Saturday, 7 March 2015

Ahwal wa Azkar e Junaid Baghdadi (rta) urdu

احوال و اذکار۔ از ۔حضرت جنید بغدادی 


سیاسی ، سماجی پس منظر۔ 


ظہور اسلام سے لے کر عباسی خلیفہ مامون الرشید تک کی تقریباً 2 سو سالہ تاریخ اسلام میں متعدد حوالوںسے کئی نشیب وفراز آچکے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مبارک عہد سے سے دورِ خلافت ِ راشد ہ میں تو مسلمانوں کی فتوحات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ تبلیغ ِ دینِ اسلام پر بھی خصوصی توجہ دی جانے لگی تھی۔ خلافتِ راشدہ کےد ور میں عربوں نے بجا طور پر سیاسی ، معاشرتی، تعلیمی اور اقتصادی طور سے بھی کئی مراحل طے کرکے ایک نئے باب کا اضافہ کردیاتھا۔ 


پہلی صدی ہجری کے ساتویں عشرے ہی سے بنو امیہ کا عہدِ حکومت شروع ہوگیا تھا۔ اموی حکمرانوں نے اسلامی دنیا کے مرکز سے امیر معاویہ ہی کے عہد سے فتوحات کا آغاز کردیا تھا۔ اسلیئے شمالی افریقہ اور بحیرہ اوقیانوس کے ساحلوں کے ساتھ ساتھ مسلمان مبلغین اور مجاہدین نے پہنچنا شروع کردیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی دور میں مشرقی افغانستان اور برعظیم پاک وہند کی وادیوں میں بھی مسلمان پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد کے برسوں میں شمالی افریقہ کے متعدد علاقوں میں اسلام کا پیغام پہنچایا جاچکا تھا۔ 

پھر دوسری صدی ہجری کے طلوع کے ساتھ ہی مسلمانوں کی سلطنت پھیلتے ہوئے سمرقند، بخارا اور کاشغر تک پہنچ گئی تھی۔ اس کےبعد ایک جواں سال جرنیل محمد بن قاسم نے ہندوستان میں وادیء سندھ کو تسخیر کرلیا تھا۔ حجاج بن یوسف نے اپنی خصوصی توجہ اور سیاسی ، اقتصادی اور علمی ادبی بصیرت سے اسوقت کی پوری اسلامی دنیا کو چکاچوند بنادیاتھا۔ ادھر طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر نے سپین میں فتح ونصرت کے جھنڈے گاڑدیئے تھے۔ قتیبہ بن مسلم بھی پے در پے فتوحات حاصل کرچکا تھا۔ 
پھر جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کادورِ حکومت شروع ہوا تو اس دور میں فتوحات وتبلیغ کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا میں اصلاحات کے نفوذ پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ بیرونی اسلامی فتوحات میں اب تو مسلمان فرانس کی وادیوں میں بھی داخل ہوگئے تھے۔ فرانس کے کئی ایک جنوبی حصوں پر اسلامی تسلط اور قبضہ قائم ہوگیا تھا۔ اموی حکمرانوں کی فتوحات اور توسیع سلطنت کے ساتھ ساتھ انتظامی اور سیاسی اعتبار سے بھی کئی پیچیدگیاں اور مسائل پیدا ہونے لگے تھے۔ چند ایک اندرونی اور بیرونی شورشوں نے بھی سر اٹھا لیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ تحریکِ عباسیہ بھی شروع ہوگئی تھی۔ 

اموی دور حکومت میں اسلامی دنیا میں اقتصادی اور مادی وثقافتی ترقی کے ساتھ ساتھ افکار و نظریات کی بھی ترقی ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فدائین کے کئی ایک گروہ منظر عام پر آئے۔ ان میں توابین اور شیعانِ علی سب سے اہم تھے۔ پھر اسی طرح ایک موثر اور مستحکم گروہ خوارج کا بھی پیدا ہوگیا تھا۔ ان لوگوں کا نعرہ اور منثور یہی تھا کہ "اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کا فیصلہ قابلِ قبول نہیں ہے۔" آغاز میں خوارج سیاسی امور اور سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیتے رہے لیکن بعد کے برسوں میں انہوں نے خالصتاً مذہبی رنگ اختیار کرلیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خوارج کا بڑا گروہ مزید بیس بائیس فرقوں اور نظریوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ 


