جواب میں فرمایا۔ زیارت پر جوخرچ ہوتا اس شخص کو وہ واپس کرنا ہوگا۔ اور بعض مشائخ نے فرمایا کہ اس پر ضروری ہوگا کہ وہ اس نائب کو لوٹائے تاکہ وہ زیارت کرکے واپس آئے۔ یہ وہی عبدالحق ہیں جنہوں نے شیوخِ قیروان اور شیوخِ صیقلیہ سے فقہ حاصل کیا ہے۔


ماوردی نے (الحاوی) میں ذکر کیا ہے کہ ہمارے اصحاب نے زکر کیا ہے کہ کسی کو اجرت پر زیارت کے لیئے بھیجنا صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ کام غیر معین اور غیر مقدر ہے اور اگر مزدوری محض قبرالنبی کے پاس کھڑے ہونے کی قراردی جائے تو یہ بھی درست نہیں ہے۔ اس لیئے کہ مجرد کھڑے رہنے میں قائم مقامی درست نہ ہوگی۔اور اگر اجرت اس بات کی قرار دی جائے کہ وہ قبرالنبی پر  پہنچ کر دعا کرے گاتو یہ درست ہے اس لیئے کہ دعا میں قائم مقام درست ہے اور اس دعا ء کی مقدار کی جہالت اس اجارہ کو باطل نہ کرے گی ۔ ہاں ایک تیسری صورت بھی ہے جس کو ماوردی نے بیان نہیں کیا اور وہ سلام پہنچانا ہے تو اس اجارہ اور مزدوری کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔ جیسا کہ عمر بن عبدالعزیز کیا کرتے تھےاور بظاہر مالکیوں کی یہی مراد ہے۔ ورنہ مزدور کے جاکر کھڑے ہوجانے سے بھیجنے والے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور ہم عنقریب ابن المواز کے حوالہ سے امام مالک کی تصریح کا ذکر کریں گے کہ اس اجیر کو چاہیئے کہ وہ حضور کی قبر کے پاس کھڑا ہو اور دعا کرے جس طرح بیت اللہ کے پاس وداع کے وقت دعا کرتے ہیں۔ ابن ابی زید نے (کتاب النوادر) میں ابن حبیب کے کلام سے اور امام مالک کے مجموعہ سے اور ابن القرظی کے کلام سے زیارۃ القبور کی بحث ذکر کنے کے بعد کہا اور شہدائے احد کی قبور کے پاس جائے اور اسی طرح سلام پڑھے جس طرح حضور کی قبر اور ان کے دونوں ساتھیوں کی قبر پر سلام پڑھا تھا۔ ابوالولید ابن رشد المالکی نے (شرح العتبیہ) میں سوال کے جواب میں اس شخص کے سلام کے بارے میں کہا جو آنحضور کی قبر کے پاس سے گذرے ۔ ہاں اس پر ضروری ہے کہ وہ سلام پڑھے جب وہان سے گذرے لیکن جب نہ گذر رہا ہو تو پھر ضروری نہیں ہے لیکن اس کی کثرت مناسب نہیں ہے اس لیئے کہ حضور نے فرمایا تھا۔ اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنا دینا جس کی عبادت کی جائے۔ اور فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا ان لوگوں پر سخت غضب ہے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد بنالیا ہے۔ جب وہاں سے نہ گذر رہا ہوتوسلام نہ پڑھنے کی گنجائش ہے۔ ان سے یہ دریافت کی گیا کہ اگر مسافر ہرروز قبرالنبی پر حاضری دے؟ انہوں نے فرمایا۔ یہ مناسب نہیں ہےہاں واپسی کے روز جاکر سلام پڑھ لے۔ محمد ابن رشد نے کہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی بار گذرے گا اس کو سلام پڑھنا ہوگا۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ضرور گزرے ہاں جب مدینہ سے لوٹے تو ضرور وہاں جائے۔ یہ مکروہ ہے کہ کثرت سے وہاں سے گذرے اور کثرت سے سلام پڑھے۔ اس  لیئے کہ حضور نے خود فرما دیا ہے۔ میر قبر کو معبود بُت نہ بناؤ اور خدا کا ان پر سخت غضب ہے جو اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا دیتے ہیں۔ یعنی مسجد کی طرح روزمرہ ان پر حاضری ضروری سمجھتے ہیں۔ دیکھئے پردیسی پر رخصت کے وقت حاضری کا حکم دیتے ہیں تو سلام کی بھی لامحالہ اجازت ہوگی۔ کثرت سے آنے جانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ اور زیارت کا اصلاً مستحب ہونا متفق علیہ ہے۔

