Saturday, 29 November 2014

Lataif-Maqamat-al-Ruhaniyah-dar-Jismul-Insani





UNICODE:

لطائف ستہ ۔ مختصر تعارف؛

بزرگوں نے فرمایا ہے کہ انسان کو حق تعالیٰ نے اپنی حقیقت کا نمونہ بنایا ہے اور اس کے اندر لطائف ستہ پیدا فرمائے ہیں اور اسے اپنی جمالی وجلالی صفتوں سے نواز کرسرفراز وممتاز کیا اور تمام نیکیوں اور سعادتوں کا منبع گردانا اور اپنے  نور سے اسے منور کیا۔ 

اول لطیفہ نفس ہے ۔ یہ اس کو نصیب ہوتا ہے جو ذوق و شوق سے خداوند قدوس کو یاد کرے ۔ وہ کون مبارک درخت ہے کہ اس میں یہ پھل آئے اور کون وہ درویش ہے جو اگر ذکر خدا میں رات کو دن بنائے اور کون وہ فقیر ہے جس کا وقت اس کی فکر میں ہی صرف ہو۔ نور ذات وہ نور ہے کہ اس کا بیان مشکل اور اس کی کیفیتیں بغیر نشان کے محال۔ ہاں بزرگانِ دین نے راسخ العقیدہ مریدوں کی تعلیم کے لیئے چند علامتیں مقرر فرمائی ہیں ۔ اگر ان علامتوں کو معمول بنائے تو مطلوب و مقصود سے بہرہ ور ہوسکتا ہے۔


لطیفہ نفسی:
مختلف صوفیائے کرام نے اپنے اپنے سلسلوں میں اس کے ذکر کے مختلف طریقے بتائے ہیں۔سلسلہ قادریہ ،نقشبندیہ ،مجددیہ میں باوضو قبلہ رخ ہوکرمراقبہ گر ہوتے ہیں۔ اس مراقبہ میں ذکر (اسمِ اللہ ) کیا جاتا ہے۔اس کا بعض علماء نے (اللہ ھو) بھی بیان فرمایا ہے۔ اس لطیفہ کا مقام بعض مشائخ ناف سے ذرا سا نیچے بتاتے ہیں جبکہ بعض ناف اور دل کے درمیاں یعنی ناف سے ایک یا دو انچ اوپر بتاتے ہیں۔ اس مقام کو پار کرنے کے لیئے مراقبہ میں ذکر اسمِ اللہ یا ، اللہ ھُو کے ساتھ ضرب کی جاتی ہے۔ عمومی طور پر کتابوں میں آپ کو ضرب تو بتا دی جاتی ہے لیکن اس کا پریکٹیکل صحیح طریقہ نہیں بتایا جاتا۔ میں نے ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں جو کہ دل پر یا پیٹ پر ہاتھ سے باقائد ہ ہلکا سے پیٹنے  کو ضرب سمجھتے ہیں جو کہ صریحاً نادانی ہے۔ ضرب سے ہمیشہ مراد یہ ہوتی ہے کہ جب آپ مثال کے طور پر (اسم باری تعالیٰ (اللہ) عزوجل) کا ورد کرتے ہیں مراقبہ کے دوران تو مثال کے طور پر آپ نے کہا کہ اللہ،تو (ہ) پر ذور دینا اور اُس کو اُس لطائف کے مقام پر محسوس کرنا ضرب کہلاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہاتھ سے تھپڑ ماریں۔ یہ پہلا مقام ہے لطائف میں ، جب سالک اس کے ذکر میں کامل ہوجاتا ہے۔ اور ماسوا ء اللہ ہرچیز سے تعلق کو توڑ لیتا ہے تب اسمائے باری تعالیٰ کی روشنی اپنے نفس پر قوی پاتا ہے اور اُس کو اپنے نفس کے ساتھ لڑنے میں مدد ملتی ہے اور اُس کو زیر کرنے کو ہی لطیفہ نفسی کا پار لگنا کہا جاتا ہے۔ذکر الٰہی کی کثرت، اوراد ، وظائف کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کی سرکشی کو ختم کرنا اس پہلے مقام کا مقصد ہوتا ہے۔تب ہی تجلیات الٰہی کا ظہور ہوتا ہے۔

لطیفہ ء قلبی:
سلسلہ عالیہ قادریہ سہروردیہ کے بزرگان ِ کرام نے اس کے متعلق یوں ارشاد فرمایا ہے کہ قلب بائیں پہلو میں ایک مخروطی انڈے کی شکل کی ایک چیز ہے ۔ جِسے قلب صنوبری کہتے ہیں اور وہ بائیں طرف دل سے ایک یا دو انگلی نیچے ایک مقام ہے۔سالک (درویش ، صوفی) کو چاہیئے کہ صبح اور دوپہر دن میں شام کو علیحدہ ہوکر گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر زبان کو تالو سے لگا کر لفظ اللہ جو کہ باری تعالیٰ کی ذات اور صفات پر حاوی ہے۔سرنیچے کرکے قلب صنوبری پر ضرب دےاور اتنی ہی دیر تک یہ وظیفہ جاری رکھے کہ لفظ اللہ دل سے سنا جاسکے۔ بلکہ آہستہ آہستہ جیسا کہ جانور کی تعلیم کرتے ہیں زبان سے بغیر کہے ہوئے دل سے کہے انشاء اللہ تعالیٰ ، عنایت الٰہی اور توجہات مرشد ارشاد پناہی سے دل سے آواز پیدا ہوگی۔ جو دوطرح سے ہوتی ہے۔ 

ایک یہ کہ جسے دل کہتے ہیں۔ اس کی حرکت سے آواز پیدا ہو، دوئم یہ کہ قلب سےمل کرتمام بدن سے آواز برآمد ہو اور یہ طریقہ اعلیٰ وارفع ہے ۔ رنگ قلب سرخ رنگ ہے اور تجلیات الٰہی جو آگ کی مانند ہیں ظاہر ہوتی ہیں اور ان کے حاصل ہونے سے سالک اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوتا ہے اور اس کے تمام گناہ اور لغزشیں نیکیوں سے بدل جاتی ہیں،دل کا نور اس قدر ضیا پاش ہوتا ہے کہ تاریک رات میں چیزیں نظر آنے لگتی ہیں اور اولیاء اللہ کی زیارات سے مشرف ہوتا رہتا ہے۔اور جذبات اور عنایاتِ الٰہی سے ایسا پُر ہوجاتا ہے کہ خداوند عالم اسے اس درجہ پر فائز فرمادیتے ہیں جس سے طالب اس شغل سے بلند ترین درجہ پر پہنچ کر خود کو ڈھونڈتا ہے ۔ مگر نہیں پاسکتا اور کوئی نشان اپنا اسے نظر نہیں آتا۔

پس قلب صنوبری اس چیز کا مظہر ہے کہ قلب محمد ی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے آمیختہ یعنی ملا ہوا ہے اور آپ کے نور سے منور ہے اور قلب محمدی قلب بیرنگ کا مظہر ہے۔ جس نے نشان اس کی بے نشانی سے لیا ہے اور اس طرح کی نسبت بمرتبہ بے رنگی ہے اور یہ وحدت کا ظہور ہے۔ (اگر نقش اللہ کا دل پر قائم اور درست نہ ہو تو چاہیے کہ لفظ اللہ کاغذ پر لکھ کر نظر کے سامنے رکھے اور اس طرح اس کی طرف نظر جمائے۔ یہاں تک کہ اس کا مشاہدہ ہو اور جب نقش اللہ بغیر لکھا دیکھے ہوئے نظر کے سامنے آجائے تو اپنی نظر کو ہٹا کر دل کی طرف لے جائے) اور اللہ کی ذات کا مشاہدہ اس پر کرے انشاء اللہ کامل استعداد مرشد کی برکت اور رب العزت کی عنایت سے اللہ کا نشان دل پر درست ہوجائے گا اور آنکھیں اور دل مراقبہ میں بعینہ دیکھ سکیں گے۔ 