مذہبی اور فکری پس منظر؛

اموی دور کا ایک اور گروہ مرجیہ کا تھا ۔ یہ لوگ اعتدال پسند تھے، بنیادی طور پر اس فرقے اور گروہ کے لوگ گناہ کرنے والے کو اس کے اعمالِ بد کے باعث کافر قرار نہیں دیتے تھے ۔ وہ گنہگار اور کافر میں فرق کرتے تھے۔ 

اس دور میں خوارج ہی کی طرح ایک بڑا مذہبی اور فکری گروہ معتزلہ کا بھی تھا۔ یہ لوگ حضرت اما م حسن بصری رضی اللہ عنہ کے شاگرد واصل بن عطا کے ماننے والے تھے۔ اس فرقہ کے لوگ اپنے آپ کو عدل وتوحید والے لوگ کہا کرتے تھے ۔ اس گروہ کے لوگ یونانی فلسفہ سے خاصے متاثر تھے اور اسی حوالے سے وہ اسلامی تعلیمات کو بھی عقل وخرد کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔ اسلامی نظریات کو وہ اپنی عقل کے مطابق ڈھالنے کے قائل تھے، منطق اور عقل کی کسوٹی کو وہ اہم اور فائق سمجھتے تھے ۔ اسی حوالے سے انہیں عقیلت پرست بھی کہا جاتا رہا ہے۔ وہ قرآن حکیم کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق تصور کرتے تھے۔ انسان کو وہ اپنے اعمال میں کلی طور پر خود مختار گردانتے تھے۔ اس فرقے کا آغاز بنو امیہ کے آخری دور میں ہوگیا تھا۔ پھر بعد میں عباسی دورِ حکومت اس فرقہ کی ترقی اور عروج کا عہد ثابت ہوا۔ 


معتزلہ کی طرح ایک اور گروہ "جبریہ" کابھی اسی دور میں پیدا ہوگیا تھا۔ یہ فرقہ بنیادی طور پر اس نظریئے کا قائل تھا کہ "انسان اپنے افعال وکردار میں مجبورمحض ہے، اس کو اپنے اعمال پر کوئی اختیار وقدرت حاصل نہیں ہے بلکہ سارے اعمال وافعال اللہ تعالیٰ کی جانب سے صادر ہوتے ہیں۔ اس لیئے انسان اپنے نیک یا  بد اعمال کا ذمے دار نہیں ہے۔ یہ فرقہ قرآن حکیم کو بھی مخلوق تصور کرتا تھا۔ اس فرقہ کا بانی ایک ایرانی باشندہ جعد بن درہم تھا۔ 


ایرانی اثرات؛

اُموی حکومت کے بعد دورِ عباسی کا آغاز ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ عباسی حکمرانوں نےمتعدد امور اور فتوحات میں ایرانیوں سے بھرپور مدد اور تعاون حاصل کیئے رکھا تھا۔ ان سے پیشتر حجاج بن یوسف نے عربی کو سرکاری زبان توبنادیا تھا لیکن اب اس عہد میں عربی کےساتھ ساتھ دوسری زبانوں نے بھی بجا طور پر فروغ حاصل کیا۔ اس طرح عرب حکومت میں عربی اثرات کی بجائے ایرانی اثرات بھی ہرمیدان میں اپنا رنگ دکھانے لگے تھے۔ رہن سہن، لباس، روزمرہ عادات واطوار میں ایرانی رنگ ڈھنگ نمایاں ہونے لگا تھا۔ عباسی حکومت میں سیاسی اور انتظامی طور پر ایرانیوں کا عمل دخل اور مناصب بھی قابلِ قدر ہوگئے تھے،سارا انتظامِ سلطنت ایرانی پرتودینے لگا تھا۔ 


دوسری جانب ادب اور معاشرت اور معیشت میں بھی ایرانی رنگ غالب آنے لگا تھا، ایرانی علوم وفنون اور افکار ونظریات کی گونج بھی ایوانِ عباسیہ میں سنائی دینے لگی تھی۔ ایرانیوں کے اس قدر اثرورسوخ اور عمل دخل کے باعث ایرانیوں کے مذہبی افکار اور نیم مذہبی روایات بھی عرب دنیا میں پروان چڑھنے لگیں اور اسطرح طاقتور عجمی تہذیب وثقافت نے عربی تہذیب وتمدن کو اپنے قریب کرلیا تھا۔
علوم وفنون کی ترقی:

عباسی خلیفہ مامون الرشید کے دورِ حکومت میں جبکہ رومی سلطنت کے مختلف علاقوں پر مسلمان مجاہدین نے حملوں کے بعد فتوحات شروع کردی تھیں اس کےبعد رفتہ رفتہ رومی تہذیب وثقافت اور فلسفہء حیات بھی رنگ دکھانے لگا تھا۔ اسلامی دنیا میں کئی ایجادات ہونے لگی تھیں۔ علوم وفنون میں لاتعداد یونانی کتابوں کےعربی زبان میں تراجم ہونے لگے تھے۔ ان تراجم کی شاہی دربار سرپرستی کرتے تھے۔ اس طرح اسلامی فلسفہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ متمول اور وسیع ہوگیا۔ بیت الحکمت میں ترجمے کا باقاعدہ ایک لازمی اور بڑاشعبہ قائم کردیاگیاتھا۔ علم ہیت ونجوم ، سیاست ،تفسیر، فقہ ، شاعری اورادب نے بھی بڑی حد تک ترقی کرلی تھی۔ فنون میں تعمیرات ، موسیقی ، رقص، ثقافتی لباس اور آداب شاہی دربار نے بھی بڑی امتیازی ترقی کرلی تھی۔ حساب جیومیٹری اور اقلیدسی علوم میں تومسلمان اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ منظم اور ترقی یافتہ تھے۔ 


مذہبی اور دینی طور پر اس عہد میں چونکہ کئی فرقے پیدا ہوچکے تھے، اس لیئے ہرفرقے کے اہل علم اور عالم فاضل لوگوں نے اپنے اپنے فکری مکتب اور گروہ بنا لئے تھے ۔ کئی فرقوں نے اپنے اعتقادات کی تبلیغ وتشہیر کی خاطر اپنی اشاعتی سرگرمیاں بھی شروع کررکھی تھیں۔ لیکن اس وقت کے خلفاء ان مذہبی فرقہ وارانہ سرگرمیوں کے فروغ میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ بلکہ بعض فرقوں کو تووہ شدید ناپسند بھی کرتے تھے اور ان کی سرگرمیوں اور اشاعت پر پابندیاں عائد کرتے تھے۔ لیکن ان تمام علماء اور اہل علم کے ساتھ ساتھ حق پرست علماء بھی موجود تھے ، وہ نہ حکومت کے مناصب سے خائف تھے اور نہ کسی دنیاوی لالچ میں ملوث ہوئے تھے۔ 


بہرصورت اموی دورحکومت کے بعد عباسی عہد میں پوری اسلامی دنیا مکمل طور پر یونانی مفکرین اور ان کے فلسفوں سے آگاہ ہوچکی تھی، لوگ ارسطو اور افلاطون کے یونانی افکار سے بخوبی واقف ہوگئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی علوم اور فلسفہ بھی عربی زبان میں ترجمہ ہونے کےبعد عربوں کے لیئے دُور کی بات نہیں رہا تھا،کئی  اہم اور بڑی بڑی ہندوستان کی کتابیں بھی عربی میں ترجمہ ہوکرعرب دنیا سے باہر بھی متعارف ہونے لگی تھیں ۔ دوسری جانب عربوں کے اپنے عہد کی تمام مذہبی تحاریک اور افکارپر بھی باضابطہ طور پر کام ہوا تھا۔ اس طرح خلیفہ ہارون الرشید کے دورِ حکومت میں قاضی ابویوسف نے حنفی فقہ کی تدوین کی، امام بخاری نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قریباً تمام احادیث کو مدون اور مرتب کردیا تھا۔ ان کے بعد حضرت امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے بھی اپنے اپنے نقطہ نظر سے اسلامی قوانین کی ترتیب وتدوین کاکام کیا۔ 


