Saturday, 29 November 2014

Lataif-Maqamat-al-Ruhaniyah-dar-Jismul-Insani





UNICODE:

لطائف ستہ ۔ مختصر تعارف؛

بزرگوں نے فرمایا ہے کہ انسان کو حق تعالیٰ نے اپنی حقیقت کا نمونہ بنایا ہے اور اس کے اندر لطائف ستہ پیدا فرمائے ہیں اور اسے اپنی جمالی وجلالی صفتوں سے نواز کرسرفراز وممتاز کیا اور تمام نیکیوں اور سعادتوں کا منبع گردانا اور اپنے  نور سے اسے منور کیا۔ 

اول لطیفہ نفس ہے ۔ یہ اس کو نصیب ہوتا ہے جو ذوق و شوق سے خداوند قدوس کو یاد کرے ۔ وہ کون مبارک درخت ہے کہ اس میں یہ پھل آئے اور کون وہ درویش ہے جو اگر ذکر خدا میں رات کو دن بنائے اور کون وہ فقیر ہے جس کا وقت اس کی فکر میں ہی صرف ہو۔ نور ذات وہ نور ہے کہ اس کا بیان مشکل اور اس کی کیفیتیں بغیر نشان کے محال۔ ہاں بزرگانِ دین نے راسخ العقیدہ مریدوں کی تعلیم کے لیئے چند علامتیں مقرر فرمائی ہیں ۔ اگر ان علامتوں کو معمول بنائے تو مطلوب و مقصود سے بہرہ ور ہوسکتا ہے۔


لطیفہ نفسی:
مختلف صوفیائے کرام نے اپنے اپنے سلسلوں میں اس کے ذکر کے مختلف طریقے بتائے ہیں۔سلسلہ قادریہ ،نقشبندیہ ،مجددیہ میں باوضو قبلہ رخ ہوکرمراقبہ گر ہوتے ہیں۔ اس مراقبہ میں ذکر (اسمِ اللہ ) کیا جاتا ہے۔اس کا بعض علماء نے (اللہ ھو) بھی بیان فرمایا ہے۔ اس لطیفہ کا مقام بعض مشائخ ناف سے ذرا سا نیچے بتاتے ہیں جبکہ بعض ناف اور دل کے درمیاں یعنی ناف سے ایک یا دو انچ اوپر بتاتے ہیں۔ اس مقام کو پار کرنے کے لیئے مراقبہ میں ذکر اسمِ اللہ یا ، اللہ ھُو کے ساتھ ضرب کی جاتی ہے۔ عمومی طور پر کتابوں میں آپ کو ضرب تو بتا دی جاتی ہے لیکن اس کا پریکٹیکل صحیح طریقہ نہیں بتایا جاتا۔ میں نے ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں جو کہ دل پر یا پیٹ پر ہاتھ سے باقائد ہ ہلکا سے پیٹنے  کو ضرب سمجھتے ہیں جو کہ صریحاً نادانی ہے۔ ضرب سے ہمیشہ مراد یہ ہوتی ہے کہ جب آپ مثال کے طور پر (اسم باری تعالیٰ (اللہ) عزوجل) کا ورد کرتے ہیں مراقبہ کے دوران تو مثال کے طور پر آپ نے کہا کہ اللہ،تو (ہ) پر ذور دینا اور اُس کو اُس لطائف کے مقام پر محسوس کرنا ضرب کہلاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہاتھ سے تھپڑ ماریں۔ یہ پہلا مقام ہے لطائف میں ، جب سالک اس کے ذکر میں کامل ہوجاتا ہے۔ اور ماسوا ء اللہ ہرچیز سے تعلق کو توڑ لیتا ہے تب اسمائے باری تعالیٰ کی روشنی اپنے نفس پر قوی پاتا ہے اور اُس کو اپنے نفس کے ساتھ لڑنے میں مدد ملتی ہے اور اُس کو زیر کرنے کو ہی لطیفہ نفسی کا پار لگنا کہا جاتا ہے۔ذکر الٰہی کی کثرت، اوراد ، وظائف کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کی سرکشی کو ختم کرنا اس پہلے مقام کا مقصد ہوتا ہے۔تب ہی تجلیات الٰہی کا ظہور ہوتا ہے۔

لطیفہ ء قلبی:
سلسلہ عالیہ قادریہ سہروردیہ کے بزرگان ِ کرام نے اس کے متعلق یوں ارشاد فرمایا ہے کہ قلب بائیں پہلو میں ایک مخروطی انڈے کی شکل کی ایک چیز ہے ۔ جِسے قلب صنوبری کہتے ہیں اور وہ بائیں طرف دل سے ایک یا دو انگلی نیچے ایک مقام ہے۔سالک (درویش ، صوفی) کو چاہیئے کہ صبح اور دوپہر دن میں شام کو علیحدہ ہوکر گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر زبان کو تالو سے لگا کر لفظ اللہ جو کہ باری تعالیٰ کی ذات اور صفات پر حاوی ہے۔سرنیچے کرکے قلب صنوبری پر ضرب دےاور اتنی ہی دیر تک یہ وظیفہ جاری رکھے کہ لفظ اللہ دل سے سنا جاسکے۔ بلکہ آہستہ آہستہ جیسا کہ جانور کی تعلیم کرتے ہیں زبان سے بغیر کہے ہوئے دل سے کہے انشاء اللہ تعالیٰ ، عنایت الٰہی اور توجہات مرشد ارشاد پناہی سے دل سے آواز پیدا ہوگی۔ جو دوطرح سے ہوتی ہے۔ 

ایک یہ کہ جسے دل کہتے ہیں۔ اس کی حرکت سے آواز پیدا ہو، دوئم یہ کہ قلب سےمل کرتمام بدن سے آواز برآمد ہو اور یہ طریقہ اعلیٰ وارفع ہے ۔ رنگ قلب سرخ رنگ ہے اور تجلیات الٰہی جو آگ کی مانند ہیں ظاہر ہوتی ہیں اور ان کے حاصل ہونے سے سالک اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوتا ہے اور اس کے تمام گناہ اور لغزشیں نیکیوں سے بدل جاتی ہیں،دل کا نور اس قدر ضیا پاش ہوتا ہے کہ تاریک رات میں چیزیں نظر آنے لگتی ہیں اور اولیاء اللہ کی زیارات سے مشرف ہوتا رہتا ہے۔اور جذبات اور عنایاتِ الٰہی سے ایسا پُر ہوجاتا ہے کہ خداوند عالم اسے اس درجہ پر فائز فرمادیتے ہیں جس سے طالب اس شغل سے بلند ترین درجہ پر پہنچ کر خود کو ڈھونڈتا ہے ۔ مگر نہیں پاسکتا اور کوئی نشان اپنا اسے نظر نہیں آتا۔

پس قلب صنوبری اس چیز کا مظہر ہے کہ قلب محمد ی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے آمیختہ یعنی ملا ہوا ہے اور آپ کے نور سے منور ہے اور قلب محمدی قلب بیرنگ کا مظہر ہے۔ جس نے نشان اس کی بے نشانی سے لیا ہے اور اس طرح کی نسبت بمرتبہ بے رنگی ہے اور یہ وحدت کا ظہور ہے۔ (اگر نقش اللہ کا دل پر قائم اور درست نہ ہو تو چاہیے کہ لفظ اللہ کاغذ پر لکھ کر نظر کے سامنے رکھے اور اس طرح اس کی طرف نظر جمائے۔ یہاں تک کہ اس کا مشاہدہ ہو اور جب نقش اللہ بغیر لکھا دیکھے ہوئے نظر کے سامنے آجائے تو اپنی نظر کو ہٹا کر دل کی طرف لے جائے) اور اللہ کی ذات کا مشاہدہ اس پر کرے انشاء اللہ کامل استعداد مرشد کی برکت اور رب العزت کی عنایت سے اللہ کا نشان دل پر درست ہوجائے گا اور آنکھیں اور دل مراقبہ میں بعینہ دیکھ سکیں گے۔ 


لطیفہ روحی:
یہ مقام، سینے کے بیچ ہوتا ہے۔ جب لطیفہ قلبی کا مقام حاصل ہوجائے اور وہ تجلیات خداوندی کی کیفیت پالے ، انوار کا مشاہدہ کرلےاور اللہ کی رحمت اپنے آغوش میں لے لے تو پھر اسے لطیفہ روحی کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے۔ کیونکہ یہ لطیفہ حامل انوارِ الٰہی ہے اور ناختم ہونے والی تجلیات سے بنا ہے ۔ اس طریقہ سے سالک کو چاہیے کہ اپنی توجہ روح کی جگہ پر متوجہ کرے ۔ لفظ اللہ کو اندرونی آواز سے روح کو تلقین کرے اور یہ اسطرح ہو کہ زبان کو مطلق اس کی خبر نہ ہواور اتنا کھو جائے کہ عالم اجسام سے عالم ملکوت اور سیر الی اللہ وسیرنی اللہ من وعن ظاہر ہو اور عالم مثال اور عالم جبروت نظر آئیں اور روح کا سبز رنگ ہے ۔ اسلیئے کہ ذات باری کا رنگ عارف ہے۔ مشاہدہ میں سیاہ رنگ ہے اور روح کا رنگ سبز ہےاور سبز رنگ کو سیاہ رنگ سے نسبت تامہ ہے ۔ اسلیئے کہ ذات اور روح کے رنگ مظہر میں ہے وہی سب کچھ مظہر سے ظاہر ہوگا۔ اس سے غیبت اور دوئی (یعنی جدائی) معدوم ہوجاتی ہے ۔


لطیفہ سری؛
لطیفہ سری کا مقام روحی سے آگے ہے، اس مقام میں بھی مشائخ اپنے مریدوں کو مختلف اوراد وظائف وغیرہ سے مشغول رکھتے ہیں، اسم باری تعالیٰ اللہ کے ساتھ ساتھ لاالٰہ الاللہ کا ذکر کیا جاتا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ حسب سابق مراقب ہوکر لاالٰہ پڑھے اور اپنی سانس کھینچتے وقت لاالٰہ کو اتنا پڑھے کے سانس بھرپور طریقے سے لے چکے پھر سانس کو جتنا روک سکتا ہے روکے، اور اگر حبس دم میں کام نہیں تو لاالٰہ کو جب سانس اندر لے تو پڑھے (زبان تالو سے لگی رہے)، اور الاللہ کہتے وقت ضرب اس مقام پر کرے یعنی یوں سمجھئے آسان الفاظ میں کہ لاالٰہ تب پڑھنا ہے جب سانس لے رہے ہیں اور جب سانس چھوڑ رہے ہیں تو الاللہ پرھتے ہیں اور تصور یہ ہوتا ہے کہ لاالٰہ سے لکیر کھیچ کر اُس مقام تک یعنی الاللہ تک لے جائی جائے اور الاللہ کا اختتام لطیفہ سری پر کیا جائے۔ (یہی کیفیت اور طریقہ کم و بیش لطائف کے تمام حصوں میں ہے)۔ 
لطیفہ خفی:
پنجم لطیفہ خفی کہلاتا ہے ۔ طالب کو جب اللہ تعالیٰ یہ توفیق بخشے کہ وہ چار لطائف پر جو انسان کے جسم سے تعلق رکھتے ہیں ، عامل ہوجائے تو لطیفہ خفی کی طرف رجوع کرے۔ دو لطیفہ سر سے تعلق رکھتے ہیں ، ایک خفی دوسرے اخفی درویش پر ظاہر کیئے جاتے ہیں۔ بعض مشائخ کے مطابق، لطیفہ خفی کامرکز ومکاں دونوں (حاجبین) جبڑوں کے درمیان ہےاور اس کو قلب عبرت اور قلب انوار بھی کہتے ہیں ۔طالب کو چاہیئے کہ لفظ (ھُو) کو دونوں ابروؤں کے درمیان سے اندرونی آواز کے ساتھ (کچھ ذکر بالجہر کا بھی کہتےہیں)نیچے لے جائے جہاں کہ لطیفہ سری ونفسی ہے۔اور زبان ودہان کو اس کی مطلق خبر نہ ہو، اور دونوں حاجبین کے درمیاں سے بائیں طرف کھینچے اور لطیفہ سری کے درمیاں لے جاکرلطیفہ نفسی پر پہنچائے۔ یعنی (ہو) کو پیشانی کے اوپر سے تمام قوت سے نیچے کی طرف لائے اور دوسری مرتبہ ہو کو حاجیبین کے درمیان لمبا کرکے نیچے سے اوپر کو لے جائے اور اسی طرح یہ عمل دہراتا رہے۔ اور نوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حاجبین کے درمیان تلاش کرےاور نوررسالت اور ذات اللہ  کی مدد اور فیض چاہے۔ نیز چاہیے کہ دونوں کانوں سے ہو ہو آواز متواتر باہر آئے ۔اس درجہ کے لاتعداد مدارج و مناقب ہیں۔