لطیفہ روحی:
یہ مقام، سینے کے بیچ ہوتا ہے۔ جب لطیفہ قلبی کا مقام حاصل ہوجائے اور وہ تجلیات خداوندی کی کیفیت پالے ، انوار کا مشاہدہ کرلےاور اللہ کی رحمت اپنے آغوش میں لے لے تو پھر اسے لطیفہ روحی کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے۔ کیونکہ یہ لطیفہ حامل انوارِ الٰہی ہے اور ناختم ہونے والی تجلیات سے بنا ہے ۔ اس طریقہ سے سالک کو چاہیے کہ اپنی توجہ روح کی جگہ پر متوجہ کرے ۔ لفظ اللہ کو اندرونی آواز سے روح کو تلقین کرے اور یہ اسطرح ہو کہ زبان کو مطلق اس کی خبر نہ ہواور اتنا کھو جائے کہ عالم اجسام سے عالم ملکوت اور سیر الی اللہ وسیرنی اللہ من وعن ظاہر ہو اور عالم مثال اور عالم جبروت نظر آئیں اور روح کا سبز رنگ ہے ۔ اسلیئے کہ ذات باری کا رنگ عارف ہے۔ مشاہدہ میں سیاہ رنگ ہے اور روح کا رنگ سبز ہےاور سبز رنگ کو سیاہ رنگ سے نسبت تامہ ہے ۔ اسلیئے کہ ذات اور روح کے رنگ مظہر میں ہے وہی سب کچھ مظہر سے ظاہر ہوگا۔ اس سے غیبت اور دوئی (یعنی جدائی) معدوم ہوجاتی ہے ۔


لطیفہ سری؛
لطیفہ سری کا مقام روحی سے آگے ہے، اس مقام میں بھی مشائخ اپنے مریدوں کو مختلف اوراد وظائف وغیرہ سے مشغول رکھتے ہیں، اسم باری تعالیٰ اللہ کے ساتھ ساتھ لاالٰہ الاللہ کا ذکر کیا جاتا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ حسب سابق مراقب ہوکر لاالٰہ پڑھے اور اپنی سانس کھینچتے وقت لاالٰہ کو اتنا پڑھے کے سانس بھرپور طریقے سے لے چکے پھر سانس کو جتنا روک سکتا ہے روکے، اور اگر حبس دم میں کام نہیں تو لاالٰہ کو جب سانس اندر لے تو پڑھے (زبان تالو سے لگی رہے)، اور الاللہ کہتے وقت ضرب اس مقام پر کرے یعنی یوں سمجھئے آسان الفاظ میں کہ لاالٰہ تب پڑھنا ہے جب سانس لے رہے ہیں اور جب سانس چھوڑ رہے ہیں تو الاللہ پرھتے ہیں اور تصور یہ ہوتا ہے کہ لاالٰہ سے لکیر کھیچ کر اُس مقام تک یعنی الاللہ تک لے جائی جائے اور الاللہ کا اختتام لطیفہ سری پر کیا جائے۔ (یہی کیفیت اور طریقہ کم و بیش لطائف کے تمام حصوں میں ہے)۔ 
لطیفہ خفی:
پنجم لطیفہ خفی کہلاتا ہے ۔ طالب کو جب اللہ تعالیٰ یہ توفیق بخشے کہ وہ چار لطائف پر جو انسان کے جسم سے تعلق رکھتے ہیں ، عامل ہوجائے تو لطیفہ خفی کی طرف رجوع کرے۔ دو لطیفہ سر سے تعلق رکھتے ہیں ، ایک خفی دوسرے اخفی درویش پر ظاہر کیئے جاتے ہیں۔ بعض مشائخ کے مطابق، لطیفہ خفی کامرکز ومکاں دونوں (حاجبین) جبڑوں کے درمیان ہےاور اس کو قلب عبرت اور قلب انوار بھی کہتے ہیں ۔طالب کو چاہیئے کہ لفظ (ھُو) کو دونوں ابروؤں کے درمیان سے اندرونی آواز کے ساتھ (کچھ ذکر بالجہر کا بھی کہتےہیں)نیچے لے جائے جہاں کہ لطیفہ سری ونفسی ہے۔اور زبان ودہان کو اس کی مطلق خبر نہ ہو، اور دونوں حاجبین کے درمیاں سے بائیں طرف کھینچے اور لطیفہ سری کے درمیاں لے جاکرلطیفہ نفسی پر پہنچائے۔ یعنی (ہو) کو پیشانی کے اوپر سے تمام قوت سے نیچے کی طرف لائے اور دوسری مرتبہ ہو کو حاجیبین کے درمیان لمبا کرکے نیچے سے اوپر کو لے جائے اور اسی طرح یہ عمل دہراتا رہے۔ اور نوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حاجبین کے درمیان تلاش کرےاور نوررسالت اور ذات اللہ  کی مدد اور فیض چاہے۔ نیز چاہیے کہ دونوں کانوں سے ہو ہو آواز متواتر باہر آئے ۔اس درجہ کے لاتعداد مدارج و مناقب ہیں۔

لطیفہ اخفی:
جب طالب پر حقیتِ لطیفہ خفی پوری طرح کھل جاتی ہے تو دوسرا لطیفہ جو کہ سر سے تعلق رکھتا ہے اس کی جانب توجہ کرنا چاہیئے۔ کیونکہ اس کا ظاہر ہونا انتہائی ضروری ہے اور اس کو لطیفہء اخفی اور جمع الجمع بھی کہتے ہیں۔ اولیاء اللہ اس کا مکان ونشان ام الدماغ بیان کرتے ہیں ۔ قلب احمر اور قلب مدور بھی اسی کے نام ہیں۔اس کے متعلق ہم اتنا ہی لکھ سکتے ہیں کہ یہ سب سے افضل درجہ ہوتا ہے جس کو بیان کرنا بہت ہی مشکل  ہے۔ ہزارہاں کتب اس کے بارے میں وارد ہیں مگر یہ ایک معمہ ہے کیونکہ اللہ رب العزت کی وحدانیت کا جلوہ اور اپنی ذات کی فنائیت میں اس قدیم بقا اور لامحدود نور ِ الٰہی کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اور اس کا سالک ہروقت وہاں پرمشاہدہ میں غرق رہتا ہے۔ ولایتوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ 


آخری بات:
اس سب لطائف جسم انسانی وروحانی میں داخل ہونے سے پہلے کے بھی کئی مدارہوتے ہیں ، ہم لوگ بدقسمتی سے خود کو صوفی سمجھ تو لیتے ہیں مگر تصوف انتہائی مشکل امر ہے۔ یہ لطائف صرف علم کی ترویج کے لیئے بیان کیئے جاتے ہیں وگرنہ پہلا لطیفہ نفسی تک بھی کوئی نہیں پہنچ پاتا ، ہاں اگر مرشد کامل نصیب ہوجائے تو یہ مدارج وہ بہت جلد طے کرواسکتا ہے۔ علم تصوف کی مستند کتابوں میں لاتعدار طور پر مشائخ وعلماء نے ان مشقوں کا بتایا ہے۔ مختلف خانوادوں کے مطابق ہر ایک کی اپنی اپنی وظائف و اوراد ہوتی ہیں۔اسمائے باری تعالیٰ کا صحیح ترین استعمال اور مکمل یقین ہی انسان کو اس منزل میں لے جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب مرید تیار ہوجاتا ہے تو مرشد خود بہ خود اس کو مل جاتا ہے۔ اور مرید کے تیار ہونے کے لیے بہت ہی پرانی اور بہت ہی سیدھے اصول ہیں، وہ ہیں اللہ کی عبادت، اور اسوہ حسنہ کی پیروی، کیونکہ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ ادب پہلی سیڑھی ہوتی ہے محبت کی راہ میں۔ان سب مدارج میں آنے سے پہلے ایک طویل وقت تحقیق اور دین کو سمجھ کر عمل کرنے میں گزرجاتاہے۔ ہم اُس کو ہی نہیں سمجھ پاتے مکمل طور پر تو بھلا ان مدارج اور مقامات کو کہاں سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ اپنے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقے میں ہم کو عقل عطا فرمائے اور ایمان کی تکمیل ویسے فرمائے جس سے وہ راضی ہو۔ آمین۔

(فقیر احقر مجذوب القادری) 


Friday, 21 November 2014

Refutation to IrshadulHaq Asari Wahabi on Juz al Mafqud minal Musnaf AburRazzaq

مصنف عبدالرزاق کے الجزء المفقود پر وہابی مولوی ارشاد الحق اثری کے مضمون کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ اہلسنت

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)