صوفیانہ تعلیمات؛ جیسے کہ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ اپنے صوفیانہ افکار ونظریات میں ایک میانہ رو اور اعتدال پسند صوفی اور عارف ہیں۔ ان کی تعلیمات میں ذات باری کے ساتھ تعلق ورابطہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ حضرت جنید بغدادی تصوف کو کوئی ماورائی شئے تصور نہیں کرتے تھے اور نہ اسے عقلیت پسندی ہی کے تابع گردانتے تھے ۔ وہ ہرطرح کے تصوف کو اسلام کی مروجہ تعلیمات سے برقرار رکھتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ 

حضرت جنید بغدادی نےا پنی اسی بصیرت کی بدولت صوفیہ کے الگ الگ نظریات کے حوالے سے گروہی تقسیم کا کام بھی لیا۔ وہ توحید کےسختی سے پابند تھے اور توحید کی بنیاد اسلامی تعلیمات اور قرآنی سرچشموں پر رکھتے تھے۔ وہ احادیث ِ نبوی سے ثابت کرتے ہیں کہ "اللہ تعالیٰ ہی ایک ایسا وجود ہے جس سے لو لگائی جاسکتی ہے ۔ اسی کے بارے میں غور کیاجائے اور انسان اس کی بااختیار قوت کے سامنے صرف ایک پرزہ ہے ۔خداہی واحد حقیقت ہے اور یہ دنیائے مظاہر اس وجودِ حقیقی کا ایک سایہ اور عکس ہے۔" پھر حضرت جنید بغدادی بندے اور خالق کےدرمیان کوعبور کرنے کا ذریعہ صرف تصوف ہی کو قرار دیتے ہیں۔ 

حضرت جنید بغدادی اپنے نظریہ تصوف کو رہبانیت کے قریب لے جانے کی بجائے عمل کی جانب گامزن کرتے ہیں ۔ وہ تصوف اخیار کرکے معاشرتی اور سماجی زندگی کو تیاگنے کے قائل نہیں بلکہ انسانوں ہی کے اندر رہ کر ہرطرح کی ذمے داریاں پوری کرتے ہوئے تصوف اختیار کرتے ہیں۔ وہ تصوف میں بےعمل ہونے کی بجائے ایک فعال اور موثر عامل بننے پر توجہ دیتے ہیں۔ 

توحید کے بارے میں:
صوفیائے کرام کا توحید کے بارے میں اور اپنے خالق حقیقی کے بارے میں جو واضح تصور ہے اس کی جھلک صحائف سابقہ کی تعلیمات میں بھی ملتی ہیں۔ یہی جنید بغدادی کا بھی تصور ِتوحید ہے۔ اور توحید کے حوالے سے ان کے نظریات بڑے واضح ہیں۔ وہ وجودباری تعالیٰ سے وابستگی ہی کو سب کچھ تصور کرتے ہیں۔ 

امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے توریت سے بارہ کلمات اخذ کئےہیں جن پر روزانہ تین بار غور کرتا ہوں۔ وہ کلمات درج ذیل ہیں؛

(1) حق جل وعلاء فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم تجھ کو کسی حاکم اور دشمن حتی کہ جن اور شیطان سے بھی جب تک میری حکومت یعنی بادشاہت باقی ہے ہرگز نہ ڈرنا چاہیئے۔ 

(2) اے آدم کے بیٹے ، توکسی قوت اورطاقت اور کسی کے باعثِ روزی ہونے کے سبب مرغوب نہ ہو۔جب تک کہ میرے خزانے میں تیرارزق باقی ہے اور میں تیرا حافظ ہوں اور یاد رکھ کہ میرا خزانہ غیرفانی اورمیری طاقت باقی رہنے والی ہے۔ 

(3) اے آدم کے بیٹے آدم ، جب تو ہرطرف سے عاجز ہوجائے اور کسی سے کچھ بھی تجھ کو نہ ملے اور کوئی تیری فریاد سننے والانہ ہو، ایسی کسمپرسی کی حالت میں اگرتومجھ کو یادکرے اور مجھ سے مانگے تو میں یقیناً فریاد کو پہنچوں گااورجوتُوطلب کرے گاوہ دوں گاکیونکہ میں سب کا حاجت روا اور دعاؤں کاقبول کرنےو الا ہوں۔