لطیفہ اخفی:
جب طالب پر حقیتِ لطیفہ خفی پوری طرح کھل جاتی ہے تو دوسرا لطیفہ جو کہ سر سے تعلق رکھتا ہے اس کی جانب توجہ کرنا چاہیئے۔ کیونکہ اس کا ظاہر ہونا انتہائی ضروری ہے اور اس کو لطیفہء اخفی اور جمع الجمع بھی کہتے ہیں۔ اولیاء اللہ اس کا مکان ونشان ام الدماغ بیان کرتے ہیں ۔ قلب احمر اور قلب مدور بھی اسی کے نام ہیں۔اس کے متعلق ہم اتنا ہی لکھ سکتے ہیں کہ یہ سب سے افضل درجہ ہوتا ہے جس کو بیان کرنا بہت ہی مشکل  ہے۔ ہزارہاں کتب اس کے بارے میں وارد ہیں مگر یہ ایک معمہ ہے کیونکہ اللہ رب العزت کی وحدانیت کا جلوہ اور اپنی ذات کی فنائیت میں اس قدیم بقا اور لامحدود نور ِ الٰہی کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اور اس کا سالک ہروقت وہاں پرمشاہدہ میں غرق رہتا ہے۔ ولایتوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ 


آخری بات:
اس سب لطائف جسم انسانی وروحانی میں داخل ہونے سے پہلے کے بھی کئی مدارہوتے ہیں ، ہم لوگ بدقسمتی سے خود کو صوفی سمجھ تو لیتے ہیں مگر تصوف انتہائی مشکل امر ہے۔ یہ لطائف صرف علم کی ترویج کے لیئے بیان کیئے جاتے ہیں وگرنہ پہلا لطیفہ نفسی تک بھی کوئی نہیں پہنچ پاتا ، ہاں اگر مرشد کامل نصیب ہوجائے تو یہ مدارج وہ بہت جلد طے کرواسکتا ہے۔ علم تصوف کی مستند کتابوں میں لاتعدار طور پر مشائخ وعلماء نے ان مشقوں کا بتایا ہے۔ مختلف خانوادوں کے مطابق ہر ایک کی اپنی اپنی وظائف و اوراد ہوتی ہیں۔اسمائے باری تعالیٰ کا صحیح ترین استعمال اور مکمل یقین ہی انسان کو اس منزل میں لے جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب مرید تیار ہوجاتا ہے تو مرشد خود بہ خود اس کو مل جاتا ہے۔ اور مرید کے تیار ہونے کے لیے بہت ہی پرانی اور بہت ہی سیدھے اصول ہیں، وہ ہیں اللہ کی عبادت، اور اسوہ حسنہ کی پیروی، کیونکہ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ ادب پہلی سیڑھی ہوتی ہے محبت کی راہ میں۔ان سب مدارج میں آنے سے پہلے ایک طویل وقت تحقیق اور دین کو سمجھ کر عمل کرنے میں گزرجاتاہے۔ ہم اُس کو ہی نہیں سمجھ پاتے مکمل طور پر تو بھلا ان مدارج اور مقامات کو کہاں سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ اپنے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقے میں ہم کو عقل عطا فرمائے اور ایمان کی تکمیل ویسے فرمائے جس سے وہ راضی ہو۔ آمین۔

(فقیر احقر مجذوب القادری) 


Friday, 21 November 2014

Refutation to IrshadulHaq Asari Wahabi on Juz al Mafqud minal Musnaf AburRazzaq

مصنف عبدالرزاق کے الجزء المفقود پر وہابی مولوی ارشاد الحق اثری کے مضمون کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ اہلسنت

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)



الجزء المفقود من المصنف لعبدالرزاق ۔ کی جب سے اشاعت ہوئی ہے تب سے وہابیہ کے ہاں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ سب
 سے قبل وہابیوں کے نام نہاد محدث مولوی زبیر علی زئی نے اپنے رسالہ الحدیث حضرو میں اپنے بغض کا اظہار کرتے ہوئے ایک مضمون الجزء المفقود کے رود میں تحریر کیا۔ (جسکا رد اسی بلاگ پر کیا جاچکا ہے انگلش اور اردو میں، مزید آئندہ آرٹیکل میں دیا جائےگا)۔ پھر مولوی یحییٰ گوندلوی نے ایک مضمون تحریر کیا ۔ جو تنظیم اہل حدیث لاہور وغیرہ میں شائع ہوا۔ پھر الاعتصام لاہور اور محدث لاہور میں مولوی ارشاد الحق اثری اور داؤد راشد کا مضمون شائع ہوا۔ مولوی زبیر علی زئی اور مولوی یحییٰ گوندلوی کے مضامین کا ردِ بلیغ دوسرے آرٹیکل میں پیش کیا جائے گا سلسلہ وار۔ اب ذرا وہابیوں کی تری مورتی کے تیسرے محدث کی خباثت وجہالت کو آشکارا کرنا ہے۔


کتنے ظلم کی بات ہے کہ حضور سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عظمت وشان کو یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان بلکہ (اہلحدیث) کہلوا کربھی برداشت نہیں کرتے بلکہ بیشمار صفحات سیاہ کررہے ہیں۔ اے کاش! جتنی محنت یہ ان مضامین پر کرتے ہیں اتنی محنت یہ لوگ معاشرتی برائیوں کے خلاف کرتے مگر انہیں اس سے کیا سروکار! انہوں نے تو خود بے حیائی کے فروغ میں خوب کردار ادا کیا ہے۔ (حوالہ کے لیئے نزول الابرار، عرف الجادی ، فقہ محمدی کلاں، البنیان المرصوص، بدور الاھلۃ، دلیل الطالب دیکھی جاسکتی ہیں)۔


ماہنامہ محدث کے ذمہ داران نے مضمون سے قبل تمہیدی کلمات میں خود کو محدث ڈاکٹر عیسیٰ بن محمد عبداللہ مانع الحمیری پر خوب غصہ نکالنے کی سعی مذموم کی ہے۔ وجہ صر ف یہ ہے کہ انہوں نے عظمت ونورانیت مصطفیٰ کے اظہار کے لیئے کوشش فرمائی ہے اور (الجزء المفقود من المصنف) پر تحقیق فرما کراسکی اشاعت کا بندوبست فرمایا ہے۔ موصوف محدث کو طعن کا نشانہ بنانا وہابیہ کی پرانی مذموم حرکات میں سے ایک ہے۔ 

اسلیئے کہ اگر نورانیت مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اظہار پر محدث (الحمیری) موردِ الزام ہیں تو تمہارے وہابی اکابر نےبھی تو اس کا اقرار کیا ہے۔ تفصیل کے لیئے علامہ ابوحذیفہ محمد کاشف اقبال مدنی رضوی ؒ کی کتاب (نورانیت وحاکمیت) کا مطالعہ کریں۔

 پھر یہ کہنا کہ فلاں حضرات نے اس کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ اس کی کیا حیثیت ہے ۔ کیا وہ لوگ حجتِ شرعیہ ہیں؟ بیشمار علماء اس کو قبول بھی تو کررہے ہیں۔ ہم تو اس بات پر حیران ہیں کہ ایک طرف جلیل القدر ائمہ اربعہ کی تقلید تمہارے ہاں شرک ہے تو ان لوگوں کے اقوال کی تقلید میں (الجزء المفقود من المصنف لعبد الرزاق) کو من گھڑت قرار دینا تمہارا دوغلہ پن نہیں تو کیا ہے۔ اس سے تو تم خود اپنے مزعومہ فتویٰ (شرک) میں مبتلا ہو۔


پھر مولوی ارشاد اثری نے ابتداء میں وضع حدیث اور کتابوں کے غلط انتساب کا تذکرہ آئمہ کے حوالہ سے کیاہے۔ اس سے ہمیں کب انکار ہے کہ بیشمار کذاب لوگوں نے یہ کارستانی دکھلائی ہے۔ مگر مولوی ارشاد اثری نے اپنے وہابی دھرم کے اس وطیرہ کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ حالانکہ یہ بات ان کی کتب سے ثابت ہے کہ موضوع روایات کو بیان کرنا، ان سے استدلال کرنا، کتابوں کا غلط انتساب خود اسی وہابی دھرم کے مذموم کام ہیں ۔(جنکی ہزار بار آرٹیکلز میں یہاں پرریفیوٹیشن سیکشن میں حوالوں اور سکینز کے ساتھ ساتھ ذکر کیا جاچکا ہے) ہم یہاں صرف چند معروضات پیش کریں گے۔

مسئلہ رفع یدین میں وہابیہ خلافیات بیہقی سے ایک موضوع روایت سے استدلال کیا کرتے ہیں۔ جس میں یہ الفاظ ہیں:(فما زالت تلک صلوٰتہ حتی لقی اللہ) ۔

 یہ روایت موضوع ہے حتیٰ کہ اس روایت کو خود امام بیہقی ؒ نے موضوع اور باطل قرار دیا ہے۔ اس میں دو راوی ہیں۔ عبدالرحمٰن بن قریش اور عصمہ بن محمد۔ ان کو محدثین نے کذاب اور وضاع قرار دیا ہے۔ عبدالرحمٰن بن قریش کو اما م ذہبی نے اور امام ابن حجر نے حدیثیں گھڑنے والا قرار دیا ہے۔ یعنی یہ وضاعِ حدیث ہے۔ (حوالہ؛ میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 285، لسان المیزان جلد 3 صفحہ 524)


عصمہ بن محمد کو محدثین کذاب اور وضاع ِ حدیث قرار دیتے ہیں۔ (میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ دو سو چھیاسی)

خطیب بغدادی بھی اسے کذاب اور وضاعِ حدیث کہتےہیں۔ (تاریخ بغداد جلد 21 ،صفحہ 682)

امام ابن جوزی نے آئمہ کے حوالے سے اسے کذاب اور وضاعِ حدیث اور متروک الحدیث قرار دیا ہے۔ (کتاب الضعفاء
 والمتروکین ، جلد 2، صفحہ 671)

امام عقیلی نے بھی اسے آئمہ کے حوالے سے کذاب اور وضاع حدیث قرار دیاہے۔ (کتاب الضعفاء الکبیر للعقیلی جلد 3 صفحہ تین سو چالیس)

خود قاضی شوکانی وہابی نے عصمہ بن محمد کو کذاب لکھا ہے۔ (الفوائد المجموعہ صفحہ 76، 181)
وہابی محدث البانی نے اس عصمہ بن محمد کو منکر الحدیث کہا  ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ  والموضوعہ ۔ جلد 1 صفحہ 562)

اور عبدالرحمٰن بن قریش کو وضاع حدیث متہم بالوضع قرار دیا ہے اور اسی کی ایک روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔ (حوالہ بالا، جلد 2 صفحہ 822)

مولوی عبدالرءوف نے اسی روایت میں آخری اضافے کو باطل کہا ہے۔ (القول المقبول صفحہ 414)

اس روایت کا موضوع ہونا ثابت ہوگیا۔ اس کے علاوہ بھی مزید دلائل اس روایت کے موضوع ہونے پر محفوظ ہیں۔ مگر ! حیرت کی بات یہ ہے کہ وہابیت کی اندھیر نگری میں اس موضوع حدیث کو آج بھی بڑی شدومد سے بیان کیا جارہا ہے۔ مولوی صادق سیالکوٹی وہابی نے صلوٰۃ الرسول (صفحہ 232) ، مولوی اسمعیٰل سلفی وہابی نے رسول کریم کی نماز (صفحہ 15) ، مولوی حافظ محمدگوندلوی وہابی نے التحقیق الراسخ (صفحہ 65-55) ، مولوی نورحسین گرجاکھی  وہابی نے قرۃ العینین ، مولوی زبیر علی زئی وہابی نے نور العینین (صفحہ 342) میں اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ اب یہ تو وہابی محدث ارشاد الحق اثری کو ہی بتانا چاہیئے کہ موضوع روایات سے استدلال اور ان کا فروغ کن کا وطیرہ رہاہے اور ہے ۔ اور پھر اس پر مزید ستم یہ کہ اس موضوع روایت کو ثابت کرنے کے لیئے وہابیوں نے بڑے جھوٹ بولے۔ دیکھئے مولوی نور حسین گرجاگھی  اس موضوع روایت کو بیان کرنے کےبعد لکھتے ہیں؛