الجزء المفقود من المصنف لعبدالرزاق ۔ کی جب سے اشاعت ہوئی ہے تب سے وہابیہ کے ہاں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ سب
 سے قبل وہابیوں کے نام نہاد محدث مولوی زبیر علی زئی نے اپنے رسالہ الحدیث حضرو میں اپنے بغض کا اظہار کرتے ہوئے ایک مضمون الجزء المفقود کے رود میں تحریر کیا۔ (جسکا رد اسی بلاگ پر کیا جاچکا ہے انگلش اور اردو میں، مزید آئندہ آرٹیکل میں دیا جائےگا)۔ پھر مولوی یحییٰ گوندلوی نے ایک مضمون تحریر کیا ۔ جو تنظیم اہل حدیث لاہور وغیرہ میں شائع ہوا۔ پھر الاعتصام لاہور اور محدث لاہور میں مولوی ارشاد الحق اثری اور داؤد راشد کا مضمون شائع ہوا۔ مولوی زبیر علی زئی اور مولوی یحییٰ گوندلوی کے مضامین کا ردِ بلیغ دوسرے آرٹیکل میں پیش کیا جائے گا سلسلہ وار۔ اب ذرا وہابیوں کی تری مورتی کے تیسرے محدث کی خباثت وجہالت کو آشکارا کرنا ہے۔


کتنے ظلم کی بات ہے کہ حضور سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عظمت وشان کو یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان بلکہ (اہلحدیث) کہلوا کربھی برداشت نہیں کرتے بلکہ بیشمار صفحات سیاہ کررہے ہیں۔ اے کاش! جتنی محنت یہ ان مضامین پر کرتے ہیں اتنی محنت یہ لوگ معاشرتی برائیوں کے خلاف کرتے مگر انہیں اس سے کیا سروکار! انہوں نے تو خود بے حیائی کے فروغ میں خوب کردار ادا کیا ہے۔ (حوالہ کے لیئے نزول الابرار، عرف الجادی ، فقہ محمدی کلاں، البنیان المرصوص، بدور الاھلۃ، دلیل الطالب دیکھی جاسکتی ہیں)۔


ماہنامہ محدث کے ذمہ داران نے مضمون سے قبل تمہیدی کلمات میں خود کو محدث ڈاکٹر عیسیٰ بن محمد عبداللہ مانع الحمیری پر خوب غصہ نکالنے کی سعی مذموم کی ہے۔ وجہ صر ف یہ ہے کہ انہوں نے عظمت ونورانیت مصطفیٰ کے اظہار کے لیئے کوشش فرمائی ہے اور (الجزء المفقود من المصنف) پر تحقیق فرما کراسکی اشاعت کا بندوبست فرمایا ہے۔ موصوف محدث کو طعن کا نشانہ بنانا وہابیہ کی پرانی مذموم حرکات میں سے ایک ہے۔ 

اسلیئے کہ اگر نورانیت مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اظہار پر محدث (الحمیری) موردِ الزام ہیں تو تمہارے وہابی اکابر نےبھی تو اس کا اقرار کیا ہے۔ تفصیل کے لیئے علامہ ابوحذیفہ محمد کاشف اقبال مدنی رضوی ؒ کی کتاب (نورانیت وحاکمیت) کا مطالعہ کریں۔

 پھر یہ کہنا کہ فلاں حضرات نے اس کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ اس کی کیا حیثیت ہے ۔ کیا وہ لوگ حجتِ شرعیہ ہیں؟ بیشمار علماء اس کو قبول بھی تو کررہے ہیں۔ ہم تو اس بات پر حیران ہیں کہ ایک طرف جلیل القدر ائمہ اربعہ کی تقلید تمہارے ہاں شرک ہے تو ان لوگوں کے اقوال کی تقلید میں (الجزء المفقود من المصنف لعبد الرزاق) کو من گھڑت قرار دینا تمہارا دوغلہ پن نہیں تو کیا ہے۔ اس سے تو تم خود اپنے مزعومہ فتویٰ (شرک) میں مبتلا ہو۔


پھر مولوی ارشاد اثری نے ابتداء میں وضع حدیث اور کتابوں کے غلط انتساب کا تذکرہ آئمہ کے حوالہ سے کیاہے۔ اس سے ہمیں کب انکار ہے کہ بیشمار کذاب لوگوں نے یہ کارستانی دکھلائی ہے۔ مگر مولوی ارشاد اثری نے اپنے وہابی دھرم کے اس وطیرہ کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ حالانکہ یہ بات ان کی کتب سے ثابت ہے کہ موضوع روایات کو بیان کرنا، ان سے استدلال کرنا، کتابوں کا غلط انتساب خود اسی وہابی دھرم کے مذموم کام ہیں ۔(جنکی ہزار بار آرٹیکلز میں یہاں پرریفیوٹیشن سیکشن میں حوالوں اور سکینز کے ساتھ ساتھ ذکر کیا جاچکا ہے) ہم یہاں صرف چند معروضات پیش کریں گے۔

مسئلہ رفع یدین میں وہابیہ خلافیات بیہقی سے ایک موضوع روایت سے استدلال کیا کرتے ہیں۔ جس میں یہ الفاظ ہیں:(فما زالت تلک صلوٰتہ حتی لقی اللہ) ۔

 یہ روایت موضوع ہے حتیٰ کہ اس روایت کو خود امام بیہقی ؒ نے موضوع اور باطل قرار دیا ہے۔ اس میں دو راوی ہیں۔ عبدالرحمٰن بن قریش اور عصمہ بن محمد۔ ان کو محدثین نے کذاب اور وضاع قرار دیا ہے۔ عبدالرحمٰن بن قریش کو اما م ذہبی نے اور امام ابن حجر نے حدیثیں گھڑنے والا قرار دیا ہے۔ یعنی یہ وضاعِ حدیث ہے۔ (حوالہ؛ میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 285، لسان المیزان جلد 3 صفحہ 524)


عصمہ بن محمد کو محدثین کذاب اور وضاع ِ حدیث قرار دیتے ہیں۔ (میزان الاعتدال جلد 3 صفحہ دو سو چھیاسی)

خطیب بغدادی بھی اسے کذاب اور وضاعِ حدیث کہتےہیں۔ (تاریخ بغداد جلد 21 ،صفحہ 682)

امام ابن جوزی نے آئمہ کے حوالے سے اسے کذاب اور وضاعِ حدیث اور متروک الحدیث قرار دیا ہے۔ (کتاب الضعفاء
 والمتروکین ، جلد 2، صفحہ 671)

امام عقیلی نے بھی اسے آئمہ کے حوالے سے کذاب اور وضاع حدیث قرار دیاہے۔ (کتاب الضعفاء الکبیر للعقیلی جلد 3 صفحہ تین سو چالیس)

خود قاضی شوکانی وہابی نے عصمہ بن محمد کو کذاب لکھا ہے۔ (الفوائد المجموعہ صفحہ 76، 181)
وہابی محدث البانی نے اس عصمہ بن محمد کو منکر الحدیث کہا  ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ  والموضوعہ ۔ جلد 1 صفحہ 562)

اور عبدالرحمٰن بن قریش کو وضاع حدیث متہم بالوضع قرار دیا ہے اور اسی کی ایک روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔ (حوالہ بالا، جلد 2 صفحہ 822)

مولوی عبدالرءوف نے اسی روایت میں آخری اضافے کو باطل کہا ہے۔ (القول المقبول صفحہ 414)

اس روایت کا موضوع ہونا ثابت ہوگیا۔ اس کے علاوہ بھی مزید دلائل اس روایت کے موضوع ہونے پر محفوظ ہیں۔ مگر ! حیرت کی بات یہ ہے کہ وہابیت کی اندھیر نگری میں اس موضوع حدیث کو آج بھی بڑی شدومد سے بیان کیا جارہا ہے۔ مولوی صادق سیالکوٹی وہابی نے صلوٰۃ الرسول (صفحہ 232) ، مولوی اسمعیٰل سلفی وہابی نے رسول کریم کی نماز (صفحہ 15) ، مولوی حافظ محمدگوندلوی وہابی نے التحقیق الراسخ (صفحہ 65-55) ، مولوی نورحسین گرجاکھی  وہابی نے قرۃ العینین ، مولوی زبیر علی زئی وہابی نے نور العینین (صفحہ 342) میں اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ اب یہ تو وہابی محدث ارشاد الحق اثری کو ہی بتانا چاہیئے کہ موضوع روایات سے استدلال اور ان کا فروغ کن کا وطیرہ رہاہے اور ہے ۔ اور پھر اس پر مزید ستم یہ کہ اس موضوع روایت کو ثابت کرنے کے لیئے وہابیوں نے بڑے جھوٹ بولے۔ دیکھئے مولوی نور حسین گرجاگھی  اس موضوع روایت کو بیان کرنے کےبعد لکھتے ہیں؛