(4) اے اولادِ آدم! میں بہ تحقیق تجھ کو دوست رکھتا ہوں تجھے بھی چاہیئے کہ میرا ہوجا اور مجھے یادرکھ۔

(5) اے آدم کے بیٹےجب تک توپُلِ صراط سے پار نہ ہوجائے تومیری جانب سے بے فکرمت رہ۔

(6) اے آدم کے بیٹے۔ میں نے تجھے مٹی سے پیدا کیا اور نطفہ کو رحمِ مادر میں ڈال کراس کو جما ہوا خون کرکے گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا، پھر رنگ وصورت اور شکل تجویز کرکے ہڈیوں کاایک خول تیار کیا۔ پھر اس کو انسانی لباس پہناکراپنی روح اس میں پھونکی ، پھر مدت معینہ کے بعد تجھ کو عالم اسباب میں موجودکردیا۔ تیری اس ساخت اورایجاد میں مجھےکسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی۔ پس اب تو سمجھ لے کہ میری قدرت نے ایسے عجیب امور کوپایہ تکمیل پہنچایا کہ وہ تجھ کو دوروٹی نہ دے سکی گی، پھر تو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کرغیرسے طلب کرتاہے۔ 

(7) اے آدم کے بیٹے؛ دنیا کی تمام چیزیں تیرے ہی واسطے پیداکی ہیں اور تجھے خالص اپنی عبادت کے لیئے پیدا کیا ہے مگر افسوس تونے ان اشیاء پر جو تیرے لیئے پیداکی گئی تھیں اپنے آپ کو قربان کردیااور مجھ کو بھول گیا۔ 

(8) اے آدم کے بیٹے! تواپنی اغراض نفسانی کی وجہ سے مجھ پر غصہ کرتا ہے مگر اپنے نفس پر میرے لیئے کبھی غصہ نہیں ہوتا۔ 

(9) اے آدم کے بیٹے! دنیا کی تمام چیزیں اورتمام انسان مجھے اپنے لیئے چاہتے ہیں اور میں تجھ کوصرف تیرے لیئے چاہتا ہوں اور تومجھ سے بھاگتا ہے۔ 

(10) اے آدم کے بیٹے: تیرے اوپر میرے حقوق ہیں اور مجھ پر تیری روزی رسانی مگر تومیرے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اسکی خلاف ورزی کرتا ہے لیکن میں پھر بھی تیرے کردار پر خیال نہ کرتے ہوئے برابر تجھے رزق پہنچاتارہتا ہوں اور اسکی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ 

(11) اے آدم کے بیٹے! توکل کی روزی بھی مجھ سے آج ہی طلب کرتا ہے اور میں تجھ سے اس روز کے فرائض کی بجاآوری آج نہیں چاہتا۔ 

(12) اے آدم کے بیٹے! اگر تو اپنی اس چیز پر جو میں نے تیرے مقسوم میں مقدر کردی ہے راضی ہوا توبہت راحت وآسائش سے رہے گااوراگر تو اس کے خلاف میری تقدیر سے جھگڑا اوراپنے مقسوم پر راضی نہ ہوا تویاد رکھ کہ میں تجھ پر دنیا کو مسلط کردوں گا وہ تجھے خراب وخستہ کرے گی اور تو کتوں کی طرح دروازوں پر مارا مارا پھرے گا۔ مگر پھر بھی تجھ کو اسی قدر ملے گاجو میں نے تیرے لیئے مقرر کردیاہے۔"


حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زبانی بیان کردہ توریت کے ان کلمات میں آدمی کی اپنی حقیقت ، اللہ تعالیٰ کی چاہت اور محبت اور بندے کے فرائض کی جانب واضح اشارات موجود ہیں ۔انہیں حوالوں سے صوفیاء جیسے حضرت جنید بغدادی ، فرماتےہیں کہ "اللہ تعالیٰ ہی ایک ایسا وجود ہے جس سے لَو لگائی جاسکتی ہے اور معرفت ِ الٰہی بندے کو ایک بلند مقام پر پہنچا دیتی ہے ، اور یہ حقیقت ہے کہ معرفت کاماخذ ومنبع اللہ تعالیٰ ہی کی ذات باری ہوتی ہے۔" (معالی الہمم)