(سبحان اللہ! یہ کیسی پیاری اور عمدہ حدیث ہے ۔ جس کو چھیالیس آئمہ نے نقل کیا ہے اور اس کی اسناد کتنی عمدہ ہیں )۔ (قرۃ العینین صفحہ 8،9)

اب وہابیوں کو چاہیئے کہ اس موضوع روایت کو بیان کرنے والے چھیالیس آئمہ کی فہرست مع کتب حوالہ بیان کردیں ورنہ ہم یہی کہہ سکتےہیں:

لعنۃ اللہ علی الکاذبین


 پھر مولوی نورحسین نے مزید جھوٹ بولاکہ امام علی بن مدینی نے  کہا: "یہ حدیث تمام مسلمانوں پر حجت ہے اور بہت صحیح ہے۔ لہٰذا مسلمانوں پر رفع یدین کرنا واجب ہے"۔ (قرۃ العینین صفحہ 9)

پھر باپ کی طرح بیٹے خالد گرجاکھی نے بھی اس موضوع روایت کو ثابت کرنے کیلیئے یہ جھوٹ بولا:

"صاحب آثار السنن نے اس حدیث پر تعاقب نہیں کیا۔ گویا اسے درست تسلیم کیا ہے"۔ (جزء رفع یدین صفحہ 71)


حالانکہ محدث نیموی صاحبِ ِ آثار السنن نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔ (حوالہ آثار السنن صفحہ 152)

پھر خالد گرجاکھی نے اثبات رفع یدین کیلیئے اس موضوع روایت کو ثابت کرنے کے لیئے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے اور مولوی یوسف جے پوری وہابی نے تو جھوٹ میں شیطان کو مات کردیا۔ اور اسی موضوع روایت کو فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہدایہ کے حوالہ سے صحیح قرار دیا ہے۔ (حقیقۃ الفقہ، صفحہ 491)

ہم کہتے ہیں کہ ہدایہ کے حوالہ سے اس موضوع روایت کی تصحیح بیان کرنا وہابیوں کا بدترین جھوٹ اور بددیانتی ہے۔ کوئی وہابی ہے جو اس حوالہ کو اصل کتاب عربی سے نکال کردکھائے
؟


قارئین ! موضوع روایت سے استدلال اور ان کا فروغ ، یہ وہابی دھرم کا وطیرہ ہے جس کو ارشاد الحق اثری نے مخفی رکھنے کی سعیِ مذموم کی ہے۔ اختصار مانع ہے وگرنہ اس پر تفصیلی گفتگو ہوسکتی ہے۔ رہا کتب کا غلط انتساب تو یہ بھی وہابی اکابر کا ہی شیوہ ہے۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کی طرف البلاغ المبین وغیرہ کتب کی نسبت وہابیوں نے کررکھی ہے۔

 کتب حدیث کی طرف حوالوں کا غلط انتساب بھی اکابر وہابی علماء کا طریقہ رہا ہے مثلاً مولوی ثناء اللہ امرتسری نے فتاویٰ ثنائیہ میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایات کا بخاری ومسلم اور ان کی شروحات میں بکثرت ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد 1 صفحہ 444)


حالانکہ بخاری ومسلم میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایات کا بکثرت ہونا تو درکنار ایک بھی صریح روایت موجود نہیں ہے۔ پھر مولوی حبیب الرحمٰن یزدانی نے خطبات ِ یزدانی میں امام بخاری کی طرف ایک وضعی باب (المسح علی الجوربین) کی نسبت کی ہے۔ (خطبات یزدانی جلد 1 صفحہ 432)


حالانکہ یہ بھی یزدانی وہابی کا بدترین جھوٹ ہے ۔ ہے کوئی وہابی صحیح بخاری سے وضعی باب دکھانے کو تیار؟وہابیوں کے جھوٹ اگر ان کی کتب کے حوالہ جات سے لکھے جائیں تو شدید طوالت ہوجائے گی۔ صرف ارشاد اثری کے اپنے جھوٹ ملاحظہ کریں تاکہ آپ کو معلوم ہوسکے کہ دوسرے پر کذب و وضع کا الزام لگانے والا خود بڑے کذاب اور وضاع ہے۔


1۔  ارشاد الحق اثری نے محمد بن اسحٰق کی روایت کو صحیح کہنے والوں میں امام ترمذی کا بھی نام لکھا ہے۔ (توضیح الکلام جلد 1 صفحہ 222، جلد 2،صفحہ 153)

 امام دارقطنی کے حوالے سے بھی اسی روایت کو صحیح لکھا ہے۔ (توضیح الکلام جلد 2 صفحہ تین سو اکیاون)

امام حاکم کے حوالہ سے اسے صحیح کہا (حوالہءبالا)۔ امام منذری کے حوالہ سے اسی کو صحیح کہا (دوبارہ حوالہ مذکور)۔

حالانکہ یہ سب جھوٹ ہیں۔ ان آئمہ نے اس روایت کو صحیح کے لفظ سے ہرگز نہ لکھا اور نہ اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ پھر سند کا صحیح ہونا متنِ حدیث کے صحیح ہونے کو کب مستلزم ہے۔اور ان آئمہ نے یہ ہرگز نہیں کہا ہے۔ یہ اثری صاحب (وہابیوں کے محدث) کا بدترین جھوٹ اور افتراء ہے۔ 


2۔ پھر مولوی اثری نے لکھا ہے :

"امام بخاری نے صحیح بخاری میں اِس (معمر) کے تفرد پر کلام کیاہے"۔ (توضیح الکلام جلد 2 صفحہ تینسو تریسٹھ)

حالانکہ یہ بھی مولوی نے جھوٹ بولا۔ معمر کے تفرد پر امام بخاری نے کلام نہیں کیا بلکہ اس کے تفرد کو قبول کیاہے، اسی وجہ سے امام بخاری پر اعتراض کیا گیا ہے۔ اس کو امام ابن حجر عسقلانی نے بیان کیا ہے۔ (حوالہ ؛ فتح الباری جلد 51 صفحہ ایکسو بیالیس)

بلکہ امام ابن حجر کی اس عبارت کو خود وہابی محدث عبدالرحمٰن مبارکپوری نے بھی نقل کرکے اس پر سکوت کیا ہے۔ (تحفۃ الاحوذی جلد دوئم صفحہ تین سو اکیس)۔ اس کا ذکر محدث جلیل امام عینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کیا ہے۔ (عمدۃ القاری جلد تئیس صفحہ 692)


3۔ مولوی ارشاد الحق اثری نے محمد بن اسحٰق کے دفاع میں کہا ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اسے جو کذاب کہا ، امام یحییٰ بن معین نے کہا کہ یہ کلام میں غلطی کی بناء پر امام مالک نے کہا وگرنہ حدیث میں تو وہ ثقہ ہے۔ (ملخصاً، توضیح الکلام ، جلد 1 صفحہ دوسو چالیس)


حالانکہ یہ مولوی ارشاد اثری کا بدترین جھوٹ ہے۔ اس لیئے کہ امام ابن معین کا یہ کلام محمد بن اسحٰق کے بارے میں نہیں بلکہ ہشام بن عروہ کے بارے میں ہے۔ (حوالہ ؛ تاریخ بغداد جلد 1 صفحہ 4-322)

4۔ مولوی اثری نے محمد بن عزیز راوی کی ابن شاہین کے حوالہ سے ثقاہت بیان کی ہے۔ (توضیح الکلام ، جلد 1 صفحہ ایکسو چھیاسٹھ)


یہ بھی جھوٹ در جھوٹ ہے حالانکہ امام ابن شاہین تو کہتے ہیں کہ امام احمد بن صالح اس کے بارے میں بُری رائے رکھتے ہیں ۔( حوالہ۔ تہذیب التہذیب جلد 9 ، صفحہ تین سو پینتالیس)
5۔ اس اثری نے بعض راویوں کوصحاح ستہ کے راوی کہا۔ (توضیح،ایضاً جلد 2، صفحہ 117)

حالانکہ یہ بھی جھوٹ اور کذب بیانی ہے۔ ان مذکورہ راویوں میں سے بقیہ علاوہ (مکحول) صحاح ستہ کے راوی نہیں ہیں اور پھر جہالت کا یہ حال ہے کہ اس اثری کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ امام تفتازانی کی کتاب توضیح ہے یا تلویح۔ یہ اثری توضیح کو امام تفتازانی کی کتاب قرار دیتا ہے۔ (توضیح الکلام، جلد 2 صفحہ 588) 
حالانکہ ان کی کتاب تلویح ہے جو توضیح کی شرح ہے۔

اور جھوٹی حدیثیں گھڑنے کا کام بھی وہابیوں کے اکابر نے کیاہے۔ دیکھیئے مولوی اسماعیل دہلوی نے حضور عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف منسوب کیا کہ میں بھی ایک دن مرکر مٹی میں ملنے والا ہوں۔ (تقویۃ الایمان، صفحہ 16)

ہے کوئی وہابی یہ روایت یا حدیث دکھانے کو تیار؟

اصل میں وضاعِ حدیث ، منکرین حدیث اور کذاب یہ وہابی خودہیں مگر سینہ زوری ہے ان کی کہ یہ الزامات دوسروں پر لگاتے ہیں۔ 

مولوی ارشاد الحق اثری نے اپنے خود ساختہ دلائل سے (الجزء المفقود من المصنف) کو من گھڑت ثابت کرنے کی بدتر کاوش کی ہے۔ حالانکہ اس کو چاہیے تھا کہ وہ موضوع ومن گھڑت کتب کی شرائط و اصول کتاب و سنت سے لکھتا، پھر باقی بات چلتی۔ 

ہم کہتے ہیں کہ جب تمہارے نزدیک آئمہ اربعہ کی تقلید شرک ہے تو دیگر محدثین کی تقلید کیسے جائز ہے؟

"کتاب مخطوطے میں سماع کا ہونا ضروری ہے"۔ کہاں کتاب و سنت میں اس شرط کی اصل موجود ہے؟

اور پھر تمہارا یہ کہنا کہ محدث عیسی بن مانع بھی اسی مخطوطے الجزء المفقود من المصنف پر مطمئن نہیں ہیں۔کیا اس سے اس مخطوطے کا من گھڑت ہونا ثابت ہورہا ہے؟ اور پھر اگر وہ تمہارے سامنے اس الجز المفقود پر مطمئن ہوجائیں تو کیا تمہارے نزدیک یہ الجزء المفقود معتبر ہوجائے گا؟

رہا سماع کا کتاب پر ہونا یا مخطوطے پر ہونا تو وہ کئی کتبِ محدثین ایسی ہیں جن پر محققین نےواضح لکھا ہے کہ اس پر کوئی سماع نہیں ہے ۔ دیکھو مسائل الامام احمد وشرف المصطفیٰ وغیرہ۔ اگر تمہارے اس اصول کو مان لیا جائے تو اس سارے ذخیرہء حدیث سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ متعدد کتب کے اسماء مبارکہ اس موضوع پر لکھے جاسکتے ہیں۔ 


پھر تمہارا اس کے ناسخ کی ثقاہت پر گفتگو کرنا بھی بے سود ہے ، پہلے تمہیں اپنے اس اصول پر پختہ نظریہ رکھتے ہوئے دیگر کتب کے بارے میں یہی نظریہ اپنانا چاہیئے جو کہ ہرگز تمہارا نظریہ نہیں ہے۔ مثلاً جزء رفع یدین اور جزء قراۃ کو تم لوگ امام بخاری کی طرف منسوب کرکے بڑا ان سے استدلال کرتے ہو۔ یہ تو بتاؤ کہ اس کا ناسخ تو ایک طرف اس کا مرکزی راوی محمود بن اسحاق ہی مجہول ہے۔ اس کی ثقاہت تو آج تک تمہارے اکابر سے اصاغر ثابت نہ کرسکے، تمہارے محدث زبیر علی زئی نے بھی اس سے جان چھڑانے کی ہی کوشش کی ہے۔ کیونکہ صریح ثقاہت اس کی تمہارے بس میں ہی نہیں ہے۔ تو ان کتب سے تمہارا استدلال تمہارے کلیہ سے ہی باطل و مردود ہوا۔


پھر مولوی زبیر علیزئی نے جزء رفع یدین جو شائع کیا ہے اس کے ناسخ کا ہی علم نہیں ہے۔ جس کا ناسخ تمہارے مطابق مجہول ہے وہ تو من گھڑت نسخہ ٹھہرا۔ جس کے ناسخ کا ہی پتہ نہیں ہے، وہ قابل اعتبار ٹھہرا؟ ۔ کیا کہنے تمہارے انصاف کے واہ!