(سبحان اللہ! یہ کیسی پیاری اور عمدہ حدیث ہے ۔ جس کو چھیالیس آئمہ نے نقل کیا ہے اور اس کی اسناد کتنی عمدہ ہیں )۔ (قرۃ العینین صفحہ 8،9)

اب وہابیوں کو چاہیئے کہ اس موضوع روایت کو بیان کرنے والے چھیالیس آئمہ کی فہرست مع کتب حوالہ بیان کردیں ورنہ ہم یہی کہہ سکتےہیں:

لعنۃ اللہ علی الکاذبین


 پھر مولوی نورحسین نے مزید جھوٹ بولاکہ امام علی بن مدینی نے  کہا: "یہ حدیث تمام مسلمانوں پر حجت ہے اور بہت صحیح ہے۔ لہٰذا مسلمانوں پر رفع یدین کرنا واجب ہے"۔ (قرۃ العینین صفحہ 9)

پھر باپ کی طرح بیٹے خالد گرجاکھی نے بھی اس موضوع روایت کو ثابت کرنے کیلیئے یہ جھوٹ بولا:

"صاحب آثار السنن نے اس حدیث پر تعاقب نہیں کیا۔ گویا اسے درست تسلیم کیا ہے"۔ (جزء رفع یدین صفحہ 71)


حالانکہ محدث نیموی صاحبِ ِ آثار السنن نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔ (حوالہ آثار السنن صفحہ 152)

پھر خالد گرجاکھی نے اثبات رفع یدین کیلیئے اس موضوع روایت کو ثابت کرنے کے لیئے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے اور مولوی یوسف جے پوری وہابی نے تو جھوٹ میں شیطان کو مات کردیا۔ اور اسی موضوع روایت کو فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہدایہ کے حوالہ سے صحیح قرار دیا ہے۔ (حقیقۃ الفقہ، صفحہ 491)

ہم کہتے ہیں کہ ہدایہ کے حوالہ سے اس موضوع روایت کی تصحیح بیان کرنا وہابیوں کا بدترین جھوٹ اور بددیانتی ہے۔ کوئی وہابی ہے جو اس حوالہ کو اصل کتاب عربی سے نکال کردکھائے
؟


قارئین ! موضوع روایت سے استدلال اور ان کا فروغ ، یہ وہابی دھرم کا وطیرہ ہے جس کو ارشاد الحق اثری نے مخفی رکھنے کی سعیِ مذموم کی ہے۔ اختصار مانع ہے وگرنہ اس پر تفصیلی گفتگو ہوسکتی ہے۔ رہا کتب کا غلط انتساب تو یہ بھی وہابی اکابر کا ہی شیوہ ہے۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کی طرف البلاغ المبین وغیرہ کتب کی نسبت وہابیوں نے کررکھی ہے۔

 کتب حدیث کی طرف حوالوں کا غلط انتساب بھی اکابر وہابی علماء کا طریقہ رہا ہے مثلاً مولوی ثناء اللہ امرتسری نے فتاویٰ ثنائیہ میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایات کا بخاری ومسلم اور ان کی شروحات میں بکثرت ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد 1 صفحہ 444)


حالانکہ بخاری ومسلم میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایات کا بکثرت ہونا تو درکنار ایک بھی صریح روایت موجود نہیں ہے۔ پھر مولوی حبیب الرحمٰن یزدانی نے خطبات ِ یزدانی میں امام بخاری کی طرف ایک وضعی باب (المسح علی الجوربین) کی نسبت کی ہے۔ (خطبات یزدانی جلد 1 صفحہ 432)


حالانکہ یہ بھی یزدانی وہابی کا بدترین جھوٹ ہے ۔ ہے کوئی وہابی صحیح بخاری سے وضعی باب دکھانے کو تیار؟وہابیوں کے جھوٹ اگر ان کی کتب کے حوالہ جات سے لکھے جائیں تو شدید طوالت ہوجائے گی۔ صرف ارشاد اثری کے اپنے جھوٹ ملاحظہ کریں تاکہ آپ کو معلوم ہوسکے کہ دوسرے پر کذب و وضع کا الزام لگانے والا خود بڑے کذاب اور وضاع ہے۔


1۔  ارشاد الحق اثری نے محمد بن اسحٰق کی روایت کو صحیح کہنے والوں میں امام ترمذی کا بھی نام لکھا ہے۔ (توضیح الکلام جلد 1 صفحہ 222، جلد 2،صفحہ 153)

 امام دارقطنی کے حوالے سے بھی اسی روایت کو صحیح لکھا ہے۔ (توضیح الکلام جلد 2 صفحہ تین سو اکیاون)

امام حاکم کے حوالہ سے اسے صحیح کہا (حوالہءبالا)۔ امام منذری کے حوالہ سے اسی کو صحیح کہا (دوبارہ حوالہ مذکور)۔

حالانکہ یہ سب جھوٹ ہیں۔ ان آئمہ نے اس روایت کو صحیح کے لفظ سے ہرگز نہ لکھا اور نہ اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ پھر سند کا صحیح ہونا متنِ حدیث کے صحیح ہونے کو کب مستلزم ہے۔اور ان آئمہ نے یہ ہرگز نہیں کہا ہے۔ یہ اثری صاحب (وہابیوں کے محدث) کا بدترین جھوٹ اور افتراء ہے۔ 


2۔ پھر مولوی اثری نے لکھا ہے :

"امام بخاری نے صحیح بخاری میں اِس (معمر) کے تفرد پر کلام کیاہے"۔ (توضیح الکلام جلد 2 صفحہ تینسو تریسٹھ)

حالانکہ یہ بھی مولوی نے جھوٹ بولا۔ معمر کے تفرد پر امام بخاری نے کلام نہیں کیا بلکہ اس کے تفرد کو قبول کیاہے، اسی وجہ سے امام بخاری پر اعتراض کیا گیا ہے۔ اس کو امام ابن حجر عسقلانی نے بیان کیا ہے۔ (حوالہ ؛ فتح الباری جلد 51 صفحہ ایکسو بیالیس)

بلکہ امام ابن حجر کی اس عبارت کو خود وہابی محدث عبدالرحمٰن مبارکپوری نے بھی نقل کرکے اس پر سکوت کیا ہے۔ (تحفۃ الاحوذی جلد دوئم صفحہ تین سو اکیس)۔ اس کا ذکر محدث جلیل امام عینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کیا ہے۔ (عمدۃ القاری جلد تئیس صفحہ 692)


3۔ مولوی ارشاد الحق اثری نے محمد بن اسحٰق کے دفاع میں کہا ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اسے جو کذاب کہا ، امام یحییٰ بن معین نے کہا کہ یہ کلام میں غلطی کی بناء پر امام مالک نے کہا وگرنہ حدیث میں تو وہ ثقہ ہے۔ (ملخصاً، توضیح الکلام ، جلد 1 صفحہ دوسو چالیس)


حالانکہ یہ مولوی ارشاد اثری کا بدترین جھوٹ ہے۔ اس لیئے کہ امام ابن معین کا یہ کلام محمد بن اسحٰق کے بارے میں نہیں بلکہ ہشام بن عروہ کے بارے میں ہے۔ (حوالہ ؛ تاریخ بغداد جلد 1 صفحہ 4-322)

4۔ مولوی اثری نے محمد بن عزیز راوی کی ابن شاہین کے حوالہ سے ثقاہت بیان کی ہے۔ (توضیح الکلام ، جلد 1 صفحہ ایکسو چھیاسٹھ)


یہ بھی جھوٹ در جھوٹ ہے حالانکہ امام ابن شاہین تو کہتے ہیں کہ امام احمد بن صالح اس کے بارے میں بُری رائے رکھتے ہیں ۔( حوالہ۔ تہذیب التہذیب جلد 9 ، صفحہ تین سو پینتالیس)
5۔ اس اثری نے بعض راویوں کوصحاح ستہ کے راوی کہا۔ (توضیح،ایضاً جلد 2، صفحہ 117)