Shifa al Siqam Fi Ziyarati Khairul Anaam
Imam Taj-ud-deen al-Subuki Refuting Ibn Taymmiya p47/51

Scans:

Sunday, 26 April 2015

Ibn al Jawzi Refuting Mujassima - al-Wahhabiya Beliefs

فرقہ جدیدیہ (الوہابیہ ، المجسمیہ) کے جھوٹ، ان کے فرقے کے بننے اور اصلی حنبلیوں کا وہابیوں کے شرکیہ عقائد کا رد ۔یاد رہے کہ ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ فقہ حنبلی کے ایک عظیم امام تھے۔ اور اللہ کے لیئے جسم کے بیہودہ شرکیہ عقیدے کے خلاف بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ابن تیمیہ نے جو خرافات ابو یعلیٰ وغیرہ ودیگر کی طرح کی ہیں اس معاملے میں اُس کا رد بارہا امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ۔ جو کہ ایک محدث اور فقیہہ کی شان ہوتی ہے۔ اور ظاہر کیا کہ اصلی حنابل کا ان عقیدوں سے دور دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہے۔اس سلسلے کی دوسری کڑی اگلے آرٹیکل میں دی جائے گی۔ 

حصہ اول؛ ردِ مجسمیت


ترجمہ: امام ابن جوزی (رحمتہ اللہ علیہ ) لکھتے ہیں:

"میں نے اپنے بعض حنبلی اصحاب کو دیکھا کہ انہوں نے عقائد کے باب میں ایسی باتیں کہی ہیں جو درست نہیں ہیں ۔ یہ اصحاب ابن حامد (چارسوتین ہجری) ، ان کے شاگرد ابویعلیٰ (چارسو اٹھاون ہجری) اور ابن زاغونی (پانچسو ستائیس ہجری) ہیں۔ ان کی کتابوں نے حنبلی مذہب کو عیب دار کیا ہے۔ ان لوگوں نے عوامی انداز اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو محسوسات (یعنی مخلوقات) پر قیاس کیا۔ انہوں نے یہ حدیث دیکھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف اعضاء کی نسبت دیکھی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیئے ان کی ذات پر زائد صورت کا، چہرے گا، دو آنکھوں کا، منہ کا، کوے کا،داڑھوں کا، چہرے کی چمک کا، دوہاتھوں کا، ہتھیلی کا، چھنگلی کا، انگوٹھے کا، سینے کا ، ران کا ، پنڈلیوں کا اور دوپاؤں کا اثبات کیا اور کہا کہ ہم اللہ کے لئے سر کا اثبات نہیں کرتے کیونکہ ہم نے کسی نص میں سر کا ذکر نہیں پایا۔ 

ان لوگوں نےیہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ چُھوتے ہیں اور چھوئے جاسکتے ہیں اور وہ بندے کو اپنی ذات کے قریب کرلیتےہیں اور بعض تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سانس بھی لیتےہیں۔ 

ان لوگوں نےا للہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں الفاظ کے ظاہری معنی کو لیا (مثلاً ید اور قدم اور وجہ کے ظاہری وحقیقی معنی کو لیا جو ذات کے اعضاء ہیں) اور ان کو انہوں نےصفات کہا جو خود ایک بدعت ہے اور اس پر ان کے پاس کوئی نقلی وعقلی دلیل نہیں ہے۔ اور انہوں نے ان نصوص پر توجہ نہیں کی جو تقاضا کرتی ہیں کہ ظاہری معنی کے بجائے ایسے معنی لیئے جائیں جو اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہوں اور انہوں نے اس طرف بھی توجہ نہیں کی کہ حادث ہونے کی علامتوں کی وجہ سے ظاہری معنی لغو ہیں۔

پھر ان صفات کو  مان لینے کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم ان کے ظاہری اور معروف معنی لیں گے اور لغوی توجیہ بھی نہ کریں گے۔ اور ظاہری معنی وہ ہیں جو انسانوں میں معروف ہیں اور لفظ کو جہاں تک ہوسکے اس کے ظاہری اور حقیقی معنی میں لیا جائے۔ اور اگر کوئی مانع ہو تو پھر مجاز کی طرف جائیں۔ پھر وہ تشبیہ سے بچنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے سے تشبیہ کی نسبت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف ہم (یعنی سلفی ہی، وہابی) اہلسنت ہیں حالانکہ ان کے کلام میں صریح تشبیہ پائی جاتی ہے۔ 

پھر عوام کی ایک تعداد ان لوگوں کی پیروی کرنے لگی۔ میں نے ان خواص و عوام دونوں کو سمجھایا کہ اے حنبلیو! تم اہل علم اور اہل اتباع ہو اور تمہارے بڑے امام احمد بن حنبل (رحمتہ اللہ علیہ) کا یہ حال تھا کہ جلاد ان کے سرپرہوتا تھا پھر بھی وہ یہی کہتے تھے کہ میں وہ بات کیسے کہوں جو اسلاف نے نہیں کہی۔ لہٰذا تم ان کے مذہب ومسلک میں بدعتیں داخل نہ کرو۔ پھر تم حدیثوں کے بارے میں کہتے ہو کہ ان کے بھی ظاہری معنی لیئے جائیں گے ۔ تو قدم (پاؤں) کا ظاہری معنی تو عضو ہے۔ یہ تو عیسائیوں کی طرح ہوا کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح اللہ کہا گیا تو ان ناہنجاروں نے یہ عقیدہ بنا لیا کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت روح ہے جو حضرت مریم علیہما السلام میں داخل ہوئی۔

اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مقدس ذات سمیت عرش پر مستوی ہوئے تو انہوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو محسوسات کی مثل لیا۔ حالانکہ واجب ہے کہ جس عقل سے ہم نے اللہ کو اور اس کے قدیم وازلی (ہمیشہ ہمیشگی سے) ہونے کو پہنچانا اس کو ہم (صفات سمجھنے میں) مہمل نہ چھوڑیں۔

تو تم اس نیک اور اسلاف کے طریقے پر چلنے والے (یعنی امام احمد بن حنبل) کےمذہب ومسلک میں وہ کچھ داخل مت کرو جو اس کا حصہ نہیں ہے۔ تم لوگوں نے اس مذہب کو بڑا غلیظ لباس پہنادیا ہے۔ جس کی وجہ سے حنبلیوں کو مجسمی (یعنی اللہ تعالیٰ کےلیئے جسم ثابت کرنے والا) سمجھا جانے لگا ۔ 

پھر تم نےاپنے اختراعی مذہب کو یزید بن معاویہ کے لیئے عصبیت (وحمایت) کے ساتھ مزیئن کیا (اور اس کو فضیلت وار قرار دینے لگے) حالانکہ تم جانتے ہو کہ امام احمد بن حنبل نے اس پر لعنت کرنے کو جائز کہا ہے۔ اور ابو محمد تمیمی تمہارے امام ابویعلیٰ کے بارے میں کہتےتھے کہ انہوں نے امام احمد کے مذہب کو ایسا دھبہ لگایا ہے جو قیامت تک دھل نہیں سکتا۔

میں نے ان لوگوں پر رد کرنے کو ضروری سمجھا تاکہ ان کی باتوں کو امام احمد بن حنبل کی طرف منسوب نہ کیا جائے اور اس بات سے میں خوفزدہ نہیں ہوا کہ مذکورہ عقائد کچھ لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوچکے ہیں کیونکہ عمل کا مدار دلیل پر ہے۔ خاص طور سے اللہ تعالیٰ کی معرفت میں کہ اس میں تقلید جائز نہیں ہے۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا انہوں نے جواب بتایا۔ وہاں موجود کسی نے کہا عبداللہ بن مبارک تو اسکے قائل نہیں ہیں۔ اس پر امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ آسمان سے تو نہیں اترے تھے کہ ان سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا تھا کہ میں نے امام مالک رحمتہ اللہ علیہ پر رد لکھنے کےلیئے اللہ تعالیٰ سے استخارہ کیا تھا (مطلب یہ ہے کہ ایک مجتہد کو اگر دوسرے مجتہد سے کسی مسئلے میں اتفاق نہ ہو تو وہ اختلاف کرسکتا ہے)۔ 

(جاری ہے) (اختتام ص 6 تا 11 مقدمہ دفع تشبیہہ از امام ابن جوزی )

For reading into Proper Unicode urdu format visit  makashfa.wordpress.com

Scans:



Monday, 13 April 2015

Imam AbdulRehman bin Abdusalam Nuzhatal Majaalis

Details: 

Nuzha'tul' Majalis By Imam Abdu-Rehman Bin Abdus-Salam Al-Shafi'e Al Safuri (Rt)

Pages (1) (53) (189/190) Urdu Translation and Scans



بسم الله الرحمن الرحيم


الحمد لله الذي قص لنا من آياته عجباً. وأفادنا بتوفيقه إرشاداً وأدباً. وأرسل فينا رسولاً كريماً نجيباً أطلعه على الحقائق ففاق أخاه وأباه، وعرض عليه الحبال ذهباً فنأى وأبى وخصنا بشريعته القويمة وجبا، فآمنا وصدقنا وله الفضل علينا وجبا، لأنه ادخر لنا ذلك في خزائن الغيب وخبا، أحمده حمداً أرغم به أنف من جحد وأبى وأبلغ من فضله الواسع أربا واشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له شهادة تكون للنجاة سبباً وأشهد أن سيدنا محمد عبده ورسوله المجتبى أشرف البرية حسباً وأطهرهم نسباً صلى الله عليه وسلم، على آله وأصحابه الذين سادوا الخليقة عجماً وعرباً...





عربی عبارت: (۱)۔ ترجمہ: 

"تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیئے ہیں، جس کی ذاتِ اقدس نے ہمارے لئے عجیب وغریب نشانیاں بیان فرمائیں اور ہمیں رشدوہدایت سے نوازتےہوئے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا، فرمائی اور قرآن مجید کو مصائب وآلام سے بچنے کےلئے ہمارا محافظ بنایا، جس میں ہدایت ورہنمائی ، رحمت وراحت ،عذاب وعتاب سے آگاہ کیا، اور ہمارے لئے رسول کریم ، رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور انہیں علومِ غیبیہ سے سرفراز فرماکرہرچیز کی حقیقت سے آگاہ کیا، اور آپ کو تمام جہانوں میں ممتاز فرمایا، اللہ تعالیٰ نے آپ کے سامنے پہاڑ رکھے تاکہ وہ آپ کے لیے سونا بن جائیں مگر آپ نے ان سے اعراض فرمایا اور معذرت کی، اور ہمیں شریعت محمدیہ علیہ التحیہ والثناء کے لیے مخصوص فرمایا نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے نواز کرایمان وصداقت کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا، اور ہم پر یہ اللہ تعالیٰ کا بے پایا ں فضل اور عظیم احسان ہے ، کہ اس نے رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس واطہر کو خاص کرہمارے لیئے اپنے خزائن غیبیہ میں محفوظ رکھا"۔(صفحہ اول/مقدمہ)


وقال الإمام مالك رضي الله عنه وأنا حبب إلي من دنياكم ثلاث مجاورة روضته صلى الله عليه وسلم وملازمة تربته وتعظيم أهل بيته 


ترجمہ صفحہ (۵۳)۔ (اول) حضرت امام مالک فرماتے ہیں:
"مجھے تمہاری دنیا سے تین چیزیں محبوب ہیں ، روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری ، اور آپ ؐ کے مزارِ اقدس پر ہمیشگی،اور آپ کے اہل بیت کرام کی تعظیم وتوقیر بجا لانا"۔ 


فقال صلى الله عليه وسلم صبوا على يده فإنه منهم وعنه صلى الله عليه وسلم ومن أحبني كان معي في الجنة وعنه صلى الله عليه وسلم من أحب أزواجي وأصحابي وأهل بيتي ولم يطعن في أحد منهم وخرج من الدنيا على محبتهم كان معي في درجتي يوم القيامة وسيأتي إن شاء الله تعالى زيادة في فضائلهم إجمالاً وتفصيلاً


ترجمہ؛ (دوئم) نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم فرماتےہیں:

"جس شخص نے میرے صحابہ اور میرے اہل خانہ (امھات المؤمنین) اور اہلِ بیت (کرام) سے محبت اختیار کی اور کسی کو بھی سب وشتم کا نشانہ، نہ بنایا اور دنیا سے جب اس نے وصال کیا تو اس کا دل ان کی محبت سے معمور تھا، وہ روز ِ قیامت میرے ہی ساتھ میرے ٹھکانے  پر ہوگا، اس کا تفصیلی ذکر ان کے فضائل ومناقب کے باب میں آئے گا"۔ 


زيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم مستحبة في كل وقت خلافاً لتقييد المنهاج حيث قال وزيارة قبر النبي صلى الله عليه وسلم بعد فراغ الحج قال النبي صلى الله عليه وسلم من زار قبري وجبت له شفاعتي رواه ابن خزيمة وعنه صلى الله عليه وسلم من جاءني زائرا لم يكن له حاجة إلا زيارتي كان حقاً علي أن أكون شافعا له يوم القيامة في عيون المجالس عنه صلى الله عليه وسلم من زر قبري بعد موتي فكأنما زارني في حياتي ومن لم يزر قبري جفاني وقال إسحاق ابن سنان زرت قبره الشريف سبع عشرة مرة كلما زرته مرة قلت السلام عليك يا رسول الله فيقول وعليك السلام يا ابن سنان وعنه صلى الله عليه وسلم من زارني بعد موتي فكأنما زارني في حياتي ومن مات بأحد الحرمين بعث من الآمنين يوم القيامة رواه البيهقي... حكاية: كان الشيخ الصالح سيدي أحمد الرفاعي يبعث السلام مع الحجاج في كل عام إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فلما قدر الله له بالحج وقف عند قبر الشريف وقال: شعر:

في حالة البعد روحي كنت أرسلها ... تقبل الأرض عني وهي نائبتي
وهذه نوبة الأشباح قد حضرت ... فامدد يمينك كي تحظى بها شفتي



فظهرت له يد النبي صلى الله عليه وسلم فقبلها ولا إنكار في ذلك فإن إنكار ذلك يؤدي إلى سوء الخاتمة والعياذ بالله وإن كرامات الأولياء حق والنبي صلى الله عليه وسلم حي في قبره سميع بصير منعم في قبره وقال بعضهم بلغنا أن من وقف عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم وقرأ هذه الآية إن الله وملائكته يصلون على النبي الآية ثم قال صلى الله عليك يا محمد سبعين مرة ناداه ملك صلى الله عليك يا فلان ولم تسقط له حاجة ويستحب لمن زاره أن يصلي بين القبر الشريف والمنبر فإنها روضة من رياض الجنة قيل معناه البقعة تستحق روضة من الجنة وقيل أن تلك البقعة بعينها تكون في الجنة يوم القيامة قال صلى الله عليه وسلم الصلاة في المسجد الحرام بمائة ألف صلاة والصلاة في مسجدي بألف صلاة والصلاة في بيت المقدس بخمسمائة صلاة رواه الطبراني وقد صرح بعض العلماء بأن المشي إلى قبره صلى الله عليه وسلم أفضل من المشي إلى الكعبة لأن البقعة التي ضمت أعضاءه الطاهرة أفضل من العرش والكرسي وكيف لا وقد رفع الله تعالى ذكره وقرن إسمه مع إسمه وكتبه في كل موضع من الجنة وقال ابن عباس رضي الله عنهما على باب الجنة مكتوب إني أنا الله لا إله إلا أنا محمد رسول الله لا أعذب من قالها وقال النبي صلى الله عليه وسلم ما ضر أحدكم أن يكون في بيته محمد ومحمدان وثلاثة وعن جعفر بن محمد عن أبيه إذا كان يوم القيامة نادى مناد ألا ليقم من إسمه محمد فليدخل الجنة لكرامة اسمه صلى الله عليه وسلم..





ترجمہ (صفحات ومخطوطہ،  (۱۸۹/۱۹۰)۔ 

"زیارت گنبدخضریٰ(کے متعلق لکھتے ہیں) کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کی حاضری ہروقت مستحب ہے ، حج سے پہلے اور حج کے بعد بھی!۔ سید عالم نے فرمایا جس نے میری قبر کی زیارت کی لازماً میں اُسکی شفاعت کرواؤں گا(ابن خزیمہ)۔ نیز فرمایا جو شخص خالص میری زیارت کی نیت سے میری قبر پر حاضر ہوا اور اسکے علاوہ اسکا کوئی اورمقصد نہ ہوتوقیامت کے دن اسکی شفاعت کرانا میری ذمہ داری ہے۔! عیون المجالس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے وصال کے بعد " جس نے میری قبر کی زیارت کی گویا کہ اُس نے میری زندگی میں میری زیارت کی، نیز فرمایا، جس شخص نے حج کیا اور میرے مزار شریف پر حاضر نہ ہوا اُس نے مجھ سے "جفا" کی اورحضرت اسحاق بن سنان بیان کرتےہیں کہ میں نے نبی کریم کے روضہ پاک کی سترہ مرتبہ زیارت کی اور میں نے جب بھی عرض کیا "السلام علیک یا رسول اللہ" توآپ نے جواب میں عنایت فرمایا "علیک السلام یا ابن سنان"۔ مزید آپ علیہ السلام فرماتے ہیں جس نے میرے وصال کے بعد میرے مزار شریف کی زیارت کی گویا اُس نے میری زندگی میں زیارت کی اور یہ کہ حرمین شریفین مکہ مکرمہ یا مدینہ طیبہ میں انتقال کرے گا، قیامت کے دن وہ امن والوں کے ساتھ ہوگا (بیہقی)۔ 

(حکایت) ۔ حضرت شیخ سیدی احمد رفاعی (رض) ہرسال حاجیوں کے ذریعہ بارگاہ نبوی میں سلام پیش کیا کرتے تھے، پھر 
اللہ تعالیٰ نے جب انہیں حج وزیارت کا موقع نصیب فرمایا تو آپ مواجہ شریف کے سامنے کھڑے ہوکر عرض گزار ہوئے۔


(ترجمہ اشعار)


 ۔۔۔دوری کی حالت میں، میں اپنی روح کو بھیجا کرتا تھا، جو میری نائب ہوکرمیری طرف سے قدمبوسی کا شرف پاتی رہی، اور اب تواس جسم کو حاضری کی نعمتِ عظمیٰ حاصل ہوئی ہے ، ذرا اپنے دائیں ہاتھ کو بڑھائیے تاکہ میرے لب اس کے فیضان سے بہرہ مند ہوں!


۔۔۔۔ (آگے لکھتے ہیں) ۔۔۔

یہ کہنا تھا کہ نبی کریم کا دستِ اقدس ظاہر ہوا اور انہوں نے اپنے لبوں کو بوسہ سے مشرف کیا۔ ایسے اُمور سے انکار نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ انکار کا انجام برے خاتمہ پر ہوا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ انکی برائی اور گرفت سے محفوظ رکھے اس میں ذرہ برابر شک نہیں ، کراماتِ اولیاء حق ہیں، بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مزارِ اقدس میں زندہ ہیں، سنتے ہیں، دیکھتے ہیں اور آپ کے قبرانور سے نعمتیں ملتی رہی ہیں، کیونکہ آپ قاسم نعم ہیں۔۔۔۔بعض کہتےہیں جسے مزار پرانوار پر حاضری کی سعادت میسر ہوتووہ یہ آیت پڑھے"ان اللہ ملائکتہ،،،،الیٰ الآخر،،،پھر ستر بار کہے، صلی اللہ علیک یا محمدا (یعنی، الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ)تو ایک فرشتہ ندا کرتا ہے ۔ صلی اللہ علیک فلاں، پھر اس کی کوئی بھی حاجت باقی نہیں رہتی۔

مستحب یہ ہے کہ جو شخص زیارت سے مشرف ہو وہ قبر اقدس اورمنبر شریف کے درمیان درود شریف کثرت سے پڑھے کیونکہ یہ ریاض الجنۃ ہے،

 (حدیث)میرے گھر اورمیرے منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ، جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔ نبی کریم نے فرمایا کہ مسجد حرام میں نماز پرھنا ایک لاکھ نماز کے برابر ہے اورمیری مسجد میں ایک نماز (بیت اللہ شریف کی) ایک ہزار نماز کے برابر ہے۔ اور بیت المقدس میں نماز پانچ صد نمازوں کے برابر ہے۔ (طبرانی)۔ بعض علماء بالتصریح فرماتے ہیں ، بیت اللہ شریف سے محبوبِ خدا کی طرف جانا افضل ہے، کیونکہ زمین کا وہ قطعہ مبارکہ جہاں آپ کا جسم ِ اطہر موجود ہے وہ عرش وکرسی سے بھی افضل و اعلیٰ ہے ، اور پھر کیسے نہ ہو جب کہ آپ کے ذکر کو اللہ تعالیٰ نے خود رفعت دی اورفرمایا (ورفعنا لک ذکرک) ۔ آپ کا اسم گرامی اپنے نام نامی سے متصل رکھا، جنت کے ہرمقام پر نقش فرمایا، حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں جنت کے ہردوازے پر مرقوم ہے، بیشک میں اِلٰہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں، محمد میرے رسول ہیں، جو اس پر ایمان لائے گا میں اسے عذاب نہیں دوں گا۔ نبی کریم نےفرمایا: تمہارے لیئے یہ بات نفع مند ہے 

کہ تمہارے گھر ایک محمد، دو یا تین ہوں (یعنی بچوں کے نام میرے نام پر رکھو)"۔


 حوالہ (نزهته المجالس . ۱۹۰. )۔ اختتام شد۔(مخطوطہ)۔ از امام عبدالرحمٰن بن عبدالسلام الشافعی الصفوری (رحمتہ اللہ علیہ )۔

آخری بات:

(ا)۔ پہلے ذرا غور کیجیئے کہ  نبی علیہ السلام کے لیئے علمِ غیب (منجانب اللہ) ماننے کا عقیدہ ہی اصلی اسلام کا عقیدہ ہے، جو لوگ اللہ کی عطا سے نبی علیہ السلام کے لیئے علم غیب کے منکر ہیں وہ سلف اسلاف کی ان کتابوں اور ان میں لکھے الفاظ کے پس منظر میں اپنے انکار پرذرا غور کرے ۔ 

(۲) ۔ اب غور کریں کہ نہ وہابی درست ہیں کیونکہ وہ اہلبیت کی تحقیر کرتے ہیں ۔اور نہ ہی روافض کیونکہ وہ صحابہ کی تحقیر کرتے ہیں اور ان سب کی گستاخی فرمان نبوی کے مطابق جہنم میں لے جانے کا باعث ہوتی ہے۔ 

(۳)۔ اسی صفحہ پر آپ پڑھ سکتے ہیں کہ تمام تر آئمہ کا یہی ایمان اور عقیدہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی عطا سے مختار ہیں اسی لیئے (القاسم) کہلائے جاتے ہیں (یعنی تقسیم فرمانے والے)۔نیز یہ کہ زیارتِ روضہ رسول ، مزارات وغیرہ یہ سب کچھ خیر القرون کے عمل سے ثابت ہیں۔ آج (خارجی ٹولہ) ان کو (کفر شرک بدعت) کہہ کر اپنا الو سیدھا کرتا ہے۔

(۴) ۔ اور آخر میں نداء رسالت یعنی (یا رسول اللہ ) کہنے کا ثبوت، اور آپ کو حاضر وناظر و زندہ جاننا عین ایمان ہے۔ 

جبکہ ۔ (خوارج) کے تمام (پیرومرشدان) یہ کہتے ہیں کہ (نبی کو کسی چیز کا اختیار نہیں، جو مرگیا مرکے مٹی میں مل گیا، غیراللہ سےمدد مانگنا حرام ہے،نبی کی اتنی ہی تعظیم کرو جتنی بڑے بھائی کی کرتے ہیں ) معاذ اللہ۔ تو کیا ہم حق بجانب نہیں ان خوارج کو گمراہ کہنے میں؟۔





Scans:

Click Here