رہا تمہارا الجزء المفقود کے ناسخ کو مجہول قرار دینا تو یہ ہرگز معتبر نہیں ہے۔ تمہارے گروابن حزم نے تو امام ترمذی کو بھی مجہول قرار دے دیا تھا۔ (حوالہ ؛ ابن حزم کی کتاب الاتصال، باب الفرائض جس کا تذکرہ میزان الاعتدال اور تہذیب التہذیب میں موجودہے)


اس لیئے تمہاری ساری تقریر ہی ناقابلِ اعتبار ہے۔ اور پھر مجہول کے متعلق تم جو کلیہ بیان کررہے ہو اسکا اثبات بھی کتاب وسنت سے کرووگرنہ اپنے دعویٰ کا بطلان تمہاری اس تحریر نے کردیا ہے۔ یہی ہم کہتے ہیں کہ وہابی دعویٰ قرآن و حدیث کا تو کرتے ہیں مگر قرآن وحدیث سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیںہے۔ اور اگر قرآن مجید سے استدلال کی بات کرتے ہو تو سنو! قرآن مجید نے تو مسلمان کے بارے میں بدگمانی سے منع کیا ہے ۔ (دیکھو سورۃ الحجرات) 
تو جب تک تمہارے پاس جز ء المفقود کے ناسخ پر جرح موجود نہیں ہے تو تمہاری ساری تقریر ہی بے تکی اور ناقابل اعتبار ہے۔


پھر تمہارا یہ کہا کہ "مصنف" کتاب اور ابواب کے تحت مرتب کی گئی ہے مگر الجزء المفقود میں کتاب کا عنوان ہی نہیں ہے۔ کیااس سے کتاب کا من گھڑت ہونا ثابت ہوجاتاہے؟۔ خود جلیل القدر آئمہ محدثین کئی احادیث پر باب نہیں باندھتے یا صرف باب لکھ کر عنوان نہیں لکھتے تو اس سے یہ ساری کتابیں من گھڑت ثابت ہوجائیں گی؟۔ یہ تمہاری جہالت ہے اور صرف اور صرف تمہارا خودساختہ اصول ہے جس کا کتاب وسنت میں کوئی ثبوت نہیں ہے تو گویا جزء المفقود پر تمہارا دعویٰ موضوع ومن گھڑت ہونے کا باطل ومردو د ہے۔

پھر تمہارا الجزء المفقود کے مخطوطے میں شامل احادیث کو کتابت کے تساہل کی وجہ سے من گھڑت کہنا بھی باطل ہے ۔ اس لیئے کہ یہ اصول بھی تمہارا خود ساختہ ہے۔ کتب حدیث میں اغلاط ِ کتابت ہوتی رہتی ہیں۔ جن کی آئمہ محدثین نے نشاندہی بھی فرمائی ہے اور جو غیر معروف کتب ہیں وقتاً فوقتاً اس کی اطلاع ہوہی جاتی ہے مگر اس سے کتاب کا من گھڑت ثابت کرنا تمہاری سینہ زوری ہے۔ کم ازکم اپنے گرو حافظ محمد گوندلوی کی کتاب خیر الکلام صفحہ تین سو چوالیس سے ہی کتب حدیث میں اغلاط کا ہوجانا پڑھ لیتے۔ 


بلکہ تم نے خود کتب حدیث میں زیادت و تنقیص کا ذکر اپنی کتب مثل توضیح الکلام وغیرہ میں کیاہے تو کیا یہ ساری کتب من گھڑت ثابت ہوگئیں؟ ۔ (معاذ اللہ) 


یہ تمہاری حدیث دشمنی نہیں تو اور کیاہے ۔ منکرین حدیث کی حوصلہ افزائی نہیں تو کیاہے؟

اسنا دومتن میں تسامح ہوجانے سے کتاب من گھڑت ثابت کرنا نری جہالت ہے یا خباثت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ا س طرح کی غلطیاں تو کتب صحاح ستہ میں بھی موجود ہیں۔ مثلاً امام بخاری نے ایک سند یوں بیان کی ہے:

"حدثنا عبدالعزیز بن عبداللہ قال حدثنا ابراھیم بن سعد عن ابیہ عن حفص بن عاصم بن مالک بن بحینۃ "۔ (صحیح البخاری جلد 1 صفحہ اکیانوے)


حالانکہ یہ صریح غلطی ہے ۔ اس لیئے کہ بحینہ عبداللہ کی والدہ ہے نہ کہ مالک کی ، حالانکہ امام بخاری نے اسے مالک کی والدہ قرا ردیا ہے۔ بلکہ امام بخاری اس روایت میں آگے لکھتے ہیں؛

"سمعت رجلا من الازد یقال لہ مالک بن بحینۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رای رَجُلاً۔ (حوالہ ء بالا)

اس حدیث کو امام بخاری نے مالک سے روایت کیا ہے حالانکہ یہ روایت مالک کے بیٹے عبداللہ بن مالک سے مروی ہے۔ مالک تو مشرف بہ اسلام بھی نہیں ہوئے تھے۔ امام مسلم، نسائی، ابن ماجہ نے بھی یہ روایت بیان کی ہے مگر اس میں یہ غلطیاں نہیں کیں۔ خود امام ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے؛

"اس روایت میں دو جگہ وہم ہے۔ اول یہ کہ بحینہ عبداللہ کی والدہ ہے نہ کہ مالک کی۔دوسرا یہ کہ صحابی اور راوی عبداللہ ہیں نہ کہ مالک"۔  (حوالہ ؛ فتح الباری جلد 2 صفحہ 092 مترجم)


الجزء المفقود من المصنف پر اغلاط وتساہل وغیرہ کے اعتراضات کرنے والے وہابی اتنا تو بتادیں کہ سند میںاستاد کو شاگرد اور شاگرد کو استاد بنانا جرم ہے اور اس سے کتاب من گھڑت ثابت ہوتی ہے تو کیا یہ کم ظلم ہے کہ کافر کو صحابی اور صحابی کو۔۔۔۔۔۔۔بنا دیا جائے، تو کیا تمہارے اس خود ساختہ اصول سے صحیح بخاری من گھڑت ثابت ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ بعض اغلاطِ کتبِ احادیث ومحدثین کا حوالہ ہم مکاشفہ بلاگ کے آرٹیکلز میں مولوی زبیر علی زئی کے رد میں دے چکے ہیں۔ وہاں سے نوٹس لے لیں۔ اس کے علاوہ بے شمار حوالہ جات موجود ہیں۔ اختصار مانع ہے ورنہ اس پر ایک مبسوط تحریر کیا جاسکتا ہے۔

پھر تمہارا یہ کہنا کہ یحییٰ بن ابی زائد کی الجزء المفقود میں پانچ روایات ہیں۔ باقی پوری مصنف میں ایک بھی روایت نہیںہے اور اس کو تم نے الجزء المفقود کے وضعی ہونے  کی دلیل بنایا ہے جو کہ باطل ومردود ہے۔ پہلے تو تم اپنے اصول کا اثبات کرو اس کےبعد باقی بات کرو۔ کتب حدیث میں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک راوی کی ایک ہی روایت پوری کتاب میں ہو یا ددو یا پانچ ہوں یا ابتداء میں ہوں یا آخر میں ہوں مگر اس سے کتاب کے من گھڑت ہونے کا دعویٰ باطل ہے۔

پھر انقطاع ِ سند کی چند مثالوں سے جز المفقود کو من گھڑت ثابت کرنا بھی وہابیوں کی ہٹ دھرمی ہے ۔ انقطاع ِ سند کا معاملہ تو بیشتر کتب حدیث میں موجود ہے ۔ بلکہ صحیح بخاری میں بھی ہے جس کا حوالہ زبیر علی زئی کے رد میں دیا جاچکا ہے تو کیا یہ سارا ذخیرہ احادیث من گھڑت ثابت ہوجائے گا؟۔ کتب حدیث میں سند کا انقطاع تو تمہیں اپنی کتب مثل توضیح الکلام وغیرہ میں بھی تسلیم ہے۔ اور تمہارے دیگر اکابر کو بھی مسلم ہے مگر اس سے ان کتب کے من گھڑت ہونے کا دعویٰ باطل ومردود ہے۔ تمہارے گرو زبیر علی زئی نے متعدد کتب حدیث سے ایک روایت میں انقطاع سند کا ذکر کیا ہے بلکہ راوی کا صحابی کی وفات کے بعد پیدا ہونا بیان کیا ہے۔ (حوالہ: ماہنامہ الحدیث حضرو، جون 6002ء) 


مگر وہاں کتب حدیث کامن گھڑت ہونا بیان نہیں کیا۔ آخر کیوں؟ اور پھر کسی کتاب میں موضوع روایت کے آجانے سے کتاب موضوع ثابت کرنا وہابیوں کی سینہ زوری ہے۔ 


پھر الجز کی روایات نور میں تعارض ثابت کرنے کی سعی مذموم بھی تمہاری جہالت پر ثبو ت ہے۔ اس لیے کہ اگر روایات میں تقدم وتاخر سے تعارض ثابت ہوتا ہو توقرآن مجید میں (واسجدی وارکھی) سے کیا ثابت ہوگا؟۔ اصل میں وہابیہ اپنی عقل کے بل بوتے پر انکار حدیث پر بڑے جری ہیں ۔ مگر اہلسنت ، حدیث کو ٹھکراتے نہیں ہیں بلکہ حتی المقدور تطبیق کی کوشش کرتےہیں۔ 

اپنی خواہشات ِ نفسانی کی خاطر انکار حدیث وہابیوں کا محبوب مشغلہ ہے۔مثلاً وہابیوں کے محدث گرو، عبداللہ روپڑی سے کسی نے سوال کیا کہ حضور سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اختیار کی بحث میں دو نمازوں کے پڑھنے کی اجازت پر قبول اسلام کی روایت حدیث ہے یا نہیں؟
جواب دیا: یہ حدیث جھوٹی ہے کسی کتاب میں نہیں ہے۔ (فتاوی اہلحدیث؛ جلد 1 صفحہ 793)


حالانکہ یہ مذکورہ روایت مسند امام احمد میں موجود ہے۔ (حوالہ؛ مسند امام احمد جلد 5 صفحہ 52، طبع بیروت۔ جلد 5 ، صفحہ 633، طبع گوجرانوالہ پاکستان)



ان روایات ِ نور میں تطبیق دے دی جائے۔ جیسا کہ آئمہ محدثین نے دی ہے کہ اولیت حقیقیہ نور محمدی کو حاصل ہے، باقی اشیاء کو اولیت اضافی ۔ تو یہ تعارض پیدا نہ ہوگا۔ اور اس صورت میں تعارض ثابت کرنا وہابیوں کی جہالت وخباثت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ خود ہی اس روایت ِ نور کی سند کو بظاہر صحیح بھی تسلیم کیا ہے پھر اور کیا چاہیئے؟