حالانکہ یہ بھی جھوٹ اور کذب بیانی ہے۔ ان مذکورہ راویوں میں سے بقیہ علاوہ (مکحول) صحاح ستہ کے راوی نہیں ہیں اور پھر جہالت کا یہ حال ہے کہ اس اثری کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ امام تفتازانی کی کتاب توضیح ہے یا تلویح۔ یہ اثری توضیح کو امام تفتازانی کی کتاب قرار دیتا ہے۔ (توضیح الکلام، جلد 2 صفحہ 588) 
حالانکہ ان کی کتاب تلویح ہے جو توضیح کی شرح ہے۔

اور جھوٹی حدیثیں گھڑنے کا کام بھی وہابیوں کے اکابر نے کیاہے۔ دیکھیئے مولوی اسماعیل دہلوی نے حضور عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف منسوب کیا کہ میں بھی ایک دن مرکر مٹی میں ملنے والا ہوں۔ (تقویۃ الایمان، صفحہ 16)

ہے کوئی وہابی یہ روایت یا حدیث دکھانے کو تیار؟

اصل میں وضاعِ حدیث ، منکرین حدیث اور کذاب یہ وہابی خودہیں مگر سینہ زوری ہے ان کی کہ یہ الزامات دوسروں پر لگاتے ہیں۔ 

مولوی ارشاد الحق اثری نے اپنے خود ساختہ دلائل سے (الجزء المفقود من المصنف) کو من گھڑت ثابت کرنے کی بدتر کاوش کی ہے۔ حالانکہ اس کو چاہیے تھا کہ وہ موضوع ومن گھڑت کتب کی شرائط و اصول کتاب و سنت سے لکھتا، پھر باقی بات چلتی۔ 

ہم کہتے ہیں کہ جب تمہارے نزدیک آئمہ اربعہ کی تقلید شرک ہے تو دیگر محدثین کی تقلید کیسے جائز ہے؟

"کتاب مخطوطے میں سماع کا ہونا ضروری ہے"۔ کہاں کتاب و سنت میں اس شرط کی اصل موجود ہے؟

اور پھر تمہارا یہ کہنا کہ محدث عیسی بن مانع بھی اسی مخطوطے الجزء المفقود من المصنف پر مطمئن نہیں ہیں۔کیا اس سے اس مخطوطے کا من گھڑت ہونا ثابت ہورہا ہے؟ اور پھر اگر وہ تمہارے سامنے اس الجز المفقود پر مطمئن ہوجائیں تو کیا تمہارے نزدیک یہ الجزء المفقود معتبر ہوجائے گا؟

رہا سماع کا کتاب پر ہونا یا مخطوطے پر ہونا تو وہ کئی کتبِ محدثین ایسی ہیں جن پر محققین نےواضح لکھا ہے کہ اس پر کوئی سماع نہیں ہے ۔ دیکھو مسائل الامام احمد وشرف المصطفیٰ وغیرہ۔ اگر تمہارے اس اصول کو مان لیا جائے تو اس سارے ذخیرہء حدیث سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ متعدد کتب کے اسماء مبارکہ اس موضوع پر لکھے جاسکتے ہیں۔ 


پھر تمہارا اس کے ناسخ کی ثقاہت پر گفتگو کرنا بھی بے سود ہے ، پہلے تمہیں اپنے اس اصول پر پختہ نظریہ رکھتے ہوئے دیگر کتب کے بارے میں یہی نظریہ اپنانا چاہیئے جو کہ ہرگز تمہارا نظریہ نہیں ہے۔ مثلاً جزء رفع یدین اور جزء قراۃ کو تم لوگ امام بخاری کی طرف منسوب کرکے بڑا ان سے استدلال کرتے ہو۔ یہ تو بتاؤ کہ اس کا ناسخ تو ایک طرف اس کا مرکزی راوی محمود بن اسحاق ہی مجہول ہے۔ اس کی ثقاہت تو آج تک تمہارے اکابر سے اصاغر ثابت نہ کرسکے، تمہارے محدث زبیر علی زئی نے بھی اس سے جان چھڑانے کی ہی کوشش کی ہے۔ کیونکہ صریح ثقاہت اس کی تمہارے بس میں ہی نہیں ہے۔ تو ان کتب سے تمہارا استدلال تمہارے کلیہ سے ہی باطل و مردود ہوا۔


پھر مولوی زبیر علیزئی نے جزء رفع یدین جو شائع کیا ہے اس کے ناسخ کا ہی علم نہیں ہے۔ جس کا ناسخ تمہارے مطابق مجہول ہے وہ تو من گھڑت نسخہ ٹھہرا۔ جس کے ناسخ کا ہی پتہ نہیں ہے، وہ قابل اعتبار ٹھہرا؟ ۔ کیا کہنے تمہارے انصاف کے واہ!


رہا تمہارا الجزء المفقود کے ناسخ کو مجہول قرار دینا تو یہ ہرگز معتبر نہیں ہے۔ تمہارے گروابن حزم نے تو امام ترمذی کو بھی مجہول قرار دے دیا تھا۔ (حوالہ ؛ ابن حزم کی کتاب الاتصال، باب الفرائض جس کا تذکرہ میزان الاعتدال اور تہذیب التہذیب میں موجودہے)


اس لیئے تمہاری ساری تقریر ہی ناقابلِ اعتبار ہے۔ اور پھر مجہول کے متعلق تم جو کلیہ بیان کررہے ہو اسکا اثبات بھی کتاب وسنت سے کرووگرنہ اپنے دعویٰ کا بطلان تمہاری اس تحریر نے کردیا ہے۔ یہی ہم کہتے ہیں کہ وہابی دعویٰ قرآن و حدیث کا تو کرتے ہیں مگر قرآن وحدیث سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیںہے۔ اور اگر قرآن مجید سے استدلال کی بات کرتے ہو تو سنو! قرآن مجید نے تو مسلمان کے بارے میں بدگمانی سے منع کیا ہے ۔ (دیکھو سورۃ الحجرات) 
تو جب تک تمہارے پاس جز ء المفقود کے ناسخ پر جرح موجود نہیں ہے تو تمہاری ساری تقریر ہی بے تکی اور ناقابل اعتبار ہے۔


پھر تمہارا یہ کہا کہ "مصنف" کتاب اور ابواب کے تحت مرتب کی گئی ہے مگر الجزء المفقود میں کتاب کا عنوان ہی نہیں ہے۔ کیااس سے کتاب کا من گھڑت ہونا ثابت ہوجاتاہے؟۔ خود جلیل القدر آئمہ محدثین کئی احادیث پر باب نہیں باندھتے یا صرف باب لکھ کر عنوان نہیں لکھتے تو اس سے یہ ساری کتابیں من گھڑت ثابت ہوجائیں گی؟۔ یہ تمہاری جہالت ہے اور صرف اور صرف تمہارا خودساختہ اصول ہے جس کا کتاب وسنت میں کوئی ثبوت نہیں ہے تو گویا جزء المفقود پر تمہارا دعویٰ موضوع ومن گھڑت ہونے کا باطل ومردو د ہے۔

پھر تمہارا الجزء المفقود کے مخطوطے میں شامل احادیث کو کتابت کے تساہل کی وجہ سے من گھڑت کہنا بھی باطل ہے ۔ اس لیئے کہ یہ اصول بھی تمہارا خود ساختہ ہے۔ کتب حدیث میں اغلاط ِ کتابت ہوتی رہتی ہیں۔ جن کی آئمہ محدثین نے نشاندہی بھی فرمائی ہے اور جو غیر معروف کتب ہیں وقتاً فوقتاً اس کی اطلاع ہوہی جاتی ہے مگر اس سے کتاب کا من گھڑت ثابت کرنا تمہاری سینہ زوری ہے۔ کم ازکم اپنے گرو حافظ محمد گوندلوی کی کتاب خیر الکلام صفحہ تین سو چوالیس سے ہی کتب حدیث میں اغلاط کا ہوجانا پڑھ لیتے۔ 


بلکہ تم نے خود کتب حدیث میں زیادت و تنقیص کا ذکر اپنی کتب مثل توضیح الکلام وغیرہ میں کیاہے تو کیا یہ ساری کتب من گھڑت ثابت ہوگئیں؟ ۔ (معاذ اللہ) 


یہ تمہاری حدیث دشمنی نہیں تو اور کیاہے ۔ منکرین حدیث کی حوصلہ افزائی نہیں تو کیاہے؟

اسنا دومتن میں تسامح ہوجانے سے کتاب من گھڑت ثابت کرنا نری جہالت ہے یا خباثت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ا س طرح کی غلطیاں تو کتب صحاح ستہ میں بھی موجود ہیں۔ مثلاً امام بخاری نے ایک سند یوں بیان کی ہے:

"حدثنا عبدالعزیز بن عبداللہ قال حدثنا ابراھیم بن سعد عن ابیہ عن حفص بن عاصم بن مالک بن بحینۃ "۔ (صحیح البخاری جلد 1 صفحہ اکیانوے)


حالانکہ یہ صریح غلطی ہے ۔ اس لیئے کہ بحینہ عبداللہ کی والدہ ہے نہ کہ مالک کی ، حالانکہ امام بخاری نے اسے مالک کی والدہ قرا ردیا ہے۔ بلکہ امام بخاری اس روایت میں آگے لکھتے ہیں؛

"سمعت رجلا من الازد یقال لہ مالک بن بحینۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رای رَجُلاً۔ (حوالہ ء بالا)

اس حدیث کو امام بخاری نے مالک سے روایت کیا ہے حالانکہ یہ روایت مالک کے بیٹے عبداللہ بن مالک سے مروی ہے۔ مالک تو مشرف بہ اسلام بھی نہیں ہوئے تھے۔ امام مسلم، نسائی، ابن ماجہ نے بھی یہ روایت بیان کی ہے مگر اس میں یہ غلطیاں نہیں کیں۔ خود امام ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے؛

"اس روایت میں دو جگہ وہم ہے۔ اول یہ کہ بحینہ عبداللہ کی والدہ ہے نہ کہ مالک کی۔دوسرا یہ کہ صحابی اور راوی عبداللہ ہیں نہ کہ مالک"۔  (حوالہ ؛ فتح الباری جلد 2 صفحہ 092 مترجم)


الجزء المفقود من المصنف پر اغلاط وتساہل وغیرہ کے اعتراضات کرنے والے وہابی اتنا تو بتادیں کہ سند میںاستاد کو شاگرد اور شاگرد کو استاد بنانا جرم ہے اور اس سے کتاب من گھڑت ثابت ہوتی ہے تو کیا یہ کم ظلم ہے کہ کافر کو صحابی اور صحابی کو۔۔۔۔۔۔۔بنا دیا جائے، تو کیا تمہارے اس خود ساختہ اصول سے صحیح بخاری من گھڑت ثابت ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ بعض اغلاطِ کتبِ احادیث ومحدثین کا حوالہ ہم مکاشفہ بلاگ کے آرٹیکلز میں مولوی زبیر علی زئی کے رد میں دے چکے ہیں۔ وہاں سے نوٹس لے لیں۔ اس کے علاوہ بے شمار حوالہ جات موجود ہیں۔ اختصار مانع ہے ورنہ اس پر ایک مبسوط تحریر کیا جاسکتا ہے۔

پھر تمہارا یہ کہنا کہ یحییٰ بن ابی زائد کی الجزء المفقود میں پانچ روایات ہیں۔ باقی پوری مصنف میں ایک بھی روایت نہیںہے اور اس کو تم نے الجزء المفقود کے وضعی ہونے  کی دلیل بنایا ہے جو کہ باطل ومردود ہے۔ پہلے تو تم اپنے اصول کا اثبات کرو اس کےبعد باقی بات کرو۔ کتب حدیث میں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک راوی کی ایک ہی روایت پوری کتاب میں ہو یا ددو یا پانچ ہوں یا ابتداء میں ہوں یا آخر میں ہوں مگر اس سے کتاب کے من گھڑت ہونے کا دعویٰ باطل ہے۔

پھر انقطاع ِ سند کی چند مثالوں سے جز المفقود کو من گھڑت ثابت کرنا بھی وہابیوں کی ہٹ دھرمی ہے ۔ انقطاع ِ سند کا معاملہ تو بیشتر کتب حدیث میں موجود ہے ۔ بلکہ صحیح بخاری میں بھی ہے جس کا حوالہ زبیر علی زئی کے رد میں دیا جاچکا ہے تو کیا یہ سارا ذخیرہ احادیث من گھڑت ثابت ہوجائے گا؟۔ کتب حدیث میں سند کا انقطاع تو تمہیں اپنی کتب مثل توضیح الکلام وغیرہ میں بھی تسلیم ہے۔ اور تمہارے دیگر اکابر کو بھی مسلم ہے مگر اس سے ان کتب کے من گھڑت ہونے کا دعویٰ باطل ومردود ہے۔ تمہارے گرو زبیر علی زئی نے متعدد کتب حدیث سے ایک روایت میں انقطاع سند کا ذکر کیا ہے بلکہ راوی کا صحابی کی وفات کے بعد پیدا ہونا بیان کیا ہے۔ (حوالہ: ماہنامہ الحدیث حضرو، جون 6002ء) 


مگر وہاں کتب حدیث کامن گھڑت ہونا بیان نہیں کیا۔ آخر کیوں؟ اور پھر کسی کتاب میں موضوع روایت کے آجانے سے کتاب موضوع ثابت کرنا وہابیوں کی سینہ زوری ہے۔ 


پھر الجز کی روایات نور میں تعارض ثابت کرنے کی سعی مذموم بھی تمہاری جہالت پر ثبو ت ہے۔ اس لیے کہ اگر روایات میں تقدم وتاخر سے تعارض ثابت ہوتا ہو توقرآن مجید میں (واسجدی وارکھی) سے کیا ثابت ہوگا؟۔ اصل میں وہابیہ اپنی عقل کے بل بوتے پر انکار حدیث پر بڑے جری ہیں ۔ مگر اہلسنت ، حدیث کو ٹھکراتے نہیں ہیں بلکہ حتی المقدور تطبیق کی کوشش کرتےہیں۔ 

اپنی خواہشات ِ نفسانی کی خاطر انکار حدیث وہابیوں کا محبوب مشغلہ ہے۔مثلاً وہابیوں کے محدث گرو، عبداللہ روپڑی سے کسی نے سوال کیا کہ حضور سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اختیار کی بحث میں دو نمازوں کے پڑھنے کی اجازت پر قبول اسلام کی روایت حدیث ہے یا نہیں؟
جواب دیا: یہ حدیث جھوٹی ہے کسی کتاب میں نہیں ہے۔ (فتاوی اہلحدیث؛ جلد 1 صفحہ 793)


حالانکہ یہ مذکورہ روایت مسند امام احمد میں موجود ہے۔ (حوالہ؛ مسند امام احمد جلد 5 صفحہ 52، طبع بیروت۔ جلد 5 ، صفحہ 633، طبع گوجرانوالہ پاکستان)



ان روایات ِ نور میں تطبیق دے دی جائے۔ جیسا کہ آئمہ محدثین نے دی ہے کہ اولیت حقیقیہ نور محمدی کو حاصل ہے، باقی اشیاء کو اولیت اضافی ۔ تو یہ تعارض پیدا نہ ہوگا۔ اور اس صورت میں تعارض ثابت کرنا وہابیوں کی جہالت وخباثت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ خود ہی اس روایت ِ نور کی سند کو بظاہر صحیح بھی تسلیم کیا ہے پھر اور کیا چاہیئے؟


رہا الفاظ کا اختلاف (المواہب اللدنیہ) اور (الجزء المفقود) میںتو اس سے بھی کتاب کا من گھڑت ثابت کرنا وہابیوں کی کمینگی ہے۔ جب نسخوں کے اختلاف کی وجہ سے الفاظ کا اختلاف تمہیں تسلیم ہے تو اس کے باوجود اس پر مُصر ہونا اور اس کو من گھڑت ثابت کرنے کی دلیل بنانا باطل ومردود ہے۔ اس طرح کے الفاظ کا اختلاف تو کتب حدیث ومحدثین میں مل جاتا ہے۔ مگر اختلاف ِ الفاظ سے کتاب من گھڑت ثابت کرنا وہابیوں کی خودساختہ شرط ہے جو کہ باطل ومردود ہے۔
متن میں اضطراب کی مثالیں کتب حدیث میں بیشمار ہیں مگر یہ کلیہ کسی بھی محدثین کرام کے گروہ کا نہیں ہے کہ اس سے کتاب من گھڑت ثابت ہوجاتی ہے۔ یہ وہابیوں کی خباثت ہے جو کہ عظمت رسول کے خلاف ان کی مہم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

حرف آخر:

وہابیوں لہابیوں کی دشمنی رسول اس سے واضح ہورہی ہے کہ صرف عظمتِ رسول کے اظہار پر وہابیوں کے ہاں صفِ ماتم بچھ گئی اور یہ کسی صورت ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ 