رہا الفاظ کا اختلاف (المواہب اللدنیہ) اور (الجزء المفقود) میںتو اس سے بھی کتاب کا من گھڑت ثابت کرنا وہابیوں کی کمینگی ہے۔ جب نسخوں کے اختلاف کی وجہ سے الفاظ کا اختلاف تمہیں تسلیم ہے تو اس کے باوجود اس پر مُصر ہونا اور اس کو من گھڑت ثابت کرنے کی دلیل بنانا باطل ومردود ہے۔ اس طرح کے الفاظ کا اختلاف تو کتب حدیث ومحدثین میں مل جاتا ہے۔ مگر اختلاف ِ الفاظ سے کتاب من گھڑت ثابت کرنا وہابیوں کی خودساختہ شرط ہے جو کہ باطل ومردود ہے۔
متن میں اضطراب کی مثالیں کتب حدیث میں بیشمار ہیں مگر یہ کلیہ کسی بھی محدثین کرام کے گروہ کا نہیں ہے کہ اس سے کتاب من گھڑت ثابت ہوجاتی ہے۔ یہ وہابیوں کی خباثت ہے جو کہ عظمت رسول کے خلاف ان کی مہم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

حرف آخر:

وہابیوں لہابیوں کی دشمنی رسول اس سے واضح ہورہی ہے کہ صرف عظمتِ رسول کے اظہار پر وہابیوں کے ہاں صفِ ماتم بچھ گئی اور یہ کسی صورت ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ 


الجزء المفقود من المصنف کے معتبر ہونے کے لیئے اتنا ہی کافی ہے کہ جلیل القدر آئمہ محدثین کرام نے حدیث نور کو اس 

مصنف کے حوالہ سے بیان کیاہے، اس الجزء المفقود میں باسند صحیح موجود ہے۔ اسی الجزء المفقود کے الفاظ سے اس روایت کو شیخ ابن العربی نے تلقیح الفہوم میں نقل کیا ہے۔ مگر ستیاناس ہووہابیہ کی گندی ذہنیت کا، عظمت مصطفیٰ تو انہیں ایک لمحہ کے لیئے بھی نہیں بھاتی۔ اس موضو ع پر ان کی طرف سے تین مضامین شائع کیئے جاچکے ہیں ۔ جبکہ تینوں کا الحمدللہ، پوسٹ مارٹم علماءے اہلسنۃ نے بخوبی کردیا ہے۔تینوں مضامین پر مزید بھی جلد آرٹیکلز پیش کیئے جائیں گے ۔ تینوں میں چونکہ کافی دلائل خودساختہ کی مماثلت تھی۔ اسی لیئے زیادہ تفصیل سے انگلش آرٹیکل میں بیان کردی گئی تھی۔وہابیوں کو چاہیئے کہ اپنے خودساختہ دھرم کے اصولوں کو مدنظر رکھیں اور اگر کچھ ثابت کرنا چاہیں تو صرف اپنے "دعویٰء کتاب وسنت" کے مطابق صرف کتاب وسنت سے ہی ثابت کریں اور قیاس کرکے اپنے بقول شیطان نہ بنیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ تاجدارِ کائنات کے صدقے میں ہمیں ان گمراہ بے دین لغو، مکار، منافق، جھوٹے اورافتراء پرداز فرقوں سے حفاظت و سلامتی عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی (صلی اللہ علیہ وسلم


انتخاب از، علمی محاسبہ ۔ حضرت مولانا ابوحذیفہ محمد کاشف اقبال رضوی مدنی ۔ سرپرست انجمن فکر رضا پاکستان۔
تقدیم۔ حضرت علامہ مولانا ابوالحقائق غلام مرتضیٰ ساقی مجددی ۔ 
پیشکش؛ مجذوب القادری،عمران اکبر ملک

کمپوزنگ ۔ ضرب حق  برائے مکاشفہ ورڈ پریس ڈاٹ کام



اس پوسٹ کو صحیح اردو فونٹس میں پڑھنے کے لیئے نیچے دیئے گئے ریگولر بلاگ پر وزٹ کریں شکریہ۔



Tuesday, 11 November 2014

Translation of a Passage from Imam Abdul-Wahab-Al-Shaaraani (rt)'s Arabic Work

Manuscript: al Yawaqeet al Jawahir
Writer: Imam - Qutub al Rabbani, Sheikh Abdul-wahab-al-Shaarani (rt)
Translation: Urdu / English (courtesy ZH)


انتخاب، از الیواقیت الجوھر، از امام عارف الربانی، قطب شیخ امام عبدالوہاب الشعرانی رحمتہ اللہ علیہ!


ترجمہ اردو:

تیسرا باب : اہل طریقت کی طرف سے عذر


کے بیان میں وہ ایسی گفتگو فرماتے ہیں جو ان کے علاوہ دوسرے کے لیئے پیچیدہ ہوتی ہے:۔

"جان لو اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے! کہ قوم کے لیئے اُمورِ طریقت میں رمز کی دلیل وہ ہے جوکہ بعض احادیث میں روایت کی گئی کہ رسول پاک (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ایک دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "کیا تُو جانتا ہے فلاں دن فلاں دن۔ عرض کی : "جی ہاں" یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے مجھ سے یوم ِ مقادیر کے بارے میں پوچھا ہے۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے ایک دن فرمایا ؛ اے ابوبکر! کیا تجھے معلوم ہے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ عرض کی؛ جی ہاں۔ وہ  وہ ہے، وہ وہ ہے ۔ اسے تاج الدین بن عطاء اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی بعض کتابوں میں حکایت فرمایا"۔ 

شیخ محی الدین رحمتہ اللہ علیہ  کی وضاحت:



"اور شیخ محی الدین رحمتہ اللہ علیہ  نے فتوحات کے 45 ویں باب میں یوں فرمایا ہے ؛ "جا ن لو کہ اہل اللہ نے وہ اشارات جن پر اپنے مابین اصطلاحات رکھی ہیں اپنے لیئے وضع نہیں کیئے کیونکہ وہ تو اس حق میں صریح واقف ہیں ۔ یہ صرف اپنے درمیان داخل ہونے والے کو روکنے کے لیئے وضع کی ہیں حتیٰ کہ وہ اس حال کو نہ پہچان سکے جس پر وہ فائز ہیں۔ اور یہ اس شفقت کے طور پر کرتے ہیں کہ کہیں ایسی چیز سن لے جس تک اس کی رسائی نہیں پس اہل ِ اللہ پر انکار کردے تو اسے اس کی محرومی پر سزا دی جائے پس وہ پھر کبھی اسے نہ پاسکے گا۔ نیز فرماتے ہیں کہ اس راستے میں سب سے عجیب شئے جو کہ اس کے سوا کہیں پائی نہیں جاتی یہ ہے کہ منطقیوں ، نحویوں، اہل ہندسہ وحساب ، علم الکلام والوں اور فلسفیوںمیں سے جو گروہ بھی کسی علم کا حامل ہے ان کی اپنی اصطلاح ہے جسے ان میں داخل ہونے والا نہیں جانتا مگر جب وہ خود اسے واقفیت بخشیں۔ اس کے سوا چارہ نہیں مگر اس راستے والوں کا خصوصیت کے ساتھ یہ حال ہے کہ مرید صادق جب ان کے طریق میں داخل ہوتا ہے جبکہ اسے ان اصطلاح کی کوئی خبر نہیں ہوتی ۔ اور ہم نشینی کرتا ہے اور ان سے مبنی براشارات گفتگو سنتا ہے تو وہ ساری گفتگو سمجھ لیتا ہے گویا اس اصطلاح کا وضع کرنے والا وہی ہے اور وہ اس علم میں گفتگو میں ان کے ساتھ شریک ہوجاتا ہے۔ اور وہ اپنی طرف سے اس میں اجنبیت محسوس نہیں کرتا، بلکہ اس کا علم ضروری پاتا ہے۔ اسے روک نہیں سکتا۔ گویا وہ اسے شروع سے ہی جانتا ہے۔ اور نہیں جانتا کہ اسے علم کیسے حاصل ہوا۔ یہ مریدِ صادق کی شان ہے۔ رہا کاذب تو وہ واقفیت دلائے بغیر اسے نہیں پہچان سکتا۔ اور اس کے اخلاص فی الارادہ اور اس کی طلب کے بغیر قوم میں سے کوئی بھی اس پر سخاوت نہیں کرتا"۔ (یعنی علم سے نہیں نوازا جاتا)

"اور ہر دو ر میں علماء ظاہر قوم (یعنی صوفیاء) کی کلام وفہم میں توقف کرتے رہے (یعنی احتیاط، یعنی کفر شرک  کے فتوے سے پرہیز)۔ اور امام احمد بن سریج ایک دن جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ ان کی کلام سے آپ کیا سمجھے؟ فرمایا؛ معلوم نہیں ! لیکن ان کی گفتگو کا رعب دل میں ظاہر پاتا ہوں۔ جو کہ باطنی عمل اور ضمیر کے اخلاص پر دلالت کرتا ہے۔ اور ان کا کلام کسی باطل پرست کا کلام نہیں ۔ انتہی۔ 

"پھر یہ حضرات اشارہ کے ساتھ صرف اس وقت بات کرتے ہیں جب ان کے پاس وہ شخص حاضر ہو جو ان میں سے نہیں یا ان کی تالیف میں ہو۔ پھر فرمایا؛ مخفی نہ رہے کہ باطل پرست دشمن کا انکار اصل میں صرف حسد کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ اور اگر یہ منکر حسد ترک کردیتے اور اہل اللہ کے راستے پر چلتے تو ان سے کوئی انکار ظاہر ہوتا نہ حسد ۔ اور اُن کے علم کے ساتھ ساتھ اِن کا علم بھی زیادہ ہوتا۔لیکن یہ ایک امر مقدر تھا۔ فلاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم۔ اور اس بارے میں طویل کلام فرمایا۔"

"پھر فرمایا کہ عطیہء الٰہی کے علم والوں کے شدید دشمن ہردور میں بے ادب اہل جدال ہیں۔ اور ان پر یہی لوگ شدید انکار کرنے والے ہیں۔ اور جب عارفین نے یہ امر پہچانا تو اشارات کی طرف پھر گئے جیسے افک و الحاد والوں کی وجہ سے حضرت مریم علیہم السلام اشارہ کی طرف پھر گئیں۔ پس ان کے نزدیک ہر آیت یا حدیث کی دو وجہیں ہیں۔ ایک وجہ جسے وہ اپنے آپ میں دیکھتے ہیں اور ایک وجہ اس میں دیکھتے ہیں جو کچھ ان سے خارج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ سنریھم آیاتنا فی الآفاق وفی انفسھم (حٰم سجدہ ؛ آیت 35)  ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں اور ان کے نفسوں میں دکھائیں گے"۔ پس یہ حضرات جوکچھ اپنے آپ میں دیکھتے ہیں اسے اشارہ کا نام دیتے ہیں۔ تاکہ منکرین ان پر مانوس ہوں اور یہ نہ کہیں کہ یہ اس آیت کی یا حدیث کی تفسیر ہے۔ اور ایسا ان کے شر سے اور فتویٰء کفر سے بچنے کے لیئے کرتے ہیں کہ تہمت ِ کفر لگانے والے خطاب ِ حق کے مواقع سے جاہل ہیں۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے اسلاف کی سنتوں کی پیروی کی ہے۔

بے شک اللہ تعالیٰ قادر تھا کہ اہل اللہ وغیرہم ، نے جن مسائل کو تاویلاً بیان کیا ہے اپنی کتا ب میں آیات متشابہات اوراوائل سورہ کی طرح نصاب میں بیان فرما دیتا۔ اس کے باوجود ایسا نہیں کیا بلکہ ان کلمات و حروف ِ الٰہیہ میں ایسے مخصوص علوم درج فرما دیئے جنہیں اس کے صرف منتخب بندے ہی جانتے ہیں۔" 


منکرین کو دعوت انصاف:

"اور اگر منکرین انصاف کرتے تو اپنے آپ میں عبرت حاصل کرتے جب وہ ظاہری آنکھ سے آیت میں نظر کرتے ہیں جسے وہ اپنے مابین تسلیم کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ اس میں ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں اور اس آیت کے معنوں میں کلام اور فہم میں ان کا بعض ، دوسروں پر فائق ہے۔ اور ان میں سے جو غیر قاصر کی فضیلت کا اقرار کرتا ہے ۔ اور سب ایک ہی نہج پر ہیں۔ اور اپنے مابین مشہور باہمی فضیلت کے باوجود جب اہل اللہ کوئی ایسی چیز لاتے ہیں جو ان کے ادراک سے گہری ہے تو ان پر انکار کرتے ہیں۔"

اہل اللہ کے متعلق منکرین کا غلط عقیدہ:

"اور یہ سب کچھ اس لیئے کہ وہ اہل اللہ کے بارے میں عقیدہ ہی نہیں رکھتے کہ انہیں شریعت کا علم ہے اور انہیں جہالت اور گمراہی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ علی الخصوص اگر انہوں نے علماء ظاہر سے نہیں پڑھا۔ اور یہ لوگ اکثر کہتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس علم کہاں سے آیاکہ ان کا عقیدہ ہے کہ علم کسی تک نہیں پہنچتا مگر کسی معلم کے ذریعے۔ اور وہ اس میں سچے ہیں، کیونکہ قوم ِ صوفیاء نے جب اپنے علم پر عمل کیا توانہیں اللہ تعالیٰ نے اعلام ربانی کے ساتھ اپنی طرف سے علم عطا فرمایا جسے ان کے دلوں میں شریعت کے عین مطابق نازل فرمایا۔ ایک ذرے کے برابر بھی اس سے باہر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نےفرمایا؛ خلق الانسان علمہ البیان۔ (الرحمٰن) ۔ انسان کو پیدا فرمایا، اسے بیان سکھایا۔ نیز فرمایا علم الانسان مالم یعلم ۔ انسان کو وہ کچھ پڑھایا جو نہیں جانتا تھا۔اور  اپنے بندے حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق فرمایا ۔ وعلمناہ من لدنا علما۔ اور ہم نے اسے اپنے ہاں سے علم پڑھایا تو منکرین نے اپنے قول میں سچ بولا کہ علم صرف معلم کے واسطے سے ہی ہوتا ہے۔ اور اپنے عقیدے میں غلطی کرگئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نہیں پڑھایا،جو نبی ہے نہ رسول ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (یؤت الحکمتہ من یشاء (البقرۃ آیت 962)) جسے چاہے حکمت عطا فرماتا ہے۔ اور حکمت ہی علم ہے۔ اور یہاں من لایا گیا جو کہ نکرہ ہے۔ لیکن ان منکروں نے جب دنیا میں بے رغبتی ترک کردی اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دی جو کہ اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کرتی ہے اور علم کتابوں اور لوگوں کے مونہوں سے حاصل کرنے کی عادت بنا لی تو انہیں یہ جاننے سے حجاب میں کردیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے ہیں جن کے سرائر میں ان کی تعلیم کا وہ خود متولی ہے،کیونکہ پورے موجودات کا معلم حقیقی وہی ہے اور اس کا علم ہی علم ِ صحیح ہے جس کے کمال میں مومن اور غیر مومن شک نہیں کرتے۔کیونکہ جن لوگوں نے پہلے یہ قول کیا کہ حق تعالیٰ کا علم جزئیات کے ساتھ متعلق نہیں انہوں نے جزئیات کے ساتھ علم الٰہی کی نفی کا ارادہ نہیں کیا۔ ان کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ حق تعالیٰ تمام اشیاء کلیات وجزئیات کو علم واحد کے طور پر جانتا ہے پس اپنے علم بالجزئیات کے لیئے جزئیات کی تفصیل کی ضرورت نہیں جیسے کہ یہ مخلوق کے علم کا حال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے ۔ پس انہوں نے اس کے علم کی تفصیل پر موقوف ہونے سے تنزیہہ کا ارادہ کیا۔ پس ان لوگوں نے تعبیر میں غلطی کی۔ پس معلوم ہوا کہ جس کا معلم اللہ تعالیٰ ہو ۔ وہ پیروی کا اس شخص سے زیادہ مستحق ہے جس کا معلم اس کا فکر ہو۔ لیکن انصاف کہاں؟ اور اس میں طویل کلام فرمایا۔"

آخری بات:


جیسا کہ آپ نے پڑھا کہ امام عبدالوہاب الشعرانی رحمتہ اللہ علیہ ، امام قطب ربانی حضرت محی الدین ابن العربی رحمتہ اللہ علیہ کے فرمودات کا اپنی کتا ب میں ذکر کررہے ہیں کہ جو شانِ اولیاء کے بارے میں ہے۔ اور اس میں منکرینِ کرامات ِ اولیاء اور وہ لوگ جو ان کے خلاف شکوک و شبہات کا شکار ہوتے ہیں اور جن کے دماغوں میں اپنے کہے مولوی کے ہی الفاظ پھرتےہیں وہ سیدی کے قول کے مطابق ظاہری ہیں۔ اور ان کے سارے سوالات کے جوابات قطب ربانی ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کے ان فرمودات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ دراصل، منکرین خود اس علم کے اہل ہی نہیں ہیں۔ مثل مشہور ہے، برتن میں جتنی گنجائش ہوتی ہے اُس میں اتنا ہی پانی ڈالا جاسکتا ہے۔ ہمیں اللہ رب العزت سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں ان فرمودات وارشادات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور بے دین فرقوں سے دوری عطا کرے۔ بجاہ النبی آمین۔

(ترجمہ ؛ مجذوب القادری)
(کمپوزنگ، انگریزی رف ٹرانسلیشن، زیڈ کے آفریدی)
برائے مکاشفہ ورڈ پریس ڈاٹ کام۔



For Reading it in Proper Urdu Fonts and English Translation Please Visit My Regular Site by Clicking here!

Tadween al Quran wa Mushaf e Usmani wa Aitrazat Wa Jawabat






Sunday, 9 November 2014

Article 23: Imam Ibn Hajar Makki Refuting Ibnu Taymmiyah on Ziarah


زیارت نبی ﷺ کے لیئے سفر

ترجمہ ( 1) :  " ان تمام مذکورہ احادیث میں تمام یا تو زیارت کے لیئے صریح ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ زیارت مندوب ہے ۔ بلکہ آپﷺ کی زیارت ظاہر ی زندگی اور بعد از وصال میں مردوں اور عورتوں کے لیئے زیادہ متاکد ہیں جو کہ قرب و بعید سے زیارت کے لیئے آئیں اور ان کے ساتھ آپ ﷺ کی طرف شد الرحال کرنے کی فضیلت ظاہر ہے۔ اور آپ ﷺ کی طرف سفر کرنا مندوب ہے۔ حتیٰ کہ عورتوں کے لیے بھی اتفاقاً مندوب و مستحسن ہے ۔ جیسا کہ امام الدیلمی نے فقہاء کے اس قول سے اخذ کیا ہے کہ ہرحاجی کے لیئے زیارت سنت ہے اور جو بحث ہے وہ آپﷺ کی قبر کے سوا میں ہے۔ 

اولیائے اللہ اور شہداء کے مزارات کی زیارت بھی ایسے ہی سنت ہے اور سنت کے سفر شمول کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہوتا ہے، یعنی زائر مزؤر ے پاس چل کر جاتا ہے۔ جیسا کہ لفظ "مجیئی" آنے والا سے ظاہر ہے کہ جس پر آیت کریمہ میں نص وار د ہے۔ 

پس زیارت یا تو نفس انتقال ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف اس کا قصد کرکے یا پھر مزؤر کے پاس حاضر ہونا ہے دوسرے جگہ سے۔ پس ہر حا ل میں اس پر سفر کا اطلاق ہوگا۔ چاہے وہ قریب سے آئے یا دور سے ، اس میں سفر کا معنی ضرور پایا جائے گا۔ 

اور جب ہرزیارت قربت ہے تو اس کی طرف سفر کرنا بھی قربت ہوگا۔ اور آپ ﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کی طرف جنت البقیع میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور احد شریف کی طرف آپ ﷺ کا جانا بھی ثابت ہے۔ پس جب غیر کی قبر کی زیارت کے لیئے سفر کرنا مشروع ہے ۔ تو آپ ﷺ کی قبر شریف ان تمام قبروں سے زیادہ اس کی حقدار ہے کہ اس کی طرف سفر کیا جائے۔ اور متفقہ قائدہ ہے کہ قرب کا وسیلہ بھی قرب میں داخل ہے۔ یعنی جو کہ قرب تک پہنچائے وہ کسی اور وجہ سے حرام نہیں ہوسکتا جیسا کہ مغضوب راستہ پر چلنا۔ تو یہ صریح ہے کہ زیارت کے لیئے سفر بھی قرب کا ذریعہ ہو کر قرب ٹھہرا۔ اور جس کا یہ گمان ہے کہ صرف قریب رہنے والے کے لیئے ہی زیارت قربت و نیکی ہے تو یہ اس کا شریعت مطہرہ پر افتراع ہے۔ لہٰذا اس کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہیئے۔







ترجمہ ( 2) 
توحید ِ رب اور تعظیم رسول ﷺ؛

"اور یہاں دوامر ہیں جن میں سے ہرایک لازمی ہے۔ 
ایک یہ ہے رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کا وجوب اور ساری خلق سے آپ ﷺ کا رتبہ بلند وارفع ہونا۔ اور دوسرا اللہ تبارک وتعالیٰ کا واحد ویکتا ہونا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات وافعال میں ساری مخلوق سے منفرد ہے اور جس نے مخلوق کو اس کے ساتھ کسی بھی چیز میں شریک کیا تو وہ شرک کا مرتکب ہوا۔ اور جس نے رسول اکرمﷺ کی شان اقدس میں کسی قسم کی کمی کی ،یا ، ان کا مرتبہ کم کرنے کی کوشش کی اور جو چیز ان کی ذات کے لیئے ثابت ہے اس کی نفی کی تو وہ گنہگار بلکہ کافر ہوکردائرہ اسلام سے خارج ہوگیا۔ اور جس نے رسول اکرم ﷺ کی تعظیم وشان میں مبالغہ کیا ہر اس طریقے سے کہ جس سے تعظیم بلند ہو اور یہ مبالغہ ذات باری تعالیٰ تک  نہ لے جائے تو وہ حق تک پہنچا اور اس نے اللہ کی ربوبیت اور رسول اکرم ﷺ کی رسالت کی حدوں کی پاسداری کی اور یہ وہ قول ہے جو کہ افراط و تفریط سے مبریٰ اور پاک ہے۔

(زیارت گنبد خضریٰ پر اجماع امت)

اور اگر تم کہو کہ تم نے کس طرح پچھلے صفحات میں زیارت قبر نبی ﷺ پر اور اس کی طرف سفر پر اجماع نقل کیا ہے۔ حالانکہ متاخرین حنابلہ میں سے ابن تیمیہ تو اس کی مشروعیت کا منکر ہے۔ بلکہ اسکی طرف سفر کرنا وغیرہ ہر چیز کا اس نے انکار کیا ہے جیسا کہ امام سبکی ؒ کی تحریر سے ظاہر ہوتا ہے۔ 

اور ابن تیمیہ نے اپنے استدلال پر کافی کچھ مواد جمع کیا ہے کہ جس کو کان سننا پسند نہیں کرتے اور طبیعتیں اس سے متنفر ہوتی ہیں بلکہ ابن تیمیہ کا زعم باطن اور گمان فاسد ہے کہ قبر شریف کی طرف سفر کرنا بالاجماع حرام ہے۔ اس لیے (بقول ابن تیمیہ ) ہم اس سفر میں نماز قصر نہیں کریں گے اور تمام احادیث جو کہ زیارت کے بارے میں مروی ہیں وہ موضوع ہیں اور بعض متاخرین نے بھی اس میں اس کی اتباع کی ہے جو کہ مذہباً اُسی کے تابع ہیں۔

(ابن تیمیہ علمائے امت کی عدالت میں)
میں کہتا ہوں ابن تیمیہ کی طرف دیکھنا اور امور دین میں سے کسی چیز کا اس کی طرف پھیرنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے جب کہ اس کے بارے میں تو علمائے امت کی ایک کثیر جماعت نے اسکے کلام فاسدہ اور حجج کاسدہ کا تعاقب اور رد بلیغ کیا ہے۔ حتیٰ کہ اس کی اغلاط وعیوب اور اس کے اوہام کی قباحت کو خوب واضح کیا ہے۔ 

جیسا کہ امام العز بن جماعہ ؒ نے فرمایا کہ "ابن تیمیہ کو اللہ تعالیٰ نے گمراہ اور ہلاک کردیا ہے اور اس کو رسوائی کی چادر اوڑھائی اور وہ اپنے جھوٹ اور افتراء میں خود ہی لوٹ کر گرگیا۔ اور ذلت نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے لیئے بدنصیبی واجب ہوگئی"۔ 