الجزء المفقود من المصنف کے معتبر ہونے کے لیئے اتنا ہی کافی ہے کہ جلیل القدر آئمہ محدثین کرام نے حدیث نور کو اس 

مصنف کے حوالہ سے بیان کیاہے، اس الجزء المفقود میں باسند صحیح موجود ہے۔ اسی الجزء المفقود کے الفاظ سے اس روایت کو شیخ ابن العربی نے تلقیح الفہوم میں نقل کیا ہے۔ مگر ستیاناس ہووہابیہ کی گندی ذہنیت کا، عظمت مصطفیٰ تو انہیں ایک لمحہ کے لیئے بھی نہیں بھاتی۔ اس موضو ع پر ان کی طرف سے تین مضامین شائع کیئے جاچکے ہیں ۔ جبکہ تینوں کا الحمدللہ، پوسٹ مارٹم علماءے اہلسنۃ نے بخوبی کردیا ہے۔تینوں مضامین پر مزید بھی جلد آرٹیکلز پیش کیئے جائیں گے ۔ تینوں میں چونکہ کافی دلائل خودساختہ کی مماثلت تھی۔ اسی لیئے زیادہ تفصیل سے انگلش آرٹیکل میں بیان کردی گئی تھی۔وہابیوں کو چاہیئے کہ اپنے خودساختہ دھرم کے اصولوں کو مدنظر رکھیں اور اگر کچھ ثابت کرنا چاہیں تو صرف اپنے "دعویٰء کتاب وسنت" کے مطابق صرف کتاب وسنت سے ہی ثابت کریں اور قیاس کرکے اپنے بقول شیطان نہ بنیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ تاجدارِ کائنات کے صدقے میں ہمیں ان گمراہ بے دین لغو، مکار، منافق، جھوٹے اورافتراء پرداز فرقوں سے حفاظت و سلامتی عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی (صلی اللہ علیہ وسلم


انتخاب از، علمی محاسبہ ۔ حضرت مولانا ابوحذیفہ محمد کاشف اقبال رضوی مدنی ۔ سرپرست انجمن فکر رضا پاکستان۔
تقدیم۔ حضرت علامہ مولانا ابوالحقائق غلام مرتضیٰ ساقی مجددی ۔ 
پیشکش؛ مجذوب القادری،عمران اکبر ملک

کمپوزنگ ۔ ضرب حق  برائے مکاشفہ ورڈ پریس ڈاٹ کام



اس پوسٹ کو صحیح اردو فونٹس میں پڑھنے کے لیئے نیچے دیئے گئے ریگولر بلاگ پر وزٹ کریں شکریہ۔



Tuesday, 11 November 2014

Translation of a Passage from Imam Abdul-Wahab-Al-Shaaraani (rt)'s Arabic Work

Manuscript: al Yawaqeet al Jawahir
Writer: Imam - Qutub al Rabbani, Sheikh Abdul-wahab-al-Shaarani (rt)
Translation: Urdu / English (courtesy ZH)


انتخاب، از الیواقیت الجوھر، از امام عارف الربانی، قطب شیخ امام عبدالوہاب الشعرانی رحمتہ اللہ علیہ!


ترجمہ اردو:

تیسرا باب : اہل طریقت کی طرف سے عذر


کے بیان میں وہ ایسی گفتگو فرماتے ہیں جو ان کے علاوہ دوسرے کے لیئے پیچیدہ ہوتی ہے:۔

"جان لو اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے! کہ قوم کے لیئے اُمورِ طریقت میں رمز کی دلیل وہ ہے جوکہ بعض احادیث میں روایت کی گئی کہ رسول پاک (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ایک دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "کیا تُو جانتا ہے فلاں دن فلاں دن۔ عرض کی : "جی ہاں" یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے مجھ سے یوم ِ مقادیر کے بارے میں پوچھا ہے۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے ایک دن فرمایا ؛ اے ابوبکر! کیا تجھے معلوم ہے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ عرض کی؛ جی ہاں۔ وہ  وہ ہے، وہ وہ ہے ۔ اسے تاج الدین بن عطاء اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی بعض کتابوں میں حکایت فرمایا"۔ 

شیخ محی الدین رحمتہ اللہ علیہ  کی وضاحت:



"اور شیخ محی الدین رحمتہ اللہ علیہ  نے فتوحات کے 45 ویں باب میں یوں فرمایا ہے ؛ "جا ن لو کہ اہل اللہ نے وہ اشارات جن پر اپنے مابین اصطلاحات رکھی ہیں اپنے لیئے وضع نہیں کیئے کیونکہ وہ تو اس حق میں صریح واقف ہیں ۔ یہ صرف اپنے درمیان داخل ہونے والے کو روکنے کے لیئے وضع کی ہیں حتیٰ کہ وہ اس حال کو نہ پہچان سکے جس پر وہ فائز ہیں۔ اور یہ اس شفقت کے طور پر کرتے ہیں کہ کہیں ایسی چیز سن لے جس تک اس کی رسائی نہیں پس اہل ِ اللہ پر انکار کردے تو اسے اس کی محرومی پر سزا دی جائے پس وہ پھر کبھی اسے نہ پاسکے گا۔ نیز فرماتے ہیں کہ اس راستے میں سب سے عجیب شئے جو کہ اس کے سوا کہیں پائی نہیں جاتی یہ ہے کہ منطقیوں ، نحویوں، اہل ہندسہ وحساب ، علم الکلام والوں اور فلسفیوںمیں سے جو گروہ بھی کسی علم کا حامل ہے ان کی اپنی اصطلاح ہے جسے ان میں داخل ہونے والا نہیں جانتا مگر جب وہ خود اسے واقفیت بخشیں۔ اس کے سوا چارہ نہیں مگر اس راستے والوں کا خصوصیت کے ساتھ یہ حال ہے کہ مرید صادق جب ان کے طریق میں داخل ہوتا ہے جبکہ اسے ان اصطلاح کی کوئی خبر نہیں ہوتی ۔ اور ہم نشینی کرتا ہے اور ان سے مبنی براشارات گفتگو سنتا ہے تو وہ ساری گفتگو سمجھ لیتا ہے گویا اس اصطلاح کا وضع کرنے والا وہی ہے اور وہ اس علم میں گفتگو میں ان کے ساتھ شریک ہوجاتا ہے۔ اور وہ اپنی طرف سے اس میں اجنبیت محسوس نہیں کرتا، بلکہ اس کا علم ضروری پاتا ہے۔ اسے روک نہیں سکتا۔ گویا وہ اسے شروع سے ہی جانتا ہے۔ اور نہیں جانتا کہ اسے علم کیسے حاصل ہوا۔ یہ مریدِ صادق کی شان ہے۔ رہا کاذب تو وہ واقفیت دلائے بغیر اسے نہیں پہچان سکتا۔ اور اس کے اخلاص فی الارادہ اور اس کی طلب کے بغیر قوم میں سے کوئی بھی اس پر سخاوت نہیں کرتا"۔ (یعنی علم سے نہیں نوازا جاتا)

"اور ہر دو ر میں علماء ظاہر قوم (یعنی صوفیاء) کی کلام وفہم میں توقف کرتے رہے (یعنی احتیاط، یعنی کفر شرک  کے فتوے سے پرہیز)۔ اور امام احمد بن سریج ایک دن جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ ان کی کلام سے آپ کیا سمجھے؟ فرمایا؛ معلوم نہیں ! لیکن ان کی گفتگو کا رعب دل میں ظاہر پاتا ہوں۔ جو کہ باطنی عمل اور ضمیر کے اخلاص پر دلالت کرتا ہے۔ اور ان کا کلام کسی باطل پرست کا کلام نہیں ۔ انتہی۔ 

"پھر یہ حضرات اشارہ کے ساتھ صرف اس وقت بات کرتے ہیں جب ان کے پاس وہ شخص حاضر ہو جو ان میں سے نہیں یا ان کی تالیف میں ہو۔ پھر فرمایا؛ مخفی نہ رہے کہ باطل پرست دشمن کا انکار اصل میں صرف حسد کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ اور اگر یہ منکر حسد ترک کردیتے اور اہل اللہ کے راستے پر چلتے تو ان سے کوئی انکار ظاہر ہوتا نہ حسد ۔ اور اُن کے علم کے ساتھ ساتھ اِن کا علم بھی زیادہ ہوتا۔لیکن یہ ایک امر مقدر تھا۔ فلاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم۔ اور اس بارے میں طویل کلام فرمایا۔"

"پھر فرمایا کہ عطیہء الٰہی کے علم والوں کے شدید دشمن ہردور میں بے ادب اہل جدال ہیں۔ اور ان پر یہی لوگ شدید انکار کرنے والے ہیں۔ اور جب عارفین نے یہ امر پہچانا تو اشارات کی طرف پھر گئے جیسے افک و الحاد والوں کی وجہ سے حضرت مریم علیہم السلام اشارہ کی طرف پھر گئیں۔ پس ان کے نزدیک ہر آیت یا حدیث کی دو وجہیں ہیں۔ ایک وجہ جسے وہ اپنے آپ میں دیکھتے ہیں اور ایک وجہ اس میں دیکھتے ہیں جو کچھ ان سے خارج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ سنریھم آیاتنا فی الآفاق وفی انفسھم (حٰم سجدہ ؛ آیت 35)  ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں اور ان کے نفسوں میں دکھائیں گے"۔ پس یہ حضرات جوکچھ اپنے آپ میں دیکھتے ہیں اسے اشارہ کا نام دیتے ہیں۔ تاکہ منکرین ان پر مانوس ہوں اور یہ نہ کہیں کہ یہ اس آیت کی یا حدیث کی تفسیر ہے۔ اور ایسا ان کے شر سے اور فتویٰء کفر سے بچنے کے لیئے کرتے ہیں کہ تہمت ِ کفر لگانے والے خطاب ِ حق کے مواقع سے جاہل ہیں۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے اسلاف کی سنتوں کی پیروی کی ہے۔

بے شک اللہ تعالیٰ قادر تھا کہ اہل اللہ وغیرہم ، نے جن مسائل کو تاویلاً بیان کیا ہے اپنی کتا ب میں آیات متشابہات اوراوائل سورہ کی طرح نصاب میں بیان فرما دیتا۔ اس کے باوجود ایسا نہیں کیا بلکہ ان کلمات و حروف ِ الٰہیہ میں ایسے مخصوص علوم درج فرما دیئے جنہیں اس کے صرف منتخب بندے ہی جانتے ہیں۔" 


منکرین کو دعوت انصاف:

"اور اگر منکرین انصاف کرتے تو اپنے آپ میں عبرت حاصل کرتے جب وہ ظاہری آنکھ سے آیت میں نظر کرتے ہیں جسے وہ اپنے مابین تسلیم کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ اس میں ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں اور اس آیت کے معنوں میں کلام اور فہم میں ان کا بعض ، دوسروں پر فائق ہے۔ اور ان میں سے جو غیر قاصر کی فضیلت کا اقرار کرتا ہے ۔ اور سب ایک ہی نہج پر ہیں۔ اور اپنے مابین مشہور باہمی فضیلت کے باوجود جب اہل اللہ کوئی ایسی چیز لاتے ہیں جو ان کے ادراک سے گہری ہے تو ان پر انکار کرتے ہیں۔"

اہل اللہ کے متعلق منکرین کا غلط عقیدہ:

"اور یہ سب کچھ اس لیئے کہ وہ اہل اللہ کے بارے میں عقیدہ ہی نہیں رکھتے کہ انہیں شریعت کا علم ہے اور انہیں جہالت اور گمراہی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ علی الخصوص اگر انہوں نے علماء ظاہر سے نہیں پڑھا۔ اور یہ لوگ اکثر کہتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس علم کہاں سے آیاکہ ان کا عقیدہ ہے کہ علم کسی تک نہیں پہنچتا مگر کسی معلم کے ذریعے۔ اور وہ اس میں سچے ہیں، کیونکہ قوم ِ صوفیاء نے جب اپنے علم پر عمل کیا توانہیں اللہ تعالیٰ نے اعلام ربانی کے ساتھ اپنی طرف سے علم عطا فرمایا جسے ان کے دلوں میں شریعت کے عین مطابق نازل فرمایا۔ ایک ذرے کے برابر بھی اس سے باہر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نےفرمایا؛ خلق الانسان علمہ البیان۔ (الرحمٰن) ۔ انسان کو پیدا فرمایا، اسے بیان سکھایا۔ نیز فرمایا علم الانسان مالم یعلم ۔ انسان کو وہ کچھ پڑھایا جو نہیں جانتا تھا۔اور  اپنے بندے حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق فرمایا ۔ وعلمناہ من لدنا علما۔ اور ہم نے اسے اپنے ہاں سے علم پڑھایا تو منکرین نے اپنے قول میں سچ بولا کہ علم صرف معلم کے واسطے سے ہی ہوتا ہے۔ اور اپنے عقیدے میں غلطی کرگئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نہیں پڑھایا،جو نبی ہے نہ رسول ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (یؤت الحکمتہ من یشاء (البقرۃ آیت 962)) جسے چاہے حکمت عطا فرماتا ہے۔ اور حکمت ہی علم ہے۔ اور یہاں من لایا گیا جو کہ نکرہ ہے۔ لیکن ان منکروں نے جب دنیا میں بے رغبتی ترک کردی اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دی جو کہ اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کرتی ہے اور علم کتابوں اور لوگوں کے مونہوں سے حاصل کرنے کی عادت بنا لی تو انہیں یہ جاننے سے حجاب میں کردیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے ہیں جن کے سرائر میں ان کی تعلیم کا وہ خود متولی ہے،کیونکہ پورے موجودات کا معلم حقیقی وہی ہے اور اس کا علم ہی علم ِ صحیح ہے جس کے کمال میں مومن اور غیر مومن شک نہیں کرتے۔کیونکہ جن لوگوں نے پہلے یہ قول کیا کہ حق تعالیٰ کا علم جزئیات کے ساتھ متعلق نہیں انہوں نے جزئیات کے ساتھ علم الٰہی کی نفی کا ارادہ نہیں کیا۔ ان کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ حق تعالیٰ تمام اشیاء کلیات وجزئیات کو علم واحد کے طور پر جانتا ہے پس اپنے علم بالجزئیات کے لیئے جزئیات کی تفصیل کی ضرورت نہیں جیسے کہ یہ مخلوق کے علم کا حال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے ۔ پس انہوں نے اس کے علم کی تفصیل پر موقوف ہونے سے تنزیہہ کا ارادہ کیا۔ پس ان لوگوں نے تعبیر میں غلطی کی۔ پس معلوم ہوا کہ جس کا معلم اللہ تعالیٰ ہو ۔ وہ پیروی کا اس شخص سے زیادہ مستحق ہے جس کا معلم اس کا فکر ہو۔ لیکن انصاف کہاں؟ اور اس میں طویل کلام فرمایا۔"

آخری بات:


جیسا کہ آپ نے پڑھا کہ امام عبدالوہاب الشعرانی رحمتہ اللہ علیہ ، امام قطب ربانی حضرت محی الدین ابن العربی رحمتہ اللہ علیہ کے فرمودات کا اپنی کتا ب میں ذکر کررہے ہیں کہ جو شانِ اولیاء کے بارے میں ہے۔ اور اس میں منکرینِ کرامات ِ اولیاء اور وہ لوگ جو ان کے خلاف شکوک و شبہات کا شکار ہوتے ہیں اور جن کے دماغوں میں اپنے کہے مولوی کے ہی الفاظ پھرتےہیں وہ سیدی کے قول کے مطابق ظاہری ہیں۔ اور ان کے سارے سوالات کے جوابات قطب ربانی ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کے ان فرمودات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ دراصل، منکرین خود اس علم کے اہل ہی نہیں ہیں۔ مثل مشہور ہے، برتن میں جتنی گنجائش ہوتی ہے اُس میں اتنا ہی پانی ڈالا جاسکتا ہے۔ ہمیں اللہ رب العزت سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں ان فرمودات وارشادات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور بے دین فرقوں سے دوری عطا کرے۔ بجاہ النبی آمین۔

(ترجمہ ؛ مجذوب القادری)
(کمپوزنگ، انگریزی رف ٹرانسلیشن، زیڈ کے آفریدی)
برائے مکاشفہ ورڈ پریس ڈاٹ کام۔



For Reading it in Proper Urdu Fonts and English Translation Please Visit My Regular Site by Clicking here!

Tadween al Quran wa Mushaf e Usmani wa Aitrazat Wa Jawabat