اورحضرت شیخ الاسلام و عالم انام (کہ ان کی جلالت شان اور اجتہاد پر تمام امت جمع ہے) یعنی تقی الدین السبکی ؒ (اللہ ان کی قبر کو نور سے معمور کرے) نے اپنی ایک مستقل تصنیف میں  اس شخص (ابن تیمیہ) کا خوب رد کیا ہے۔ اور اس کتاب میں واضح دلائل ، براہین قاہرہ اور حجج باہرہ سے صحیح راہ کی طرف خوب راہنمائی فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ان کی اس سعی جمیل پر شکر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے فیوض و برکات کو ہم پر ہمیشہ رکھے ۔ (آمین)

اورعجائب الوجود میں سے وہ جسارت ہے جس کی بعض متاخرین حنابلہ نے جراءت کی اور حسین ترین محذورات کے چہرے کہ جن کو کسی انسان اور جن نے بھی نہیں چھوا تھا پر غبار ڈالنے کی کوشش کی۔ اور ایسی چیزیں لائے کہ جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جہالت پر دلالت کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کو کم کرنے کی کوشش کی۔ ایسی جہالت سے پناہ اور ان کو رب سے حیا کرنی چاہیئےتھی کہ ان کے منہ افراط میں چلے گئے اور جو چاہا انہوں نے کہا۔(العیاذ باللہ تعالیٰ)

جب کسی شخص پر شقاوت غالب آجائے اور غباوت اس پر حاکم ہوجائے تو وہ ایسی ہی خرافات بکتا ہے۔ اے اللہ ! ہم تیری پناہ میں آتے ہیں ان تمام قبائح سے ۔ اے باری تعالیٰ ! ہم تیری قدرت وعزت کی طرف عاجزی کرتے ہیں کہ تو ہمیں واضح اور صحیح راستہ کا علم عطا فرمائے اور ہر اس قباحت سے بچائے کہ جو ابن تیمیہ سے واقع ہوئی ۔ اور وہ اس برائی میں ہمیشہ کے لیئے گر گیا اور یہ مصیبت اس پر مستقل طاری ہوگئی اوریہ بدقستمی ہمیشہ اس کے پلے پڑی رہی ،یہ باتیں اس سے انہونی نہیں کیونکہ اس کے نفس، اس کی خواہشات اور اس کے شیطان نے اس کے لیئے ان امور کو خوبصورت بنا رکھا تھا۔ حتیٰ کہ وہ مجتہدین کے صائب تیر سے گھائل ہوگیا اور وہ عقل کا اندھا نہ جان سکا کہ وہ کن قبائح میں مبتلا ہورہا ہے اور بہت سارے مسائل میں اجماع امت کے خلاف کررہاہے۔

اور وہ مجتہدین بالخصوص خلفائے راشدین کے عیب کمزور دلائل کے ساتھ نکالنے کے درپے ہوا اور اس میں بے شمار خرافات وہ لایا کہ جن کو کان سننا پسند نہیں کرتے اور طبائع اس سے متنفر ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ وہ جناب حق سبحانہ وتعالیٰ جو کہ ہرعیب ونقص سے پاک ہے اور ہرکمال اور اچھائی کا مستحق ہے کے بارے میں بھی حق سے تجاوز کرگیا اور اُس ذاتِ پاک کی طرف عظام وکبائر کو منسوب کرگیا اور اس کی عظمت کبریائی اور جلالت کی باڑ کو توڑ دیا اور منبروں پر عام لوگوں کے لیئے اس کے خدا کی طرف جہت اور تجسیم وتضلیل کی نسبت کی کہ متقدمین ومتاخرین میں سے کوئی ایک شخص بھی ان کا معتقد نہ ہوا۔ حتی ٰ کہ اس کے خلاف اس کے ہم عصر علماء کھڑے ہوگئے اور سلطانِ وقت کو انہوں نے اس کے قتل یا قید کرنے پر ابھارا پس اُس نے اِس کو قید کردیا۔ یہاں تک کہ وہ اسی قید میں مرا اور یہ بدعت دم توڑگئی اور اس کے ظلمت وگمراہیاں زائل ہوگئیں اورپھر اس کے متبعین کم ہونے لگے ، اللہ تعالیٰ ان کو دوبارہ نہ اٹھنے دے اور نہ ان کو عزت دے بلکہ اللہ نے ان پر ذلت اور مسکنت تھوپ دی اور وہ اللہ کے غضب میں لوٹے بسبب اپنی گمراہی کے کیونکہ وہ حد سے بڑھنے والے تھے۔

ترجمہ ( 3) 
"تنبیہہ!   امام سبکی ؒ نے بعض فضلاء سے کیا ہی اچھی حکایت بیان کی ہے ! اگرچہ اس میں کلا م ہے ، یہ کہ : زیارت قربت ہے اور یہ دین سے ضرورت کے ساتھ معلوم ہے اور جو ا س کے مخالف ہے اس پر کفر کا خوف ہے ۔ (انتھیٰ) پس اس میں غور وفکر کرو تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ ابن تیمیہ اور اس کےمتبعین اور ساتھی کتنی بری چیز لے کر آئے ہیں۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ زیارت قربت و نیکی ہے تو اس کی طرف مجرد سفر بھی نیکی وقربت ہوگا۔ اور یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں  اور یہ مخفی نہیں ماسوائے معاند کے اور جس نے زیارت کے لیئے مجرد سفر کے قربت ہونے میں توقف کیا اور انکار کیا تو لازم ہے کہ وہ زیارت کے قربت ونیکی ہونے میں متوقف ہے۔ یہ تو جان چکا ہے کہ مطلق زیارت کا انکار کفر ہے لہٰذا اس سے بچنا چاہیئے کیونکہ یہ بہت عظیم انکار ہے۔ 

اور اگر تم کہو کہ یہ اس قدر سختی کیوں؟ جبکہ وہ شخص بھی تو صحیح حدیث سے استدلال کررہا ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:

"لا تشد الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد"۔ "تین مساجد کے سوا کسی طرف کجاوے نہ کسے جائیں "۔ 

اور زیارت کے لیئے جانا ان تینوں سے باہر ہے تو چاہیئے کہ اس حدیث کی رو سے وہ بھی منع ہو، تو میں کہتا ہوں کہ حدیث کا معنی وہ نہیں ہے جو کہ اس نے سمجھا ہے جیسا کہ اپنے مقام پر آئے گا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ نہ کجاوے کسے جائیں کسی مسجد کی طرف صرف اس کی تعظیم وعظمت اور نماز کے لیئے ۔ تقرب چاہتے ہوئے سوائے ان تین مساجد کے کہ انہیں کی تعظیم اور تقرب للصلوٰۃ ہے ۔ اس تقریر پریہ مستثنیٰ متصل ہوگا ۔ کیونکہ عرفہ کی طرف مناسک ادا کرنے کے لیئے جانا بالاتفاق واجب ہے۔اسی طریقے سے جہاد میں جانا اور دارالکفر سے ہجرت بھی واجب ہے جب کہ شروط پائی جائیں اور طلب علم سنت یا واجب ہے، اور تجارت کے لیے شدر حال پر اجماع واقع ہے۔ ا س طریقے سے حوائج دنیا اور آخرت کے لیئے شدر حال ہے اور ان سب سے زیادہ مئوکد زیارت قبر شریف ہے تو اولیٰ ہے کہ اس کے لیئے بھی شدرحال جائز ہو۔

اس حدیث کی تاویل پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کی سند حسن ہے اور اس میں اس کی تصریح بھی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
ترجمہ"نمازی کو یہ نہیں چاہیے کہ کسی مسجد کی طرف کجاوے کسے کہ اس میں جا کر نماز پڑھے سوائے مسجد حرام اور میری اس مسجد اور مسجد اقصیٰ کے۔ "

ان تینوں مساجد کے سوا کسی اور کی طرف کجاوے کس کر یعنی قصد کرکے جانے کے بارے میں کئی مذاہب ہیں۔ شیخ ابومحمد الجوینی نے فرمایا کہ منع ہے اور بعض مقامات پر فرمایا کہ مکروہ ہے۔ اور فرمایا کہ بعض اوقات حرام ہے۔ اور حضرت شیخ ابوعلی  نے فرمایا کہ حرام نہیں ہے اور نہ ہی مکروہ ہے۔ بے شک اس سے مراد یہ ہے کہ قربت کا حصول ان تینوں کی طرف کجاوے کسنے میں ہے اور ان تینوں مساجد کے علاوہ کسی مسجد کی طرف کجاوے کسنے میں قربت نہیں ہے۔ 

اور امام سبکی ؒ نے بحث کی ہے کہ اگر اس سے تعظیم مراد ہے تو پہلا قول صحیح ہے اور اگر اس سے تعظیم مراد نہیں ہے تو دوسرا قول صحیح ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ لا تشد الرحال سے مراد کسی ایسی مسجد کی طرف اشارہ ہو کہ اگر وہاں جاکرنماز پڑھی جائے تو اس میں نماز کا زیادہ ثواب ہوگا سوائے ان تین مساجد کے تو بھی کسی اور مسجد کی طرف قصد کرکے جانے کی نفی نہیں ہوگی۔ اگر اس میں زیادتی نماز کے سوا فضیلت ہے جیسا کہ مسجد قباء کہ اس کے لیئے علیحدہ دلیل وارد ہے اور امام سبکی ؒ نے فرمایا کہ یہ تمام کسی معین جگہ کے لیئے ہے یا وہاں جا کر عبادت کرنے کے لیئے قصد کے لیے ہے کہ اس کے ساتھ اس کی تعظیم کا بھی قصد کیا جائے۔ اور اگر بغیر نذر کے اس کا قصد کیا جائے کسی اور غرض کے لیے جیسا کہ زیارت یا اس کی مانند کسی اور کام کے لیے تو کسی ایک نے بھی اس کو حرام یا مکروہ نہیں کہا اور آپ ﷺ کی زیارت کے لیے سفر کی غایت مسجد مدینہ ہے کیونکہ اس کی مجاورت میں آپﷺ کی قبر مبارک ہے۔ 

اور زائر کی غرض اس مسجد شریف میں قبر شریف کے حلول سے تبرک حاصل کرنا ہے اور سلام عرض کرنا ہے اور جوذاتِ مقدسہ اس قبر شریف میں ہے اس کی تعظیم کرنا جیسا کہ اگر کوئی شخص آپﷺ کے وصال سے پہلے آپ ﷺ کی طرف سفر کرتا ہے اور اس میں صرف اس قبر کی معین تعظیم نہیں بلکہ آپ ﷺ کی ذات کی تعظیم ہے۔ 

حاصل کلام یہ ہے کہ سفر سے انہی دونوں حکموں کے ساتھ مشروط ہے ۔ ایک تو یہ کہ ان تینوں مساجد کے علاوہ کسی اور کا قصد کرکے جانا قربت ونیکی کی نیت سے نہ ہو۔ جیسا کہ علم حاصل کرنے کے لیئے یا قریب سے زیارت کے لیئے نہ ہو تب منع ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اس کی علت صرف اس ٹکڑا کی تعظیم کے لیے ہو اور آپ ﷺ کی قبر مبارکہ کی زیارت کا سفر قطعی طور پر اس سے خارج ہے کیونکہ ان تینوں مساجد میں سے کسی ایک کی غایت اور علت اس بقعئہ مبارکہ میں ساکن ﷺ کی تعظیم ہے نہ کہ صرف اس بقعہء مبارک کی۔ پس مطلوب سفر کی دو قسمیں ہوں گی پہلی قسم تو وہی جو کہ ان تینوں مساجد کی طرف سفر کی غایت ہے ،وہی یہاں بھی پائی جاتی ہے۔ اور دوسری قسم یہ کہ سفر عبادت کے لیئے ہو اگرچہ ان تینوں کے علاوہ کسی طرف ہو اور آپ ﷺ کی زیارت کے لیئے سفر میں یہ دونوں قسمیں پائی جاتی ہیں پس یہ طلب کہ اعلیٰ اور افضل ترین اور اکمل ترین درجات میں سے ہے۔



ترجمہ ( 5) ؛

"اور اگر تم کہو کہ امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں فرمایا کہ ان تینوں مساجد کے علاوہ سامان سفر باندھنے میں علماء کا اختلاف  ہے جیسا کہ اولیاء کرام کی قبور کی زیارت کے لیئے اور دیگر متبرک مقامات کی طرف جانا تو امام ابو محمدؒ اس کی حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں اور قاضی عیاض ؒ نے بھی اس کو اختیار کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے اور ہمارے اصحاب کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ نہ تو حرام ہے اور نہ ہی مکروہ ۔ ہمارے علماء نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ صرف انہی تینوں مساجد کی طرف سامان سفر باندھنے کی فضیلت ثابت ہے۔ 

توامام نووی ؒ کی اس عبارت میں خلل ہے کہ انہوں نے کہا ابومحمد نے اس کی حرمت میں فتویٰ  دیا ہے ۔ اور امام نووی ؒ نے ہی شرح مسلم میں اس مقام کے علاوہ دوسری جگہ اور تہذیب المہذب میں ایک مقام پر فرمایا اور ان سے پہلے امام رافعیؒ نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ کہ اگر اس کو صرف مساجد ہی رکھا جائے تو امام ابومحمد کے قول کو اس پر محمول کیا جائے گا اور اگر سفر اغراض صحیحہ کے قصد سے ہو اگرچہ مسجد غیر ثلاثہ اور دیگر امکنہ کی طرف ہو مثلاً زیارت کے لیے  اور طلب علم وغیرہما  کے لییئے ہو تو امام ابو محمد نے اس سلسلہ میں کلام نہیں فرمایا اور نہ ہی اس حرمت وکراہت کے قول کی ان کی طرف نسبت جائز ہے۔ اور اگر انہوں نے یہ کلام واقعی زیارت نبی ﷺ کے لیئے کیا یا کسی اور نے کہا ہے تو ان کا یہ غلط کلام قبول نہ کیا جائے گااور ہم ان کے اس کلام کے غلط ہونے کا ہی حکم دیں گے۔ اور ہم کہیں گے کہ وہ اس حدیث کا مفہوم نہیں سمجھ سکے۔ اور اسی طریقے سے امام قاضی عیاض ؒ کا کلام بھی زیارت النبی ﷺ کے متعلق نہیں ہے۔ نہ تو صراحتاً اور نہ ہی اس میں زیارت موتی  کی نفی کا اشارہ ہے۔ (انتھیٰ بقدر الحاجت)۔ اور پھر فرمایا (سبکی ؒ نے) کہ وہ جو کہ حنابلہ کی کتاب المغنی میں ابن عقیل سے نقل کیا گیا ہے کہ زیارت قبور اور دیگر مشاہد کی طرف نہ تو مباح ہے اور نہ ہی اس کی رخصت ہے کیونکہ رسول اکرمﷺ سے روایت ہے کہ تین مساجد کے سوا کسی بھی مسجد کی طرف سامان سفرنہیں باندھنا چاہیئے تو صحیح یہ ہے کہ زیارت ومشاہدہ قبور جائز ہے اور وجہ ءجواز رسول اللہ ﷺ کا قبا کی طرف پیدل اور سواری پر تشریف لانا ہے اور آپ ﷺ قبور کی زیارت فرمایا کرتے تھے اور قبروں کی زیارت کرنے کا حکم فرمایا کرتے تھے اور بہرحال رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک کہ ان تینوں مساجد کے علاوہ کسی مسجد کے لیئے سامان سفر نہ باندھنا میں فی الحقیقت بات صرف یہ ہے کہ ان تین مسجدوں پر کسی اور مسجد کو فضیلت نہیں اور اسے اسی پر محمول کیا جائے گا ، اس سے دوسری مسجدوں کی زیارت کی حرمت ثابت نہیں ہوتی ۔ (مغنی کا کلام ختم ہوا)۔"


چند اہم باتیں ؛
جیسا کہ آپ نے اوپر پڑھا کہ امام ابن حجر مکی ؒ نے ابن تیمیہ کے اس شرکیہ عقیدہ کا سخت الفاظ میں رد کیا ہے۔ اور اسلاف مستشرقین سے واضح کیا ہے کہ کیا وجوہات تھیں کہ ابن تیمیہ کے خلاف تمام علماء ایک تھے۔ وجہ صاف ظاہر تھی، یہ شخص بدعت کا مرتکب ہوا جب اس نے ایسے نئے نئے عقیدے ایجاد کرلیئے اور ہر بری بدعت ذلالت ہے ۔جیسا کہ امام ابن حجر کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کو علماء کے سامنے بھی پیش کیا گیا جہاں پر اسکی کم علمی اور عقل پر پردے کا پول کھل گیا، اور آخرکار انجام بد ہوا۔

اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ، ابن تیمیہ وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ بدعت سیئہ ایجاد کی، کہ نبی اکرم ﷺ کے روضہ مبارکہ کی طرف سفر کرنا کفر شرک اور بدعت ہے۔ جس کا امید ہے مکمل رد آپ اوپر دھیان سے پڑھ چکے ہیں۔ پھر ایک مقام پر امام ؒ نے اسی ابن تیمیہ کے اللہ کے متعلق تجسیم کے کفریہ اور شرکیہ عقیدہ کی بابت بھی لکھا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ ابن تیمیہ مجسمی وہ پہلا انسان تھا جس نے سیدھے سادھے اسلام میں ابن صبا کی طرح تفریق ڈالی، جس کو اُس کے بعد اُس کے شاگرد یعنی ابن قیم الجوزیہ، اور پھر دورِ حاضر قریب میں ابن وہاب نجدی کی تعلیمات سے فروغ ملا۔ یعنی یہ ثبوت ہے کہ 

1) وہابی /دیوبندی/سلفی/ اہلحدیث ؛ یہ تمام نا م موجودہ دور کے گمراہ فرقوں کے ہیں اور خوارج اور زنادقہ میں شمار ہوتے ہیں۔ 27 جہنمی فرقوں میں گنے جاتے ہیں اور ان کا اصلی اسلام اور سلف الصالحین سے کوئی تعلق نہیں ، اور نہ ہی یہ لوگ اہلسنت وجماعت کا حصہ ہیں، بلکہ یہ منافقانہ طور پر ہم اہلسنت وجماعت کا نام اپنے ابلیسانہ مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

2) ان کے دھرم جدید کی ابتداء ابن تیمیہ سے ہوئی ۔ اس سے پہلے وہابی عقیدوں اور مزارات پر اعتراضات کا کوئی وجود نہ تھا اُمت مسلمہ میں۔
3) مطلق زیارت کا انکار کفر ہے ۔ امام ابن حجر کے اس قول کے مطابق کیا فرقہ وہابیہ اہلحدیثیہ دیوبندیہ ، سلفیہ کافر نہیں؟
4) ابن تیمیہ کو عقل کا اندھا کہنا مطلب صاف ظاہر کرتا ہے کہ سلف اور خلف کے نزدیک یہ گمراہ ہوچکا تھا۔ 

 ا س کے مرنے پر امام ابن حجر ؒ فرمارہے ہیں کہ "وہ اسی قید میں مرا اور یہ بدعت دم توڑ گئی"۔ یعنی ثابت ہوا کہ موجودہ فرقہ وہابیہ جن کے امام نجدی اوردیگر اسی ابن تیمیہ کے مقلد ہیں وہ بھی سب کے سب بدعتی ہیں۔ اسی لیئے شاید یہ لوگ خود کو چھپانے کی خاطر 0041 سو سال سے چلی آرہی امت کو ہی کافر مشرک و بدعتی کہتے ہیں تاکہ لوگوں کا دھیان ان پر نہ جائےکہ اصلی بدعتی تو خود ان کا اپنا ناپاک وجود ہے۔

6) امام صاحب کی بدعا بھی آپ نے پڑھی ، کہ وہ (موجودہ وہابیوں) یعنی (ابن تیمیہ کے غیرمقلد مقلدوں) کے متعلق کہتے ہیں "اللہ تعالیٰ ان کو دوبارہ نہ اٹھنے دے اور نہ ان کو عزت دے بلکہ اللہ نے ان پر ذلت اور مسکنت تھوپ دی اور وہ اللہ کے غضب میں لوٹے بہ سبب اپنی گمراہی کے کیونکہ وہ حد سے بڑھنے والے تھے"

اب اس قول کو ذہن میں رکھ کر وہابیوں کی فطرت کے بارے میں سوچیں ، یہ لوگ کیا حد سے نہیں بڑھتے جب یہ ابن تیمیہ کی تقلید میں تجسیم کا شرک کرتے ہیں؟
کیا یہ لوگ حد سے نہیں بڑھے ہوئے کہ دین میں غلو کرتے ہیں اور توہین کے مرتکب ہوتے ہیں؟
اور کیا امام ابن حجرؒ کی یہ بدعا درست نہیں ثابت ہورہی کہ وہابی جن کے پاس دنیا کے سب سے زیادہ دولت کے خزانے ہیں وہی سب سے زیادہ دنیا میں ذلیل اور رسوا ہورہے ہیں؟ اور امام ابن حجرؒ کا ان کو اور ان کے متبعین یعنی بعد میں فالورز وغیرہ یعنی موجودہ دیوبندی وہابی سامراج کو گمراہ کہنا کی ان کی گمراہیوں کی دلیل نہیں؟ 

یا وہابی کہیں گے کہ اُس وقت بھی کوئی امام احمد رضا بریلوی ؒ ، امام ابن حجر مکی ؒ کے پاس بیٹھ کر اُن کو اہلخبیثوں کی حرکات بتا رہے تھے؟

7) امام ابن حجر کا یہ کہنا کہ جب کسی شخص پر شقاوت غالب ہوجاتی ہے تو وہ ایسی ہی خرافات بکتا ہے۔ اب ہم جب وہابیوں کو کہتے ہیں کہ تم لوگ بکتے ہو۔ تو نیچے سے اوپر تک سلفیوں کو جلاب لگ جاتی ہے کہ ہمارے سے بدتہذیبی سے بات ہورہی ہے۔ او بھائی ، بدتہذیبی تو اُن کے ساتھ ہوتی ہے جن کی کوئی تہذیب ہو۔

8) اجماع امت سے جو بھی ہٹا وہ اہلسنت وجماعت سے ہٹ گیا۔ اب وہ چاہے، جمیعت مودودی ، اہلحدیث، سلفی،وہابی، دیوبندی ، کے نام سے ہو یا ڈائیریکٹ خوارج یعنی (آئی ایس آئی ایس ) سے ہو، چاہے تحریک ظالمان کا گماشتہ ہو، یا دیوبندی کے دھرم کو لے کر چلنے والی اسماعیلی دیوبندیت کی علمبردار سپاہ شیاطین۔ یہ سب کے سب واجب القتل ہیں اور یہ سب کے سب 27 جہنمی گروہوں میں شامل ہیں۔ 

حق صرف وہی ہے جو ہم اہلسنت وجماعت، سنی صوفیائے کرام کا ہے۔ چاہے وہ ، قادری سلسلہ ہو، چشتی ہو، نقشبندی ہو، سہروردی ہو، بریلوی ہو، ان سب کے چونکہ عقیدے ایک ہیں اور وہی عقیدے ہیں جو کہ پرانے چلے آرہے ہیں اسلام میں ، اس لیئے ہم تو اہلسنت ہیں الحمدللہ، لیکن خود کو اہلسنت وجماعت کے نام پر لوگوں کو دھوکا دینے والے ابن تیمیہ کے گمراہ مقلدینِ غیرمقلد پر کیا ثبوت ہے؟

ابن تیمیہ کے وہی عقیدے تم وہابیوں نے اپنے عقیدے بنا کر خود کے خوش رکھنے کو یہ نام رکھ لیئے۔ اب گدھا جتنا بھی رنگ میں رنگ لے وہ زیبرا تو بن نہیں سکتا، جیسے ہی حق کی بارش ہوگی سارا رنگ دھل جائے گا اور بیچ میں سے وہی پرانا (قرن الشیطان) اپنے سینگوں کے ساتھ نمودار ہوجائےگا۔ 

وہابیو! توبہ کرو موت کا کچھ پتہ نہیں۔ توبہ کا دروازہ بند ہونے سے پہلے اپنے عقائد درست کرلو اور اسلام قبول کرلو۔ (احقرالعباد، فقیر ،مجذوب القادری)




for reading notes in proper inpage format click the link given below: